کابل : افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے حوالے سے اندرون خانہ قیادت میں اختلافات کی خبریں گردش کر رہی ہیں
طالبان کی جانب سے صدارتی محل میں کابینہ کے دو ارکان کے درمیان تلخ کلامی کے نتیجے میں ہونے والی فائرنگ سے ملا عبدالغنی برادر کی ہلاکت کی خبروں کی تردید کے بعد برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اس معاملے پر ایک طالبان عہدیدار سے بات کی ہے
بی بی سی کے مطابق طالبان عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر نے نئی حکومت کے ڈھانچے میں خواتین اور دیگر قومیتوں کی عدم شمولیت پر سوال اُٹھایا جس پر کابینہ کے ایک اور رکن خلیل الرحمان حقانی سے بحث شروع ہوگئی
صدارتی محل میں ہونے والی اس بحث و تکرار پر دونوں رہنماؤں کے حامی ارکان ایک دوسرے سے الجھ پڑے اور بات تلخ کلامی تک جا پہنچی۔ ملا عبدالغنی کے حامیوں کا کہنا تھا کہ امریکا سے مذاکرات ہم نے کیئے تھے اور عالمی برادری سے ایک متنوع حکومت کی تشکیل کا وعدہ بھی کیا تھا جس کی وجہ سے ہمیں افغانستان میں اتنی آسانی سے کامیابیاں نصیب ہوئی تھیں
دوسری جانب حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے وزیر برائے پناہ گزین خلیل الرحمان حقانی اور ان کے حامی ارکان کا مؤقف تھا کی غیر ملکی فوجی ان کی کارروائیوں کی وجہ سے پیچھے ہٹیں اور امریکا بھی اسی وجہ سے مذاکرات پر راضی ہوا تھا
اس تلخ کلامی کے بعد سے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر قندھار چلے گئے تھے جہاں وہ ممکنہ طور پر امیر طالبان کے سامنے یہ سارا معاملہ رکھیں گے
اس سارے معاملے میں سنسنی اس وقت پھیلی جب افغانستان میں واٹس ایپ گروپس پر صدارتی محل میں کابینہ ارکان کے درمیان تلخ کلامی کے نتیجے میں ہونے والی فائرنگ میں ملا عبدالغنی برادر کی ہلاکت کی افواہیں گردش کر رہی تھیں جس پر طالبان کو تردیدی بیان جاری کرنا پڑا تاہم ملا عبدالغنی تاحال منظر عام پر نہیں آئے
ادھر امیر طالبان ملا ہبتہ اللہ بھی طالبان کے افغانستان کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور حکومت کی تشکیل کے بعد بھی اب تک منظر عام پر نہیں آئے ہیں اُن کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ گزشتہ برس کورونا کے مرض میں مبتلا ہوکر انتقال کرگئے ہیں اور طالبان اپنے بانی ملا عمر کی طرح موجودہ امیر کی بھی دنیا سے چلے جانے کی خبر چھپا رہے ہیں.
مزید خبریں: