صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی وادی سینگور میں آج کل ایک مادہ بھیڑیے کے چرچے ہیں، جو روزانہ رات کو گول نیشنل پارک کے قریب واقع ایک ہوٹل میں آتی ہے اور وہاں چند گھنٹے گزارنے کے بعد واپس جنگل میں چلی جاتی ہے
اس عرصے میں وہ ہوٹل کے مالک شہزادہ سراج الملک، ان کے نواسوں اور نواسیوں کے علاوہ ان کے پالتو کتے سے کھیلتی ہے
اس ملاقات کے عینی شاہد چترال کے مقامی صحافی گل حماد فاروقی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب میں نے اس بھیڑیے کے بارے میں سنا تو یقین نہ آیا مگر جب شہزادہ سراج الملک سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے کہا کہ خود آ کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔‘
گل حماد فاروقی کے مطابق انھوں نے ہوٹل میں جو مناظر دیکھے وہ ’ناقابلِ یقین‘ تھے۔
’رات کا اندھیرا چھایا تو ایک مادہ بھیڑیا ہوٹل میں داخل ہوئی، جہاں اس کا استقبال سراج الملک کے قیمتی پالتو کتے نے کیا۔ اس دوران وہ خود بھی وہاں پر پہنچ گئے تو مادہ بھیڑیا ان کے پاؤں میں لوٹ پوٹ ہونے لگی اور پھر ان کے نواسے، نواسیوں کے ساتھ کھیلتی رہی۔
’وہ وہاں کوئی دو گھنٹے تک موجود رہی۔ میں ہوٹل کے اندر چھپ کر یہ سارے مناظر دیکھ رہا تھا۔ اسی دوران کیمرے کی فلیش لائٹ آن کرنا چاہی، تو وہ فوراً ہی وہاں سے بھاگ نکلی۔‘
گل حماد فاروقی کے مطابق شہزادہ سراج الملک کا کہنا ہے کہ یہ مادہ تقریباً دو ماہ سے آ رہی ہے۔ ان کے مطابق ’وہ ہمارے ہر گھر کے فرد اور پالتو کتے سے مانوس ہے۔‘
▪️مادہ بھیڑیا کیسے شہزادہ سراج الملک تک پہنچی
شہزادہ سراج الملک کا کہنا ہے کہ تقریباً چار ماہ قبل یہ مادہ بھیڑیا جس کی عمر اس وقت اندازاً چند دن تھی، لاغر حالت میں قریبی جنگل سے ملی تھی اور تلاش کرنے والے اسے ان تک لے آئے اور انہوں نے اس کی دیکھ بھال شروع کر دی تھی۔
گل حماد فاروقی کے مطابق شہزادہ سراج الملک نے انٹرنیٹ پر پڑھا کہ اگر بھیڑیے کے بچے کو ماں کا دودھ دستیاب نہ ہو تو کسی حد تک بکری کا دودھ نعم العبدل ہو سکتا ہے، جس پر انہوں نے اس مادہ بھیڑیے کو فیڈر کی مدد سے بکری کا دودھ پلانا شروع کیا تھا اور یوں اس کی حالت کسی حد تک سبنھل گئی تھی۔
دو ماہ تک وہ سراج الملک کے گھر میں ان کے پالتو کتے کے ہمراہ پرورش پاتی رہی اور اس دوران وہ بیرونِ ملک سے آنے والے ان کے نواسے نواسیوں سے بھی مانوس ہو گئی۔
گل حماد فاروقی کے مطابق تقریباً دو ماہ بعد اسے جنگل میں چھوڑ دیا گیا لیکن دو ہی دن بعد وہ ایک بار پھر ان کے گھر واپس آ گئی۔
شہزادہ سراج الملک کے مطابق انہوں نے اسے کھانا دیا جس کے بعد وہ کتے کے ساتھ کھیلنے لگی اور دو گھنٹے بعد چلی گئی اور ’دو ماہ سے اب اس کا روزانہ کا یہی معمول ہے۔‘
▪️’سارا ماجرا ہی غیر فطری ہے‘
اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے سابق چئیرمین ڈاکٹر انیس الرحمان کے مطابق ’مادہ بھیڑیے والے معاملے میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب کچھ غیر فطری ہے۔ بھیڑیے اپنی آماجگاہوں میں اپنی حدود کی نشاندہی کر کے رہتے ہیں اور اس جگہ کسی کا داخلہ پسند نہیں کرتے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’بھیڑیا ایک جنگلی جانور ہے، جو دوستی جیسے رشتے اپنی نسل ہی کے ساتھ استوار کرتے ہیں۔ کتے اور انسانوں کے ساتھ ان کی دشمنی تو ہو سکتی ہے، مگر دوستی اور محبت کا ہونا مشکل ہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عام حالات میں اگر کوئی کتا کسی بھیڑیے کے سامنے آ جائے، تو وہ اسے مار ڈالے مگر غیر معمولی حالات میں سب کچھ ممکن ہے۔‘
مذکورہ مادہ بھیڑیے کے رویے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کے چند ایک اسباب ہو سکتے ہیں۔ ’سب سے پہلا یہ کہ مذکورہ بھیڑیے نے اپنا بچپن کبھی بھی جنگل میں قدرتی آماجگاہ میں نہیں گزارا۔ اس نے کبھی شکار نہیں کیا۔ اسے کھانا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مل جاتا تھا اور عین ممکن ہے کہ اسے شکار کرنا آتا بھی نہ ہو۔‘
ڈاکٹر انیس الرحمان کے مطابق ’قدرتی طورپر بھیڑیا تو جنگل ہی میں خوش ہوتا ہے۔ انسانوں اور دوسری انواع سے رابطے نہیں رکھتا۔ اس بھیڑیے کے لیے بھی بظاہر جنگل میں چھوڑا جانا خوشگوار ہوگا مگر جب اسے شکار کرنا آتا ہی نہیں تو وہ بھوک کی شدت سے بےچین ہو کر اپنے پرانے ٹھکانے پر پہنچی ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بھیڑیے جیسے جانور کی اصل خوشی اور زندگی کا مقام جنگل اور اس کی قدرتی آماجگاہ ہے اور وہ بظاہر مجبوری میں بھوک کے ہاتھوں سے کتے اور انسانوں سے رابطے رکھنے پر مجبور لگتی ہے۔
▪️’اس بھیڑیے کو انسانوں سے خطرہ ہو سکتا ہے‘
گل حماد فاروقی کا کہنا تھا کہ شہزادہ سراج الملک اس جانور کے مسقبل کے حوالے سے متفکر ہیں۔
’اس نے شکار کرنا نہیں سیکھا ہے۔ اس کے علاوہ انسانوں اور دیگر جانوروں سے اس کا خوف کم ہوا ہے اور خدشہ ہے کہ شاید انسانوں کو اس بھیڑیے سے خطرہ نہ ہو مگر انسان یا کوئی اور جانور اس کو کسی بھی وقت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر انیس الرحمان کہتے ہیں کہ اس مادہ بھیڑیے کے ساتھ جو حالات و واقعات سامنے آئے ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ اس کا خاندان جانوروں کے غیرقانونی کاروبار کا شکار ہوا ہے۔
’اس کی ماں کو ممکنہ طور پر مارا گیا ہو گا اور خاندان کے سربراہ نر بھیڑیے کو اغوا کر لیا گیا ہوگا۔ اس کا مقصد کتوں اور بھیڑیوں کے درمیان لڑائی کروانا اور دونوں کے ملاپ سے ولف ڈاگ کی نسل پیدا کرنا بھی ہو سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر انیس الرحمان کے مطابق ’اس مادہ بھیڑیے کے لیے محکمہ وائلڈ لائف سمیت کسی کے لیے بھی کچھ کرنے کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اس کو اب خوراک دینے کا سلسلہ کم کیا جائے تاکہ جب اسے بھوک لگے تو شاید وہ کوشش کر کے شکار کرنا سیکھ لے۔ یا پھر وہ کسی نر بھیڑیے کے ساتھ یا ان کے کسی غول میں چلی جائے جہاں پر اس کا نر ساتھی اس کا خیال رکھے۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو
________________________
سنگت میگ کے کالم اور بلاگز:
-
بلوچستان کا مشرقی کنارہ
-
گوادر کے ماہی گیروں کی بے بسی
-
آکسس معاہدہ: بحرالکاہل کے پانیوں پر نئی سرد جنگ
-
ایک نئے کھیل کا آغاز
-
ہولناک قتل، جہاں سگریٹ کے خالی فلٹر نے ملزم تک رسائی دی
-
گلوبل وارمنگ سے متاثرہ کراچی کی ساحلی پٹی
-
ایک ’’سچ مچ‘‘ کا شاعر!
-
پاکستان اور امریکی للو چپو
-
ایک تصویر ایک کہانی (18)
-
مچھیروں کی بستی میں تھا ایک چارہ گر: محمد علی شاہ
-
براہمن ملیر، شودر بن گیا!