1960ع کی دہائی کے آخیر اور ستر کی دہائی کے آغاز میں اخبارات، رسائل، ریڈیو اور ٹی وی پر ایک اشتہار بہت نمایاں تھا ”ایکسو کی ایک ہی ٹکیہ، کرے لکڑ ہضم پتھر ہضم ایکسو۔“
ایکسو ہاضمے کی یہ گولیاں جو ادارہ بنایا کرتا تھا، اس کا دفتر برنس روڈ کراچی میں اسی عمارت میں واقع تھا، جہاں ایک مشہور ماہنامے کا دفتر تھا۔ یہ ماہنامہ ان دنوں اپنے ”معمے“ (پزل) کی وجہ سے سارے ملک میں مشہور اور مقبول تھا۔ یہ رسالہ ، ایکسو اور دیگر مشہور مصنوعات جن میں رنگ گورا کرنے والی مشہور کریم بھی شامل تھی، ایک ہی خاندان کے کاروبار تھے
ڈی جے کالج میں تعلیم کے دنوں میں اکثر میرے عزیز ترین دوست وامق اور میں ، نقاد کے دفتر جاتے تھے کہ وامق کے بڑے بھائی دانش وہیں کام کرتے تھے۔ دفتر کا ماحول بڑا غیررسمی سا اور دوستانہ تھا۔ دانش بھائی کے دفتر کے ساتھی نجمی رحمانی بہت ذہین تھے اور بلا کی حس مزاح رکھتے تھے۔ لطیفے سنتے بھی شوق سے تھے اور سناتے بھی بہت سلیقے سے تھے۔ کام کے ساتھ ساتھ کبھی بیت بازی ہورہی ہے اور کبھی کسوٹی کھیلی جارہی ہے.. افسوس کہ نجمی بھائی بہت کم عمری میں ہی اس دنیا کو چھوڑ گئے۔
ان دنوں ہاضمے کی یہ گولی exo مارکیٹ پر چھائی ہوئی تھی کہ ایک دن اچانک انہیں ایک لیگل نوٹس ملا۔ دنیا کی سب سے بڑی آئل کمپنیوں میں سے ایک ایکسون Exxon نے ان پر اپنے برانڈ نیم سے ملتا جلتا نام استعمال کرنے کا الزام عائد کرکے ایک بہت بڑی رقم ہرجانے کے طور پر ادا کرنے کو کہا۔ معاملہ عدالت میں پہنچا۔ Exxon کی جانب سے ایک انتہائی مہنگے وکیل پیش ہوئے۔ انہوں نے پہلے تو عدالت کو Exxon کے بارے میں بتایا کہ یہ دنیا کی چند سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ اس کا کیپیٹل ، ٹرن اوور، منافع، دنیا بھر میں اس کی اور اس کے ذیلی اداروں کی تفصیلات، ہزاروں ملازمین کی تعداد وغیرہ وغیرہ۔ لمبے چوڑے دلائل کے بعد انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ مدعا علیہ کو اس نام سے کاروبار کرنے سے روکا جائے اور ہرجانے کی رقم ادا کرنے کا حکم جاری کیا جائے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے اس بین الاقوامی ادارے کی شہرت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
جوابی دلائل کے لئے جو وکیل کھڑے ہوئے وہ ادھیڑ عمر کی نحیف سی شخصیت کے مالک تھے۔ پرانا کالا کوٹ، گلے میں رسماً لٹکی ہوئی میلی سی ٹائی.. انہوں نے اپنا بھاری بھرکم چمڑے کا بیگ میز پر رکھ کر کھولا۔ سب کو تعجب ہوا، جب انہوں نے اس میں سے کوئی فائل یا کاغذات نکالنے کے بجائے ”لکڑ ہضم پتھر ہضم.. ایکسو“ کی دو شیشیاں نکالیں اور کہا میری گزارش ہے کہ معزز عدالت اور فاضل وکیل ان شیشیوں کو کھول کر ان میں موجود گولیاں گن لیں۔
ایکسون کے وکیل نے اعتراض کیا کہ مدعا علیہ کے وکیل جوابی دلائل کے بجائے عدالت کا وقت ضائع کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مگر انہوں نے پھر درخواست کی، کہ شیشی میں موجود گولیوں کو گنا جائے میرے دلائل اسی پر مبنی ہوں گے
جج صاحب کے اشارے پر عدالت کے ایک معاون نے شیشی اٹھائی ۔ مجبوراً ایکسون کے وکیل نے بھی اپنے ایک معاون سے کہا۔ ایک ڈیڑھ منٹ میں گولیاں گن لی گئیں۔
انہوں نے پوچھا ”کتنی گولیاں ہیں؟“
دونوں جانب سے جواب ملا ”ایک سو“
وکیل صاحب نے میز پر ہاتھ مارتے ہوئے عدالت سے مخاطب ہوکر کہا۔ ”بس یہی میرا جواب ہے!‘‘
پھر ایک وقفے کے بعد گویا ہوئے، ”مدعی دنیا بھر میں تیل بیچتا ہے اور میرا مؤکل پاکستان بھر کے گلی کوچوں کی دکانوں پر ہاضمے کے چورن کی ٹکیاں.. جیسا کہ ابھی آپ نے دیکھا ہر شیشی میں گولیوں کی تعداد ایک سو ہوتی ہے، جسے بوتل پر نمایاں کرکے لکھا جاتا ہے.. ایکسو! اور اسے انگریزی حروف میں Exo لکھا جاتا ہے۔‘‘
پھر رک کر کہا، ’’اگر فاضل وکیل گولیوں کی تعداد لکھنے کا کوئی بہتر اور مؤثر طریقہ تجویز کریں، تو میرا مؤکل اسے استعمال کرنے پر غور کر سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’میری عدالت سے درخواست ہے کہ اس بے بنیاد مقدمے کو خارج کرتے ہوئے مدعی کو اس کے اخراجات ادا کرنے کا حکم جاری کرے۔‘‘
اور پھر عدالت نے یہی فیصلہ جاری کر دیا۔
بشکریہ وائس آف سندھ
سنگت میگ کے تجزیے اور بلاگز: