ایک بہت ہی پرانا لطیفہ ہے جو حال ہی میں میرے ایک دوست نے تیسری مرتبہ سنایا اور مروتاً مجھے اس پر تیسری دفعہ ہنسنا پڑا۔ انشورنس کمپنی میں نیا بھرتی ہونے والا سیلز مین اپنی ملازمت کے پہلے دن جب مختلف لوگوں سے ملاقات کر کے واپس دفتر پہنچا تو اس کے تجربہ کار منیجر نے پوچھا کہ سناؤ کام کا پہلا دن کیسا رہا۔ اس نے کہا ”سر لوگوں نے جو گالیاں دیں ان کے سمیت بتاؤں یا گالیوں کے بغیر؟“ منیجر نے کہا کہ نہیں گالیوں کے علاوہ بتاؤ انہوں نے کیا کہا۔ سیلز مین نے جواب دیا ”پھر کسی نے کچھ نہیں کہا، سر!“
ہر لطیفے میں کچھ نہ کچھ مبالغہ ضرور ہوتا ہے جو مزاح کا باعث بنتا ہے مگر جس دوست نے مجھے یہ لطیفہ سنایا اسے کم از کم اس لطیفے میں کوئی مبالغہ آمیز بات نہیں لگی کیونکہ میرے اس دوست کو ایک پاکستانی بیمہ کمپنی نے ایسا ڈنگ مارا ہے کہ وہ روزانہ صبح نہار منہ اٹھ کر انہیں گالیاں دیتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی بیمہ کمپنی ہے، اس کمپنی کی شاخیں ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہیں، اس کی ویب سائٹ پر موجود دعووں کو پڑھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ کمپنی محض آپ کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔
اس کے ایجنٹ جب لوگوں کے پاس بیمہ پالیسی لے کر جاتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ آپ اب محفوظ ہاتھوں میں ہیں، آپ نے اپنے بچوں کے لیے ایک بہترین فیصلہ کیا ہے، کسی بھی مصیبت یا آفت کی صورت میں آپ کو پشیمان ہونے کی ضرورت نہیں، ہم جانیں اور ہمارا کام، آپ بس بیمے کی قسط بروقت ادا کرتے رہیں۔ اسی قسم کی لچھے دار باتوں سے متاثر ہو کر میرے اس سیانے بیانے دوست نے بھی کمپنی کی پالیسی خرید لی، اس کی سالانہ قسط پانچ لاکھ روپے بنتی تھی، بیمہ ایجنٹ نے کمال مہربانی سے کام لیتے ہوئے میرے دوست کو تیس چالیس ہزار کی رعایت بھی دے دی کہ یہ پیسے وہ اپنی کمیشن میں سے چھوڑ رہا ہے۔
یوں ہمارے دوست کا اس بیمہ ایجنٹ پر اعتماد مزید پختہ ہو گیا، اس نے جیسے جیسے کہا ہمارے دوست نے بالکل ویسے ویسے بیمہ پالیسی پر دستخط کر دیے۔ ہمارا یہ دوست اچھا خاصا سمجھدار آدمی ہے اور بغیر پڑھے کسی کاغذ پر دستخط نہیں کرتا، ان کاغذات کو بھی جب اس نے پڑھا تو بیمہ ایجنٹ سے پوچھا کہ میاں تم اس پالیسی کا جو ’ریٹرن‘ بتا رہے ہو وہ تمہاری کمپنی کی گزشتہ پانچ برس کی کارکردگی سے میل نہیں کھاتا، یہ کیسے ممکن ہے کہ پچھلے سال تم نے چھ فیصد منافع دیا اور اگلے پندرہ برسوں میں تم میری سرمایہ کاری دگنی کر کے لوٹاؤ گے۔
اس پر بیمہ ایجنٹ نے بھرپور اعتماد کے ساتھ جواب دیا کہ سر آپ بے فکر رہیں، یہ محض کاغذی کارروائی ہوتی ہے، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن والوں نے ہمیں پابند کر رکھا ہے کہ ہم اس طرح نمونے کی مثالیں اپنے کاغذات میں شامل کریں، ہم نے آپ کو جو تحفظ فراہم کرنا ہے وہ تو ہماری ذمہ داری، آخر گزشتہ دو دہائیوں سے یہ کمپنی یونہی تو لوگوں کے ’انشورنس کلیم‘ ادا نہیں کر رہی! بات میں دم تھا سو ہمارے دوست نے دستخط کر دیے۔
اگلے دو برس تک ہمارا دوست باقاعدگی سے بیمے کی قسطیں ادا کرتا رہا۔ دو سال بعد اسے خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اپنی پالیسی کی موجودہ مالیت دیکھے کہ دو برسوں میں اس کے ادا کردہ دس لاکھ بڑھ کر کتنے ہو گئے! اس نے بیمہ ایجنٹ کو فون کر کے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ سر آپ ہماری ویب سائٹ پر جا کر ’لاگ ان‘ کریں وہاں سے آپ کو اپنے ’یونٹ‘ کی مالیت معلوم ہو جائے گی۔ جب اس ضرورت سے زیادہ سیانے دوست نے اپنے اکاؤنٹ سے لاگ ان کیا تو یہ دیکھ کر اس کا ماتھا ٹھنکا کہ اس کے دس لاکھ گھٹ کر ساڑھے چھ لاکھ رہ گئے ہیں۔
اس بارے میں جب اس نے کمپنی سے مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ پہلے تو کمپنی اس کے ادا کردہ پریمیم میں سے ایک بڑی رقم سیدھی اپنے کھاتوں میں لے جا چکی ہے اور یہ بات بیمہ پالیسی پر دستخط کرواتے وقت اسے بالکل واضح نہیں کی گئی تھی۔ دوسرا انکشاف یہ ہوا کہ کمپنی نے اس کے پیسے شیئر بازار میں لگائے تھے جن میں، بقول کمپنی کے، گھاٹا ہو گیا تھا لہذا اب آپ کے پیسے دس لاکھ کی بجائے ساڑھے چھ لاکھ رہ گئے ہیں۔ میں اس قصے کی مزید تفصیل سنا کر آپ کو بور نہیں کرنا چاہتا، مختصراً یہ کہ کمپنی کے اس فراڈ اور دھوکہ دہی کے خلاف اس نے گزشتہ ڈیڑھ سال سے انشورنس محتسب کے پاس شکایت درج کروا رکھی ہے جس کا اب تک فیصلہ نہیں ہو سکا کیونکہ بظاہر ان طاقتور بیمہ کمپنیوں کے سامنے محتسب جیسا ادارہ بھی بے بس ہے۔
اس قسم کے فراڈ کا دفاع کمپنی یہ کہہ کر کرتی ہے کہ کلائنٹ نے جن کاغذات پر سوچ سمجھ کر دستخط کیے تھے ان میں لکھا تھا کہ اس کا پیسہ شیئر وغیرہ کے کاروبار میں لگایا جا سکتا ہے جس میں نفع اور نقصان دونوں کا اندیشہ ہے۔ یہ دلیل بے حد بودی ہے کیونکہ بیمہ کمپنیوں کا تو دعویٰ ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کے مستقبل کی ضامن ہوں گی نہ کہ حصص جیسے کاروبار میں اندھا دھند سرمایہ کاری کر کے پیسے ڈبو دیں گے۔ آج بھی تمام بیمہ کمپنیوں کا یہی نصب العین ان کی ویب سائٹ پر درج ہے، کوئی بھی کمپنی یہ نصب العین نہیں لکھتی کہ وہ سٹاک مارکیٹ میں سٹہ کھیل کر آپ کے مستقبل کو داؤ پر لگائے گی۔
اس طرح یہ کمپنیاں نہ صرف عوام کے ساتھ سر عام دھوکہ کر رہی ہیں بلکہ انہیں ’ریگولیٹ‘ کرنے کے لیے کی گئی قانون سازی بھی تاحال موثر ثابت نہیں ہو سکی۔ سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن ہو یا انشورنس محتسب، دونوں ادارے ان بیمہ کمپنیوں کے اس فراڈ کو لگام ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہ کمپنیاں خود تو منافع میں ہیں مگر ان کے کھاتہ دار نقصان میں ہیں۔
بیمہ کمپنیوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ پہلے ان کے ایجنٹ آپ کو مستقبل کے سہانے خواب دکھائیں گے اور بتائیں گے کہ کیسے کمپنی آپ کے سرمائے کو محفوظ بنا کر آپ کے بچوں کی شادیوں اور ان کی تعلیم کا خرچہ اٹھائے گی اور ایک ’بچت پلان‘ کے تحت آپ کے بڑھاپے کا سہارا بنے گی۔ کمپنی نے اپنے ان منصوبوں کو پر کشش نام دے رکھے ہیں جیسے ’Secure Life Plan‘ یا ’Retire Smart Plus‘ یا ’Wed Smart Plus‘ وغیرہ، ان کے اشتہارات میں کسی ادھیڑ عمر شخص کی تصویر ہوتی ہے جو آبدیدہ ہوتے ہوئے بیٹی کو رخصت کر رہا ہوتا ہے یا کوئی نوجوان اپنی تعلیمی ڈگری ہاتھ میں لیے ماں کے قدموں میں بیٹھا ہوتا ہے۔ پاکستان میں چونکہ متوسط طبقے کے یہی مسائل ہیں سو یہ کمپنیاں لوگوں کو جذباتی انداز میں بلیک میل کر کے ان سے روپے اینٹھتی ہیں۔ جن کاغذات پر کمپنی کے ایجنٹ دستخط کرواتے ہیں ان کی عبارت بے حد طویل اور باریک حروف میں ہوتی ہے تاکہ آسانی سے پڑھی نہ جا سکے، اس عبارت میں وہ تمام باتیں لکھی ہوتی ہیں جو کمپنی کو مستقبل میں کسی ممکنہ قانونی چارہ جائی سے بچا سکیں اور ایسا ہی ہوتا ہے۔
کمپنی یہ بات واضح نہیں کرتی کہ وہ آپ کے پیسے سٹاک مارکیٹ میں لگا دے گی اور سٹہ کھیل کر اطمینان سے کہہ دے گی کہ گھاٹا ہو گیا۔ کمپنی آپ کو یہ بھی نہیں بتاتی کہ اس نے کس وقت کون سا شیئر خریدا اور کب اس کی قیمت نیچے گئی اور کب اوپر آئی۔ یہ ایک ایسا ’scam‘ ہے جس میں عوام سے اربوں روپے لوٹے جا رہے ہیں اور حقیقت میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس دھوکہ دہی کی نہ صرف حکومتی سطح پر تحقیقات ہونی چاہئیں بلکہ فوری طور پر ان نجی بیمہ کمپنیوں کا اجازت نامہ منسوخ کر دینا چاہیے جو متوسط طبقے کی جمع پونجی پر یوں سر عام ڈاکا ڈال رہی ہیں۔
بشکریہ ہم سب