جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے پر کام جاری ہے، وفاقی وزیر. جبری گمشدگیاں بڑھی ہیں، انسانی حقوق کمیشن

نیوز ڈیسک

اسلام آباد : وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ پاکستان جبری گمشدگی کو جرم بنانے کے عزم میں آگے بڑھ رہا ہے، جمہوریت میں اس طرح اقدامات ناقابل قبول ہوتے ہیں

دنیا بھر میں منائے جانے والے عالمی یوم گمشدگی کے موقع پر انہوں نے بتایا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے گزشتہ ہفتے جبری گمشدگی پر ایک بل منظور کیا ہے

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ کسی حکومت نے جبری گمشدگی پر اقدام نہیں کیا اور وقت ضائع ہوا’

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد بل پارلیمانی کمیٹی سے منظور ہوا

انہوں نے بتایا کہ وزارت انسانی حقوق کے پہلے اجلاس میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سابق چیئرمین نے شرکت کی تھی جو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے بعد یہ بل قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر دستیاب تھا لہٰذا یہ کہنا کہ کسی کو اس کے مواد کا علم نہیں مضحکہ خیز ہے، ایوان میں اور کمیٹی میں کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والا لاپتا افراد کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی تھی جنہوں نے اپنے گمشدہ افراد کی تفصیلات فراہم کی تھیں، ان میں سے کچھ واپس آچکے ہیں جبکہ کچھ کا سراغ لگالیا گیا ہے

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے معاملے پر تبادلہ خیال کے لیے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ جنجوعہ سے بھی ملاقات کی تھی

وفاقی وزیر نے اس مسئلے پر ردِ عمل نہ دینے پر سابقہ حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو حکومتوں میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے وزرا نے جبری گمشدگی کو تسلیم تک نہیں تھا تو اہلِ خانہ سے ملاقات تو دور کی بات ہے

خیال رہے کہ جون میں پی پی پی نے کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کردہ بل اس خطرے کو ختم نہیں کرے گا کیونکہ اس پر مزید غور و فکر اور ترمیم کی ضرورت ہے

رہنما پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر کا نقطہ نظر تھا کہ جبری گمشدگیوں کو علیحدہ خود مختار جرم سمجھا جانا چاہیے اور اس کی شکایات، مجرموں کے احتساب اور متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ فراہم کرنے کے لیے الگ قانونی طریقہ کار کی ضرورت ہے

پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل نے بل میں جلد بازی کرنے پر خبردار بھی کیا تھا اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی میں مدعو کرنے یا عوامی سماعت کے انعقاد پر زور دیا تھا

قبل ازیں 19 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ وفاقی دارالحکومت میں ’جبری گمشدگیوں‘ کے ذمہ دار ہیں ساتھ ہی عدالت نے 2015 سے اس عہدے پر فائز وزرائے اعظم کی فہرست بھی طلب کی تھی

دوسری جانب پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سربراہ حنا جیلانی کے خیال میں صرف قانون سازی کے ذریعے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا

ان کا کہنا ہے کہ قانون پر عمل درآمد کے لیے مضبوط اداروں کا قیام اور سنجیدہ اپروچ کے ذریعے ہی انہیں عام شہریوں کے لیے فائدہ مند بنایا جا سکتا ہے

انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں میں قانون سازی کا ٹرینڈ بہت مثبت رہا، لیکن اس عرصے میں بنایا گیا کوئی قانون آپریشنل نہیں ہے، کیونکہ کوئی ادارہ ہی نہیں بنایا گیا

حنا جیلانی کا مزید کہنا تھا تحریک انصاف حکومت کی پروپیگنڈہ مشین بہت اچھی ہے، لیکن سب سے بڑی کوتاہی یہ ہے کہ قوانین جن ایشوز کو ڈیل کرتے ہیں وہ خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت جبری گمشدگی سے متعلق قانون کا بل بھی تیار کر چکی ہے، جو قومی اسمبلی کی داخلہ امور کی کمیٹی نے منظور کر لیا ہے

انہوں نے امید ظاہر کی کہ جبری گمشدگی سے متعلق قانون جلد ہی پارلیمان سے منظور کروا لیا جائے گا

تاہم حنا جیلانی کے مطابق تحریک انصاف حکومت کے تین سالوں کے دوران جبری گمشدگیوں کا جغرافیائی دائرہ بڑھا ہے۔ ’اب بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے علاوہ پنجاب سے بھی لوگوں کو اٹھائے جانے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، جو بہت تشویشناک ہیں۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close