عدالتی کارروائی کی لائیو اسٹریمنگ، کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان کی عدالتی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ کرتے ہوئے عدالتی کارروائی کو لائیو اسٹریمنگ کے ذریعے دکھانے کا اعلان کیا ہے، تاہم فی الحال یہ اقدام تجرباتی بنیادوں پر ہوگا

جمعے کو اس غیرمعمولی اقدام کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں انٹرنیٹ پر براہ راست عدالتی کارروائی نشر کرنے کے لیے انتظامات بھی کر لیے گئے. اسلام آباد ہائی کورٹ کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کے انچارچ عمر رشید ڈار نے لائیو اسٹریمنگ کا سسٹم نصب کر دیا ہے

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی ہدایات کے مطابق ابتدائی طور پر لائیو اسٹریمنگ ایک ماہ کے لیے تجربے کی بنیاد پر شروع کیا جائے گا۔ اس ٹرائل کی کامیابی کی صورت میں لائیو اسٹریمنگ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہوگی، جسے کوئی بھی شخص کہیں بھی بیٹھ کر دیکھ سکے گا

اس سلسلے میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن سے بھی تجاویز طلب کی ہیں

اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر نے بتایا ”ابتدائی طور پر لائیو اسٹریمنگ تک رسائی صحافیوں، بار، ججز اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو دی جائے گی۔ ایک ماہ کے تجربے کا جائزہ لیا جائے گا، صحافی، وکلا اور دیگر سٹیک ہولڈرز اس پر اپنی رائے دیں گے جس کے بعد اس کو جاری رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کیا جائے گا“

انہوں نے کہا "لائیو اسٹریمنگ کے فیصلے کے بعد ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بھی سہولت ملے گی اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے عدالتی کارروائی کی درست رپورٹنگ میں مدد ملے گی جبکہ بعض اوقات مختلف عدالتوں کی کارروائی میں پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ لائیو سٹریمنگ کے ذریعے تمام عدالتی کارروائی کسی بھی جگہ سے بھی دیکھی جاسکتی ہے”

اس حوالے سے سابق وزیر قانون اور سینیئر قانون دان خالد رانجھا کہتے ہیں "قانونی طور پر عدالت اوپن کورٹ کے تحت عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کا فیصلہ کر سکتی ہے لیکن اس اقدام سے عدلیہ کی ساکھ مزید متاثر ہونے کا خدشہ ہے”

ماہر قانون خالد رانجھا کے خیال میں جج صاحبان کو عدالتی کارروائی کے دوران ریمارکس دینے سے گریز کرنا ہوگا۔ دوران کارروائی عدالت اکثر ایسی بات کہہ دیتی ہے جو اگر براہ راست گئی تو عدلیہ کی ساکھ کو نقصان ہوگا

خالد رانجھا نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں عدالتی کارروائی براہ راست نشر کی جاتی ہے لیکن وہاں عدالتیں بہت زیادہ محتاط ہوتی ہیں۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ اکثر عدالتی کارروائی کے دوران عدالت کے اندر زبانی گفتگو کچھ ہوتی ہے اور تحریری حکمنامہ کچھ اور ہوتا ہے۔ جب یہ سب باہر آئے گا تو اس سے ساکھ متاثر ہونے کا خدشہ رہے گا

انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں عدالتیں اور وکلا اس احتیاط کا مظاہرہ نہیں کرتے جو ترقی یافتہ ممالک میں عدالتیں کرتی ہیں۔ یہ کارروائی عدالتی آداب کے اندر ہونی چاہیے اور عدالتی آداب یہ ہیں کہ ججز کے ریمارکس نہیں بلکہ ان کے فیصلے بولنے چاہییں

سپریم کورٹ کے سینیئر قانون دان شاہ خاور سمجھتے ہیں کہ عدالت نے وڈیو لنک کے ذریعے بیان تو ریکارڈ کروانے کی اجازت دے دی ہے اور یہ ایک قابل ستائش اقدام ہے لیکن عدالتی کارروائی براہ راست نشر ہونے کا معاملہ بحث طلب ہے

شاہ خاور کے مطابق ’ترقی یافتہ ممالک میں ججز کی تصاویر بھی میڈیا پر نہیں دکھائی جاتیں اور اگر کوئی اہم کیس کی کوریج میڈیا کر رہا ہو تو خیالی تصویر یا تصواراتی خاکہ استعمال کیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ میرا ذاتی خیال ہے کہ عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا معاملہ پیچیدہ ہے۔ ویسے تو کھلی عدالت میں کوئی بھی جا سکتا ہے اور کارروائی دیکھ سکتا ہے۔ ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے متعلق سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس کی کارروائی دیگر دو کمروں میں بھی سنانے کا بندوبست کیا گیا تھا، اس حد تک تو ٹھیک ہے لیکن ہر کیس کی کارروائی براہ راست دکھانے کی پہلے کوئی مثال موجود نہیں ہے

انہوں نے کہا کہ وکیل یا جج جو بولیں گے، وہ سب سامنے آئے گا اور سوشل میڈیا جتنا بے لگام ہو چکا ہے تو پھر اپنے اپنے مطلب کی چیزیں نکال کر اس پر ہر کوئی تبصرے کرے گا

شاہ خاور کہتے ہیں ”عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے سے پرائیویسی متاثر ہونے کا بھی خدشہ موجود ہے۔ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور اس پر طویل مشاورت ہونا ضروری ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close