مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کا تعلق گوادر سے ہے، وہ جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ انھیں ایک کھلی کچہری میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کچہری میں اعلیٰ سرکاری حکام بھی شریک تھے۔ مولانا ہدایت الرحمن نے اس محفل میں دل کے پھپھولے خوب پھوڑے۔ انھوں نے کہا کہ میں ماہی گیر ہوں، ہمارا سب کچھ سمندر ہے۔
انھوں نے کہا کہ ماہی گیروں پر سمندر میں جانے کے لیے نئی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں جس کے نتیجہ میں گوادر کے ماہی گیر فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ ایک ٹھیکہ دار نے ایک گہرا گڑھا کھود کر ماہی گیروں کے سمندر میں جانے اور روزگارکمانے سے محروم کردیا ہے۔ ان کا استدلال تھا کہ سمندر ہزار سال سے ہمارا ہے۔
ہم ہزار سال سے گوادر میں سمندرکی حفاظت کر رہے ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد گدھوں پر بیٹھ کر ساحلِ سمندر جاتے تھے مگر جب اس علاقہ میں ترقی کا دور شروع ہوا تو ان غریب ماہی گیروں سے روزگار کا حق چھین لیا گیا۔ مولانا ہدایت الرحمن کہتے ہیں کہ سمندر میں ماہی گیروں کا حق پہلے مقامی افراد کا ہے اس لیے ضروری ہے کہ حکام ٹائم ٹیبل بنائیں۔ اس میں پہلے مقامی ماہی گیروں کو روزگار کے حق کو محفوظ کیا جائے۔ ہدایت نے ماہی گیروں کی مشکلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ماہی گیروں کو مسلسل پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، یوں ماہی گیروں کو روزانہ تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کا مدعا تھا کہ افسران آتے ہیں، مسائل سنتے ہیں اور چلے جاتے ہیں مگر مسائل جوں کے توں ہیں۔ مولانا نے کہا کہ نیا المیہ ہے کہ وزیر اعظم 5جولائی کو گوادر آئے تو یہ سرکلر جاری ہوا کہ ماہی گیر تین دن تک سمندر میں نہیں جائیں گے۔ ضلع گوادر کی آبادی 2لاکھ 64 ہزار کے قریب ہے۔ یہ ملک کا واحد ضلع ہے جہاں 95 فیصد افراد کا پیشہ ماہی گیری سے وابستہ ہے۔
معروف عملیت پسند مارکسٹ صحافی عزیز سنگھور نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ گوادر گزشتہ 18برسوں سے مسلسل مسائل کا شکار ہے، انھوں نے گوادر کے ماہی گیروں کے مسائل سے متعلق یہ لکھا ہے کہ حکومت وقت کی عدم توجہ سے بڑے بڑے فیکٹری بردار ٹرالر جو غیر ملکی فرموں کی ملکیت ہیں کو گوادر اور اطراف کے سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کی آزادی ملی ہوئی ہے۔
یہ فیکٹری بردار ٹرالر جدید مشینوں کے ذریعہ اس تیزی سے مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں کہ گوادر کے غریب ماہی گیروں کے چھوٹے چھوٹے کشتیوں کے کمزور جالوں میں مچھلیاں نہیں پھنستیں اور وہ خالی ہاتھ گھروں کو لوٹتے ہیں۔ پاکستان اور چین کے اربوں روپے کے تعاون سے شروع ہونے والے اقتصادی راہ داری کے منصوبوں پر عملدرآمد کے نتیجہ میں یہ پسماندہ بندرگاہ تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہے۔
گوادر کی بندرگاہ میں جدید گودیاں تعمیر کی گئی ہیں اور بندرگاہ کو بین الاقوامی معیارکے مطابق ترقی دینے کا کام تیزی سے اختتام پذیر ہورہا ہے، چین کے تعاون سے صرف گوادرکی بندرگاہ کو جدید بندرگاہ میں تبدیل کیا گیا ہے اور اب تو مال بردار جہاز اپنا کارگو یہاں اتار رہے ہیں۔
گوادرکو جدید ترین سڑکوں کے جال کے ذریعہ شمالی پاکستان سے منسلک کردیاگیا ہے اور یہ سڑک اب چین پر اختتام پزیر ہوتی ہے۔ چین کے تعاون سے صنعتی زون قائم کیے جارہے ہیں۔ ان صنعتی زون میں بجلی پیدا کرنے کے ہیوی ڈیوٹی پلانٹ بھی شامل ہیں، مگر ایک طرف ترقی اس زون پر جاری ہے تو دوسری طرف گوادر ، پسنی اور اورماڑہ کے ماہی گیروں میں احساسِ محرومی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
گوادر میں خواندگی کی شرح باقی بلوچستان کے مقابلے میں خاصی زیادہ ہے۔ اس علاقہ میں غربت اور مذہبی پسماندگی کے باوجود خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان خاصا زیادہ ہے۔ گوادر کی طالبات کراچی میں تو ہمیشہ سے تعلیم حاصل کرتی ہیں مگر ان کا شوق انھیں اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کی طرف بھی لے گیا ہے، یہ رجحان نوجوانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔
بلوچستان کی یونیورسٹیاں ہوں یا پروفیشنل ادارے، ان کی تعداد سب سے زیادہ ہوئی ہے مگر ابھی تک تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بڑھتی بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے کوئی جامع پالیسی سامنے نہیں آئی جس کی بناء پر جنگجو گروہوں کو اپنے پوشیدہ مقاصد کے حصول کے لیے نوجوانوں کو ورغلانے کا موقع ملتا ہے۔
گوادر اور اطراف کے علاقوں میں ماہی گیروں کی روزگار سے محرومی اور نوجوانوں میں فرسٹریشن کی بناء پر احتجاج کی خبریں ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں نمایاں طور پر شائع ہوتی ہیں اور بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور دیگر علاقوں سے شائع ہونے والے اخبارات کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ دور میں نیشنل پارٹی کے رہنما اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے پہلے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے گوادر کے لیے بہت سی ترقیاتی اسکیموں کی منظوری دی جنھیں اب منسوخ کیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے گوادر میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے ایک قطعہ اراضی مختص کی تھی۔
وزیر اعلی جام کمال نے یہ الاٹمنٹ منسوخ کردی ہے۔ اسی طرح موٹر وے ایم 8 دو رویہ موٹر وے کو 24 فٹ کی سڑک میں تبدیل کیا گیا ہے۔ گوادر پاکستان کی تیسری جدید بندرگاہ ہی نہیں بلکہ جیوپولیٹیکل صورتحال کی بناء پر انتہائی اہم ہے۔ گوادر ہی نہیں پورے بلوچستان کے عوام مجموعی طور پر امتیازی سلوک کا شکار رہے ہیں۔
نیشنل پارٹی کے سینیٹر اکرم بلوچ جن کا تعلق تربت سے ہے وہ کہتے ہیں کہ بلو چ پہلے سوئی گیس سے محرومی کا رونا روتے تھے ،اب انھیں گھروں اور سمندروں میں جانے کے لیے بھی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی بناء پر بلوچوں کا اسلام آباد کی وفاقی حکومت پر اعتماد مجروح ہورہا ہے۔ گوادر کا ساحل ایک ہزار مربع میل تک پھیلا ہوا ہے۔
اس کے ایک طرف ایران کا شہر چاہ بہار ہے تو دوسری طرف بلوچستان کا آخری ضلع لسبیلہ ہے، پھرکراچی کی حدود کا آغاز ہوتا ہے۔ اسی طرح چند سو کلومیٹر کے فاصلہ پر عمان ہے، عمان کے ساتھ بحرین ہے۔ یہ سمندر بھی دفاعی نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس صورتحال میں گوادرکی مقامی آباد ی کا احساس محرومی کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔
ایک خوشگوار خبر یہ ہے کہ مولانا ہدایت الرحمن کی کڑوی اور تلخ باتوں کواعلیٰ سرکاری افسران نے اطمینان سے سنا اور ایک بلوچ کو پہلی دفعہ کھل کر اپنے دل کا حال بیان کرنے کا موقع ملا، مگر ضروری ہے کہ گوادر کے ماہی گیروں کی ترقی کے لیے وفاقی حکومت جامع منصوبے تیارکرے اور ان منصوبوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
"بشکریہ ایکسپریس نیوز”
_________________________
سنگت میگ کے کالم اور بلاگز:
-
آکسس معاہدہ: بحرالکاہل کے پانیوں پر نئی سرد جنگ
-
ایک نئے کھیل کا آغاز
-
ہولناک قتل، جہاں سگریٹ کے خالی فلٹر نے ملزم تک رسائی دی
-
گلوبل وارمنگ سے متاثرہ کراچی کی ساحلی پٹی
-
ایک ’’سچ مچ‘‘ کا شاعر!
-
پاکستان اور امریکی للو چپو
-
ایک تصویر ایک کہانی (18)
-
مچھیروں کی بستی میں تھا ایک چارہ گر: محمد علی شاہ
-
براہمن ملیر، شودر بن گیا!