کراچی یونیورسٹی خودکش حملہ: چینی حکام کا دو ماہ تک ہزاروں فائلوں کا جائزہ اور داد بخش

ویب ڈیسک

رواں سال سندھ کے دارالحکومت کراچی کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کراچی یونیورسٹی میں ہونے والا خودکش حملہ کئی حوالوں سے تشویشناک تھا

اس حملے میں ایک خاتون خودکش بمبار نے اپریل 2022ع میں کراچی میں تین چینی اساتذہ کو ان کے مقامی ڈرائیور سمیت ہلاک کر دیا تھا

خبر رساں ایجنسی روئٹر کے مطابق اس دھچکے سے بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر انیشی ایٹو (سی پیک) کو خطرہ تھا، جو پاکستان میں سڑکوں، ریلوے، پائپ لائنوں اور بندرگاہوں کے پینسٹھ ارب ڈالر کا نیٹ ورک ہے

یہ چین کو بحیرہ عرب سے جوڑے گا اور اسلام آباد کو اپنی معیشت کو وسعت دینے اور جدید بنانے میں مدد فراہم کرے گا

واضح رہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسندوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی

سوشل میڈیا پر ایک وڈیو میں علیحدگی پسندوں نے چین کو خبردار کیا کہ وہ پاکستان چھوڑ دے ورنہ مزید قتل عام کا سامنا کرنا پڑے گا

بلوچ نیشنل آرمی (بی ایل اے) ایک کالعدم گروہ ہے، جس نے یہ وڈیو جاری کی۔ یہ گروہ دہائیوں پرانی شورش کا حصہ ہے، جس میں عام طور پر پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا ہے

لیکن حالیہ برسوں میں بی ایل اے نے چینی شہریوں پر حملے کیے ہیں کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ ’بیجنگ نے بلوچستان کے حوالے سے معاہدوں میں شامل نہ ہونے کی ہماری وارننگ کو نظر انداز کیا‘

چین وسائل سے مالا مال اس صوبے میں کان کنی اور بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں میں شامل ہے، جس میں گہرے پانی کی گوادر بندرگاہ بھی شامل ہے، یہ سب چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ ہے

وڈیو کے آغاز میں ایک نقاب پوش مسلح شخص نے چینی صدر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا ’آپ کے پاس اب بھی وقت ہے کہ آپ بلوچستان سے باہر نکلیں ورنہ آپ کو بلوچستان سے اس طرح نکال دیا جائے گا کہ آپ ہمیشہ یاد رکھیں گے‘

کچھ ہی دیر بعد تیس سالہ شاری حیات بلوچ کو اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ ایک پارک میں چلتے ہوئے اور بعد میں جنگی وردی میں کیمرے سے خطاب کرتے ہوئے دکھایا گیا

تیس سالہ خاتون نے ساتھی بلوچ علیحدگی پسند جنگجوؤں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے انہیں تحریک کی پہلی خاتون خودکش بمبار بننے کا ’موقع‘ فراہم کیا

اگرچہ اس حملے کو کئی ماہ گزر چکے ہیں لیکن پاکستانی حکام بدستور شدید تشویش کا شکار ہیں

وزارت داخلہ نے گذشتہ ہفتے رؤئٹرز کو ایک بیان میں بتایا تھا ’پاکستان میں چین کے شہریوں اور اس کے منصوبوں پر حملے حکومت کے لیے شدید تشویش کا باعث ہیں۔‘

بیجنگ میں خدشات

وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ چینی حکام کی ایک ٹیم نے تحقیقات میں مدد کے لیے پاکستان کا دورہ کیا، جو اس بات کی علامت ہے کہ بیجنگ اس حملے میں کتنی سنجیدگی رکھتا ہے۔ پہلے اس دورے کی اطلاع نہیں دی گئی تھی

وزارت نے کہا کہ چینی حکام نے سی سی ٹی وی فوٹیج میں اضافے اور موبائل فونز سے ڈیٹا کے حصول جیسے شعبوں میں پاکستان کی انسداد دہشت گردی فورسز کی مدد کی

تحقیقات میں براہ راست شامل چار پاکستانی ذرائع کے مطابق یہ ٹیم تقریباً دو ماہ تک ہزاروں ڈیٹا فائلوں کا جائزہ لینے کے بعد اگست کے آخر میں روانہ ہوئی تھی

انہیں ملنے والی معلومات نے پاکستانی حکام کو یونیورسٹی حملے کے مرکزی مشتبہ شخص کی نشاندہی میں مدد فراہم کی، جسے جولائی میں گرفتار کیا گیا تھا

چین کی وزارت خارجہ نے روئٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ اس سے قبل اس نے 26 اپریل کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان مجرموں کو سزا دے، چینی شہریوں کو تحفظ فراہم کرے اور اس طرح کے واقعات کو دوبارہ ہونے سے روکے

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے رواں ہفتے چین کے دورے کے دوران پاکستان میں بیجنگ کے مفادات کا تحفظ ایجنڈے کا حصہ ہوگا

مرکزی ملزم

چاروں عہدے داروں نے کہا کہ چین کے اعداد و شمار کے تجزیے سے تفتیش کاروں کو ایک ایسے شخص تک پہنچنے میں مدد ملی، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس نے کراچی حملے کو مربوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا

حکام کے مطابق 26 سالہ بلوچ علیحدگی پسند داد بخش، جو چینی اہداف پر ماضی کے حملوں میں ملوث ہونے کے شبے میں حکام کو مطلوب تھا، دسمبر 2020ع میں کراچی سے افغانستان کے شہر قندھار گیا تھا

حکام نے مزید بتایا کہ وہاں انہوں نے بم بنانے اور مسلح لڑائی کی تربیت حاصل کی اور متعدد بلوچ علیحدگی پسند رہنماؤں سے ملاقات کی، جو اس وقت پڑوسی ملک افغانستان میں تھے

افغانستان کے حکمران طالبان نے، جو اس وقت مغربی افواج کے خلاف اپنی جنگ لڑ رہے تھے، داد بخش کی سرگرمیوں پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے

روئٹرز آزادانہ طور پر اپریل میں ہونے والے بم دھماکوں میں ان کے مبینہ کردار کی تصدیق نہیں کر سکا

دو ذرائع کے مطابق داد بخش جولائی 2021ع میں کراچی واپس آئے اور انہوں نے معلومات جمع کرنے کی غرض سے کے اے این یو پی پی نیوکلیئر پلانٹ پر نظر رکھنا شروع کر دی، جس کی چینی ٹیکنالوجی اور افرادی قوت کے ساتھ توسیع کی جا رہی ہے اور اسے حملے کا ممکنہ ہدف سمجھا جاتا تھا

وزارت داخلہ نے کسی بھی ممکنہ کے اے این یو پی پی حملے کے بارے میں کسی سوال کا جواب نہیں دیا

ذرائع نے بتایا کہ جب یہ سہولت ناقابل رسائی ثابت ہوئی تو داد بخش کو بی ایل اے کے ایک کارکن نے حیبتین سے ملنے کا کہا، جس نے اسے بتایا کہ نیا ہدف کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذہ ہیں

داد بخش نے یونیورسٹی سے متصل ایک کیمپس میں انگریزی زبان کے ایک کورس میں داخلہ لیا تاکہ ان کی روزمرہ کی نقل و حرکت کا سراغ لگایا جا سکے

جنوری میں شری حیات بلوچ بلوچستان سے کراچی پہنچیں، اور وہ اور ان کے شوہر اگلے ہفتوں میں ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے

حکام کے مطابق بم دھماکے سے دو دن قبل 24 اپریل کو حیبتین اور داد بخش شہر چھوڑ کر بلوچستان چلے گئے تھے۔ داد بخش جلد ہی یہ بیان دینے کے بعد کراچی واپس آ گئے کہ وہ حملے کے دن شہر میں نہیں تھے

سندھ میں صوبائی حکومت کے مشیرمرتضیٰ وہاب نے کہا کہ انسداد دہشت گردی اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی ایک مشترکہ ٹیم نے مختلف لیڈز پر کام کیا، جس کے نتیجے میں جولائی میں داد بخش کو شہر سے گرفتار کیا گیا

سرکاری وکیل ذوالفقار علی مہر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ پولیس نے داد بخش کے خلاف انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت میں الزامات عائد کیے ہیں۔ وہ حراست میں ہیں اور ابھی تک انہیں کوئی وکیل نہیں ملا۔ روئٹرز ان سے رابطہ نہیں کر سکتا تھا

ذوالفقارعلی مہر نے کہا کہ داد بخش پر چینی شہریوں کے قتل اور ریاست کے مفادات کے خلاف حملہ کرنے کے الزام میں دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا

انہوں نے مزید کہا ’ہم انتظار کر رہے ہیں کہ عدالت ہمیں ان کے مقدمے کی سماعت شروع کرنے کے لیے کون سی تاریخ دیتی ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close