
لاہور کے سبزہ زار میں ایک معمولی دودھ فروش کی دکان پر ہونے والا ایک غیر معمولی واقعہ لوگوں کے دلوں میں حیرت کی لہر دوڑا گیا۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ 500 روپے کا ایک عام نوٹ آپ کی قسمت کا دروازہ کھول سکتا ہے؟ لیکن ملک ہارون کے ساتھ کے ساتھ کچھ ایسا ہوا، جس نے 500 کے نوٹ کو کروڑوں کا بنا دیا۔ یہ کہانی صرف ایک حسین اتفاق کی نہیں، بلکہ اس بارے میں ہے کہ زندگی کے چھوٹے سے لمحے کیسے آپ کی دنیا بدل سکتے ہیں۔ کیا آپ جاننا چاہیں گے کہ یہ حیرت انگیز قصہ کیا ہے؟ آئیے، اس ناقابل یقین حقیقت کی پرتیں کھولتے ہیں!
کہتے ہیں کہ اتفاقات زندگی میں کبھی کبھار جادو جگا دیتے ہیں۔ لاہور کے سبزہ زار میں دودھ فروش ملک ہارون کے ساتھ ایسا ہی ایک اتفاقی واقعہ پیش آیا، جس نے ان کی زندگی کو یکسر بدل دیا۔ ایک معمولی 500 روپے کا نوٹ، جو ہزاروں ہاتھوں سے گزرتا ہوا آخرکار ان کے پاس آیا، ان کی خوش قسمتی کا نشان بن گیا۔
ملک ہارون کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو پیڑھیوں سے دودھ کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ ان کے آبا و اجداد دیہی علاقوں سے دودھ لا کر بیچتے تھے۔ لیکن جب گاہک ملاوٹ والے دودھ کی مانگ کرنے لگے، تو 2012 میں ملک ہارون کے بقول، انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خالص دودھ بیچنے کے لیے اپنی دکان کھولیں گے۔
دسمبر 2023 تک، وہ لاہور کے سبزہ زار اور اقبال ٹاؤن میں دو دکانوں کے مالک بن چکے تھے۔ یہ شرقپور اور دیگر دیہاتی علاقوں سے دودھ لا کر فروخت کرتے تھے۔ ایک عام دن کی طرح ایک گاہک نے ان کی دکان پر آکر 500 روپے کا نوٹ دیا۔ لیکن اس دن کچھ خاص تھا۔۔
یہ سبزہ زار لاہور میں دسمبر 2023 کا ایک سرد اور عام دن تھا۔ بازار میں قائم دودھ فروش کی ایک عام سی دکان پر ایک معمولی سا لین دین ہوا۔ خریدار نے 500 روپے کا نوٹ بطور ادائیگی دیا لیکن کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ معمولی سا لین دین ایک حیران کن اتفاق میں بدل جائے گا۔
ملک ہارون یہ کہانی کچھ یوں بیان کرتے ہیں ”میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ میرے ملازم کی کال آئی۔ اس نے بتایا کہ آپ دکان پر آئیں آپ کے لیے ایک تحفہ ہے۔ میں دکان پر پہنچا تو ملازم نے مجھے 500 روپے کا ایک نوٹ تھما دیا۔ میں نے کہا یہ تو صرف ایک نوٹ ہے اس میں بڑی بات کیا ہے؟ اس پر ملازم نے بتایا کہ ’آپ نوٹ کا نمبر پڑھیں۔‘ جب میں نے نوٹ کا نمبر پڑھا تو میں حیران رہ گیا۔“
ان کے بقول ”نوٹ کا نمبر 8077786 تھا۔ میرا موبائل نمبر بھی یہی ہے بس کوڈ کا فرق ہے، کیونکہ نوٹ پر تو کوڈ دیا نہیں جاتا۔“
ملک ہارون کہتے ہیں، ”میرے لیے یہ کسی عجوبے سے کم نہ تھا کیونکہ اسٹیٹ بینک کسی سے پوچھ کر تو نمبر نہیں لگاتا لیکن یہ حسین اتفاق میرے ساتھ ہی ہوا ہے۔“
یہ نوٹ ملتے ہی ملک ہارون کی قسمت بدل گئی۔ ایک طرف وہ اس اتفاق کو اپنی خوش قسمتی قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف وہ اسے عزت اور اپنے روزگار میں برکت کا ذریعہ بھی قرار دے رہے ہیں۔ جلد ہی یہ خبر پورے علاقے میں پھیل گئی، اور لوگوں کی توجہ اس نوٹ کی طرف مبذول ہو گئی۔
اب اس نوٹ کی بڑی بولیاں لگ رہی ہیں۔ پشاور کے ایک شخص نے ملک ہارون کو کال کر کے کہا کہ وہ یہ نوٹ خریدنا چاہتا ہے اور منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہے۔
ملک ہارون بتاتے ہیں ”لاہور کے ایک شہری آج تک میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا اب تک اس نوٹ کی بولی لگی ہے؟ تو میں نے مختلف لوگوں کی پیش کش کا حوالہ دیا۔ انہوں نے مجھے فوری طور پر ایک لاکھ ڈالر کی پیش کش کی جو پاکستانی پونے تین کروڑ روپے سے زائد بنتے ہیں۔“
لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ کچھ لوگوں نے دلچسپ پیشکشیں بھی کیں۔ ایک شخص نے نوٹ کے بدلے اپنی دیسی بھینس دینے کی پیشکش کی، جو روزانہ 10 کلو دودھ دیتی ہے!
ملک ہارون کا کہنا ہے کہ یہ نوٹ ان کے لیے ایک نعمت بن گیا ہے۔ ”یہ نمبر میں نے 2013 میں خریدا تھا، اور یہ میرے لیے ہمیشہ خوش قسمت ثابت ہوا۔“ ان کے مطابق، نوٹ 2021 میں پرنٹ ہوا تھا، اور قسمت کی لکیریں اسے ان کی دکان تک لے آئیں۔
”آپ دیکھیں کہ نوٹ 2021 میں پرنٹ ہوا ہے لیکن ہوتے ہوتے یہ نوٹ مجھ تک میری ہی دکان کے ذریعے پہنچا ہے۔“
آج ملک ہارون نہ صرف ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں بلکہ شہرت بھی ان کے قدم چوم رہی ہے۔ لوگ ان کی دکان پر آ کر ان کے ساتھ سیلفیاں لیتے ہیں اور یہ قصہ سن کر متاثر ہوتے ہیں۔
ملک ہارون نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ یہ نوٹ اور موبائل نمبر بیچنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ”یہ نوٹ میرے لیے خوش قسمتی اور برکت کی علامت ہے۔ یہ میرے کاروبار اور زندگی میں عزت کا ذریعہ بنا ہے، 2023 میں ہی میری شادی ہوئی۔ اسی طرح میرے کاروبار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ میں اسے کسی قیمت پر نہیں چھوڑ سکتا۔“
500 روپے کا یہ نوٹ صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا نہیں رہا۔ یہ ایک ایسی کہانی بن چکا ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ زندگی کے غیر متوقع لمحات کس طرح ہماری زندگی کو بدل سکتے ہیں۔ کبھی کبھار قسمت ہمارے دروازے پر آ کر دستک دیتی ہے، اور یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اسے کیسے قبول کرتے ہیں۔