گلوبل وارمنگ سے متاثرہ کراچی کی ساحلی پٹی

شیما صدیقی

‘میری عمر 70 سال ہے۔ ہمارے باپ دادا اور ان کے آباؤ اجداد بھی یہیں رہتے تھے۔ ہم بچپن سے تمر کو کٹتا دیکھتے آرہے ہیں لیکن گزشتہ برسوں میں زمین پر قبضے کی دوڑ اور تمر کی بے رحم کٹائی نے ہمارے ماحولیاتی نظام کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ روزگار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ اب نہ تو جھینگا ہے نا کاٹنے کو لکڑی۔ ہمارے پانی میں تو اب مچھلی بھی نہیں رہی، ماہی گیروں کو بیچ سمندر میں کئی کئی دن گزارنے پڑتے ہیں۔ دیکھ لیں، زمین میں نمک آچکا ہے، ہر طرف کچرا اور بدبو ہے۔ جب کراچی کا کچرا سمندر میں ڈالا جائے گا تو پانی کالا ہی ہوگا۔ ہمیں صاف پانی نہیں ملتا اس لیے بیمار تو ہوں گے۔’

کاکا پیر کی دادی فاطمہ نے سوالیہ نظروں کے ساتھ اپنی بات ختم کی۔ دن کے 12 بجے ہیں مگر تیز دھوپ میں کاکا پیر کی تپتی دلدلی زمین پر وہ اور ان کے گھر کے دیگر افراد آکسفیم (Oxfam) کے تعاون سے تمر کے پودوں کی نشوونما اور حفاظت کے کاموں میں نہ صرف مصروف ہیں بلکہ مقامی افراد کو ماحول دوست مشورے بھی دے رہے ہیں۔

ماہیگیر کی کشتی
ماہیگیر کی کشتی

کراچی کی کسی بھی ساحلی پٹی پر چلے جائیں، مقامی آبادی کی شکایات ایک جیسی ہیں۔ کہیں سمندری آلودگی ہے، کہیں سمندر بڑھنے اور کہیں زمین کے کٹاؤ کا رونا ہے کیونکہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے پاکستان ماحولیاتی تغیرات کے خطرے سے دوچار دنیا کے 10 متاثر ترین ممالک میں شامل ہے۔

19ء-2018ء تک پاکستان 5ویں نمبر پر تھا تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس میں 3 درجے بہتر ہوکر 8ویں نمبر پر آگیا ہے۔ درجہ بندی میں یہ بہتری حکومتی سطح پر ماحول دوست فیصلوں اور ان پر عملدرآمد کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ مگر سفر ابھی طویل اور محنت طلب ہے۔

آئندہ 20 سال میں اوسط عالمی درجہ حرارت 1.5 ڈگری سیلسیس کی حد تک پہنچنے یا اس سے تجاوز کرجانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ مزید یہ کہ گیس کے اخراج کے حوالے سے انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے اوسط عالمی درجہ حرارت پہلے ہی 1.1 سیلسیس بڑھ چکا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے انٹر گورنمنٹ پینل آف کلائیمٹ چینج (آئی پی سی سی) کی رپورٹ کے مطابق، ‘ہمارے ماحول میں پچھلے 20 لاکھ سالوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اس قدر وافر مقدار میں نہیں پائی گئی جتنی کہ 2019ء میں پائی گئی تھی۔ یہی نہیں بلکہ گزشتہ 8 لاکھ سالوں میں فضا میں میتھین اور نائٹرو آکسائیڈ کی اس قدر نہیں پائی گئی تھی۔ دنیا بھر میں گلیشیئر اور قطب شمالی میں موجود برف تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ قدرتی ماحول کے بگاڑ کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھا ہے۔ موسموں میں شدت آتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں خشک سالی اور سیلاب جیسی قدرتی آفات میں مزید اضافہ ہوگا‘۔

واضح رہے کہ ناسا کی 2019ء میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 2100ء تک (سالانہ 15 ملی میٹر کے اضافے کے ساتھ) عالمی سطح سمندر میں 0.6 سے 1.1 میٹر تک کا اضافہ متوقع ہے۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق دنیا کے سمندروں کی سطح صدی میں اپنی سطح کی انتہائی حد تک پہنچتی ہے مگر 2050ء کے بعد سمندر سال میں ایک بار اپنی سطح کی انتہائی حد کو چھوئیں گے۔ عالمی حدت اور ماحولیاتی بگاڑ کی وجہ سے دنیا کے کئی اہم شہر زیرِ آب آجائیں گے۔

◾کراچی کے ساحل پر سطح سمندر کا بڑھنا اور زمینی کٹاؤ

ناسا کے 1993ء سے مارچ 2021ء تک کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ دنیا بھر کے سمندروں کی سطح میں سالانہ 3.4 ملی میٹر کا اضافہ ہو رہا ہے جو ہمارے لیے ایک بڑے خطرے کی گھنٹی ہے۔ گزشتہ برس کی ایک خبر کے مطابق کراچی میں سطح سمندر میں سالانہ (mean average) 1.1 ملی میٹر کا اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے جبکہ انڈس ڈیلٹا میں 4.4 ملی میٹر کے ساتھ یہ اضافہ بہت زیادہ ہے۔

سمندر کنارے ماہی گیروں کی کشتی
سمندر کنارے ماہی گیروں کی کشتی

 

کراچی کی کسی بھی ساحلی پٹی پر چلے جائیں، مقامی آبادی کی شکایات ایک جیسی ہیں۔ کہیں سمندری آلودگی ہے، کہیں سمندر بڑھنے اور کہیں زمین کے کٹاؤ کا رونا ہے
کراچی کی کسی بھی ساحلی پٹی پر چلے جائیں، مقامی آبادی کی شکایات ایک جیسی ہیں۔ کہیں سمندری آلودگی ہے، کہیں سمندر بڑھنے اور کہیں زمین کے کٹاؤ کا رونا ہے

 

علاوہ ازیں نیشنل انسٹیٹوٹ آف اوشن و گرافی (این آئی او) کی ایک رپورٹ کے مطابق بحیرہ عرب میں اب تک 51 سائیکلون طوفان آچکے ہیں جن میں سے پاکستان کے 19 ساحلی مقامات (بلوچستان کے 4 اور سندھ کے 15 مقامات) سے ٹکرا چکے ہیں۔ ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ مئی، جون اور اکتوبر، نومبر کے درمیان طوفان زیادہ بنتے ہیں۔

سندھ بورڈ آف ریونیو اور نیشنل انسٹیٹوٹ آف اوشن و گرافی (این آئی او) نے 2015ء میں سینیٹ کمیٹی کو ایک بریفنگ میں بتایا تھا کہ 1989ء میں اقوامِ متحدہ نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا تھا جو سمندر کے آگے بڑھنے سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ سمندر کے بڑھنے سے ٹھٹہ اور بدین 2050ء تک جبکہ کراچی سمیت سندھ کے دیگر ساحلی علاقے 2060ء تک ڈوب جائیں گے۔

اب ہر ذی شعور اندازہ لگا سکتا ہے کہ شہرِ کراچی کی ساحلی پٹی کے ساتھ چھوٹے جزائر کا کیا حال ہوگا۔ سندھ میں کم و بیش 300 چھوٹے بڑے جزائر ہیں۔ سندھ کے انتہائی مغرب کے کچھ جزائر کے علاوہ اکثر و بیشتر غیر آباد ہیں۔ سندھ کے انتہائی مغرب کے جزائر میں بابا بھٹ، منوڑہ، شمس پیر، چاگلو، قلعو کنیری، واگورو، بھنڈار، چرنا، شمس پیر اور بنڈل شامل ہیں۔

کتاب ‘کراچی کے سمندری جزائر’ کے مصنف گل حسن کلمتی کے مطابق ’سطح سمندر کے بڑھنے کی وجہ سے کراچی کے کئی چھوٹے جزائر ختم ہوچکے ہیں۔ اگر مسائل کی طرف اب بھی توجہ نہیں دی گئی تو مزید جزائر اور سمندری پٹیاں سمندر برد ہوجائیں گی‘۔

◾طوفان کیوں بنتے ہیں اور کراچی تک آتے آتے یہ کمزور کیوں پڑجاتے ہیں؟

جامعہ کراچی کے شعبہ ماحولیات سے منسلک ڈاکٹر وقار احمد نے بتایا کہ ‘طوفان کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ سائیکلون اور آندھی بھی طوفان کی اقسام ہیں۔ سائیکلون براہِ راست سمندر کی گرمی کے اخراج اور دباؤ کو کم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس عمل کو ‘اوشن آف ہیٹ’ کہا جاتا ہے‘۔

ڈاکٹر وقار کے مطابق ‘گلوبل وارمنگ کے بڑھنے سے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے دنیا بھر میں ہی طوفان، سونامی اور سائیکلون میں اضافہ ہوا ہے۔ طوفانوں کے رُخ مڑجانے یا کمزور پڑ جانے کی سائنسی وجہ یہ ہے کہ طوفانوں کا رُخ ہمیشہ کم دباؤ کی طرف ہوتا ہے۔ اگر گرم سمندری ہوا کو سندھ کے ساحل پر کم دباؤ ملے گا تو طوفان وہاں آئے گا، اسی طرح کم دباؤ اگر اومان یا گجرات کے ساحل پر ہوگا تو سائیکلون کا رُخ اس طرف مڑ جائے گا‘۔

ماہی گیروں کی بستی
ماہی گیروں کی بستی

 

◾اب تک کراچی میں کتنے طوفان آئے اور کتنا نقصان ہوا؟

محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر سردار سرفراز کا کہنا ہے کہ ’کراچی میں اب تک 2 سے 3 طوفان آچکے ہیں۔ 1960ء میں آنے والے طوفان نے کافی تباہی مچائی تھی لیکن مجموعی طور پر کراچی طوفانوں کی زد میں کبھی نہیں رہا۔ ہاں 1999ء میں ٹھٹہ اور بدین میں آنے والا طوفان دوسرے درجے کا تھا۔ وہ تقریباً 105 ناٹیکل میل کی رفتار سے ٹھٹہ اور بدین کے ساحل سے ٹکرایا تھا‘۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’طوفان کے اثرات طوفانی بارشوں، طاقتور لہروں اور سمندری زلزلے کی صورت میں برآمد ہوسکتے ہیں۔ 1999ء میں خلیج بنگال اور بحیرہ عرب میں آنے والے طاقتور طوفان میں زبردست سمندری زلزلہ آیا جس کی ریکٹر اسکیل پر شدت 3.3 ریکارڈ کی گئی۔ 2019ء میں اومان اور یمن کے ساحل سے ٹکرانے والا طوفان بھی زیادہ طاقتور تھا جس کے اثرات ہماری ساحلی پٹی میں بھی شدید بارشوں کی صورت میں محسوس کیے گئے‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’گلوبل وارمنگ اور درجہ حرارت کے بڑھنے کی وجہ سے ہمارے خطے میں آنے والے طوفان زیادہ طاقتور ہوتے جارہے ہیں۔ کراچی میں بھی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔ دن اور رات دونوں کے اوقات میں پہلے کی نسبت درجہ حرارت میں اضافہ دیکھا جارہا ہے‘۔

◾کراچی کی مقامی ساحلی آبادی کے لیے سب سے بڑا خطرہ کیا ہے؟

ڈاکٹر وقار سمجھتے ہیں کہ ’بڑا خطرہ سمندر کو کاٹ کر بنائی جانے والی ہاؤسنگ اسکیمیں ہیں کیونکہ ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی (ڈی ایچ اے)، پورٹ قاسم اور بحریہ ٹاؤن کی تعمیرات کے لیے سمندر کو پیچھے دھکیلا گیا ہے۔ نیوی نے بھی کچھ علاقوں کو حفاظتی حکمتِ عملی کی وجہ سے اپنی حدود میں شامل کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ کھانے پینے کے مراکز اور تفریحی مقامات بھی بنا دیے گئے ہیں جس کا براہِ راست اثر مقامی ساحلی آبادی پر پڑتا ہے‘۔

◾ہم کسی ممکنہ بڑے طوفان سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں؟

تمر کے جنگلات ایک بہترین ڈھال ثابت ہوسکتے ہیں۔ 2004ء میں یہ بات اس وقت زیادہ واضح ہوئی جب انڈونیشیا اور بحرِ ہند کے دیگر ساحلی ممالک میں سونامی نے 2 لاکھ سے زیادہ جانیں لیں جبکہ کروڑوں لوگ دربدر ہوئے۔ سونامی کے بعد ہونے والی تحقیقوں سے پتا چلا کہ جن علاقوں میں تمر کے جنگلات موجود تھے وہاں نسبتاً کم جانی و مالی نقصان ہوا۔

◾ساحلوں کے محافظ تمر کے جنگلات

چند سال پہلے پاکستان میں تمر کے جنگلات کی کٹائی زور و شور سے جاری تھی البتہ اب وفاقی و صوبائی حکومت، ماحول دوست غیر سرکاری تنظیمیں اور عوامی شمولیت سے تمر کے جنگلات کے تحفظ کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ سندھ کے محکمہ جنگلات کے مطابق سندھ کی ساحلی پٹی پر 6 لاکھ ہیکٹر رقبے پر تمر کے جنگلات محافظ بنے کھڑے ہیں۔

کراچی کی ساحلی پٹی پر موجود تمر کے جنگلات
کراچی کی ساحلی پٹی پر موجود تمر کے جنگلات

 

اس حوالے سے آکسفیم کا کہنا ہے کہ ’عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ صرف ایک فیصد ہے لیکن موسمیاتی تغیر سے متاثر ہونے والے ممالک میں یہ سرِفہرست ہے۔ یہاں زمین میں نمکیات کے اضافے کے علاوہ بڑا مسئلہ زمین کا مسلسل کٹاؤ ہے جسے ریکارڈ ہی نہیں کیا جارہا‘۔

ادارے کے نمائندگان کے مطابق ’انہوں نے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے ساتھ مل کر ساحلی پٹی پر 76 ہزار تمر کے پودے لگائے ہیں اور مزید 30 ہزار پودے لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تمر کے جنگلات سے سمندر کا مجموعی ماحولیاتی نظام جڑا ہوا ہے۔ ان کی موجودگی سے نہ صرف طوفان کا زور ٹوٹتا ہے بلکہ زمینی کٹاؤ میں کمی اور سمندی حیات کی نمو میں مدد ملتی ہے۔ بس آپ یہ سمجھ لیں کہ تمر کے جنگل کا مطلب ‘محفوظ مقامی آبادی’ کی ضمانت ہے۔ ان جنگلات سے زمین کی نمکیات کم رہیں گی، ماہی گیر کو مچھلی، جھنگا اور مونگے ملیں گے۔ یعنی ایکو سسٹم نمو پائے گا۔ یاد رہے کہ کورل، آبی پرندے، سربائی پرندوں کی آمد بھی ان کے دم سے ہے‘۔

◾ساحلی ماحولیاتی نظام، آبی حیات اور آلودگی کا جن

کراچی کی ساحلی پٹی آلودگی کی زد میں ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کا کہنا ہے کہ ’روزانہ ملیر اور لیاری ندی میں 6 ہزار سے زائد فیکٹریوں کا آلودہ پانی سمندر میں ڈالا جا رہا ہے۔ کراچی کے ساحل پر بڑے بڑے فشنگ ٹرالرز کی تعداد بہت زیادہ ہے جو بڑے پیمانے پر سمندری حیات کا شکار کررہی ہیں اور غیر قانونی جالوں کا استعمال کر رہی ہے۔ ساتھ ہی bycatch یا غیر مطلوب آبی حیات کا شکار بھی بڑھتا جا رہا ہے جو ہماری آبی فوڈ چین اور ایکو سسٹم کو نقصان پہنچا رہا ہے‘۔

کراچی کی ساحلی پٹی آلودگی کی زد میں ہے
کراچی کی ساحلی پٹی آلودگی کی زد میں ہے
ساحل کا پانی اپنی شفافیت کھوتا جا رہا ہے
ساحل کا پانی اپنی شفافیت کھوتا جا رہا ہے

ایک طرف گندے نالوں کا کوڑا سمندر میں شامل ہو رہا ہے تو دوسری طرف کراچی کے ساحل پر تیل اور اس کے بائی پراڈکٹس بھی سمندر میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابراہیم حیدری ہو یا مبارک ولیج پانی اپنی شفافیت کھوتا جا رہا ہے۔ رہی سہی کسر پلاسٹک نے پوری کردی ہے۔ ان سب عوامل کی وجہ سے کچھوے کی نیسٹنگ متاثر ہو رہی ہے اور کیکڑے، جھینگے، مونگے اور اوسٹر جیسے دیگر آبی جاندار بھی متاثر ہورہے ہیں۔

◾حکومتِ سندھ کراچی کی ساحلی پٹیوں پر موجود آبادی کو کس طرح محفوظ بنا رہی ہے؟

سندھ انوائرمنٹ کلائمیٹ چینج کے سیکریٹری اسلم غوری نے بتایا کہ ’ساحلی آبادیوں کی ترقی و بہتری اور سیلاب سے متاثرہ ساحلی علاقوں کی بحالی کے لیے 99 کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ساحلی علاقوں میں پام آئل کی پیداوار بھی بڑھائی جا رہی ہے تاکہ مقامی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع دستیاب ہوسکیں اور وہ نقل مکانی پر مجبور نہ ہوں‘۔

اسلم غوری کے مطابق ’ساحلی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے کراچی کے ساحلی مقامات پر تفریحی مقامات کی بہتری اور نئے مقامات کی تعمیر کے لیے بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ نجی شعبے کی شراکت سے ان علاقوں کو سیاحت کے لیے موزوں بنایا جائے گا جس کے نتیجے میں ملک میں ساحلی سیاحت کو فروغ ملے گا اور یوں نہ صرف ملکی آمدن میں اضافہ ہوگا بلکہ ملک کے سوفٹ امیج کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ اس کے علاوہ کراچی، ٹھٹہ، بدین اور سجاول کے ساحلی علاقوں کی بہتری کے لیے ایک ارب 89 کروڑ روپے کی ترقیاتی اسکیموں پر تیزی سے منصوبہ سازی جاری ہے‘۔

◾ہم ساحلی پٹی کو بچانے کے کیا کرسکتے ہیں؟

یہ تجاویز ماحولیات کے ماہرین اور غیر سرکاری تنظیموں کی سفارشات کی روشنی میں مرتب کی گئی ہیں۔

🔹ساحلی آبادی کو طوفان اور موسمی تغیر سے بچانے کے لیے تمر کے جنگلات کی تعداد بڑھانا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تمر کے پودوں کو مقامی، صوبائی اور مرکزی سطح پر تحفظ مہیا کیا جائے۔

🔹آبی وسائل کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ آبی ماحول، ماحولیاتی نظام اور سمندری حیات کے لیے محفوظ پناہ گاہیں بنائی جائیں۔ آبی نیشل پارک اور رامسر سائٹس بنانا بھی ماحول دوست عوامل ہیں۔ ایسے مقامات پر انسانی عمل دخل کم سے کم ہونا چاہیے۔

🔹ساحلی آبادی کو سیمنٹ کی تعمیرات کے ذریعے شہری زندگی دینے کی کوشش نہ کی جائے۔ اگر ہم تمر کے جنگلات کو ختم کرکے شہری آبادی کو بڑھائیں گے یا ہوٹل اور بازار تعمیر کردیں گے تو ہمیشہ طوفان کی زد میں رہیں گے اور بڑے جانی و مالی نقصان کا خدشہ رہے گا۔

🔹طوفان سے بچنے کے لیے ہمیں محکمہ موسمیات کے نظام اور آلات کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ ہم طوفانوں کے رُخ اور اس کی رفتار کا پہلے سے پتا لگاسکیں۔

🔹طوفان اور بڑے نقصان سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی آبادی کو ساحل اور آبی حیات کے تحفظ کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے۔

🔹مقامی آبادی کے ساتھ مل کر یوتھ کلب بنائے جاسکتے ہیں جبکہ خواتین کی شمولیت سے آگاہی مہم کو نچلی سطح تک پہنچایا جاسکتا ہے۔

🔹حکومتی سطح پر ماحول دوست پالیسیوں اور ان پر عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ کمرشل ایریا کا بننا ماحول دوست نہیں۔

🔹سمندر کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے ڈھال بنائی جاسکتی ہے۔ یہ دیوار دھات یا سمنٹ کی ہوسکتی ہے، ساتھ ہی پانی کی طاقت کو کم کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد سے مصنوعی پہاڑ، groyne اور babion کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

نوٹ: اس فیچر کی لکھاری شیما صدیقی پندرہ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کر. رہی ہیں. یہ مضمون ڈان ڈاٹ کام کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close