رومی غلاموں کی زندگی: ان کے کوئی حقوق نہیں تھے

ڈاکٹر مبارک علی

رومی معاشرہ دو طبقوں میں بٹا ہوا تھا۔ ایک شہری اور دوسرے غلام۔ شہریوں کو آزادی تھی، وہ سرکاری عہدوں پر فائز ہو سکتے تھے، انتخابات میں ووٹ دے سکتے تھے اور ان کو سخت سزائیں بھی نہیں دی جاتی تھیں۔

ایک واقعے میں جب سینٹ پال کے ساتھ ایک رومی آفیسر نے بدتمیزی کی اور جب اس نے اپنی شناخت رومی شہری کے طور پر کرائی تو آفیسر نے فوری معافی مانگ لی۔

شہریوں کے مقابلے میں غلاموں کے کوئی حقوق نہیں تھے۔ غلاموں کو حاصل کرنے کے لیے کئی ذرائع تھے۔ جنگی قیدیوں کو غلام بنا کر منڈیوں میں بیچا جاتا تھا۔ وہ لوگ جو قرضہ ادا نہیں کر سکتے تھے، انہیں بھی غلام بنا لیا جاتا تھا۔

غلام عورتوں (لونڈیوں) کی اولاد پیدائشی غلام ہوتی تھی۔ وہ بچے جن کی ان کے ماں باپ پرورش کرنا نہیں چاہتے تھے، انہیں سڑک کے کنارے چھوڑ آتے تھے تو ان بچوں کو لے جا کر پرورش کی جاتی اور انہیں غلام بنا کر بیچ دیا جاتا تھا۔

ان وجوہات کی بنا پر غلاموں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا تھا۔ امرا ان غلاموں کو خرید کر مختلف شعبوں میں محنت مزدوری کرواتے تھے۔ مثلاً زمینوں پر کھیتی باڑی کا کام، معدنیات کی کانوں سے چاندی، تانبا نکالنا، گھریلو کاموں کے لیٔے بھی انہیں استعمال کیا جاتا تھا، گھر کی صفائی سے لے کر مہمانوں کی آمد اور ان کی خدمت۔

کیونکہ غلام آقا کی ملکیت ہوتے تھے، اس لیے ذرا سی خلاف ورزی پر انہیں مارا پیٹا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ بعض حالات میں انہیں قتل بھی کر دیا جاتا تھا۔ جب غلام بوڑھے اور ناکارہ ہو جاتے تھے تو انہیں گھر سے باہر نکال دیا جاتا تھا۔ مالک کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر بعض غلام فرار ہونے کی کوشش کرتے تھے، اس وجہ سے ان کے مالک ان کے گلے میں لوھے کا کالر پہنا دیتے تھے جس پر مالک کا نام لکھا ہوتا تھا، تاکہ غلام کو پکڑ کر مالک کے حوالے کر دیا جائے۔

ایک واقعے میں ڈیاجونس نامی شخص کا غلام فرار ہو گیا۔ ایک روز اتفاقاً اسے بازار میں مل گیا۔ جب لوگوں نے اسے پکڑ کر مالک کے حوالے کرنا چاہا تو اس نے کہا کہ غلام میرے بغیر خوش ہے اور میں غلام کے بغیر، لہٰذا اسے چھوڑ دیا جائے۔۔

رومی شہنشاہ کے پاس بھی غلاموں کی بڑی تعداد ہوتی تھی۔ کیونکہ یہ اس کے وفادار ہوتے تھے اس لیے ان کو سلطنت کے اہم فرائض سونپ دیے جاتے تھے۔ مثلاً ٹیکس جمع کرنا، نہروں، پلوں اور سڑکوں کی تعمیر کرانا، بادشاہ کی حفاظت کرنا اور محل کے مختلف شعبوں کے روزمرّہ کے کام کاج اور ضروریات کو پورا کرنا۔

جب غلام گواہی کے لیے عدالت میں پیش ہوتے تھے تو یہ فرض کر لیا جاتا تھا کہ یہ اس وقت تک سچ نہیں بولیں گے، جب تک انہیں اذیت نہ دی جائے۔ ایک مقدمے میں غلام کو اس کے آقا کے خلاف گواہی دینے کو کہا گہا اور اس نے اس سے انکار کیا تو پہلے اسے مارا پیٹا گیا پھر اس کے ہاتھوں کو جلایا گیا، لیکن ایک طرف جہاں غلاموں کی وفاداری تھی تو دوسری جانب مالک ان پر ظلم کرتا اور سختی سے پیش آتا تو غلام مل کر مالک کو قتل بھی کر دیتے تھے۔

روم کا مشہور فلسفی کیٹو دی ایلڈر (وفات: 149 ق م) جو سیاسی معاملات میں انتہا پسند تھا اور روم پر یونانی کلچر کے سخت خلاف تھا، اپنے غلاموں کے ساتھ اس کا رویّہ غیر انسانی تھا۔ یہ غلاموں سے کھیتی باڑی کرواتا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ غلام یا تو کاموں میں مصروف رہیں یا سو جائیں۔

غلاموں کو اجازت نہ تھی کہ اس کے بارے میں لوگوں سے کوئی بات چیت کریں۔ وقت کے ساتھ غلاموں کے بارے میں رومی معاشرے میں تبدیلیاں آئیں۔ مشہور فلسفی سینیکا دی ایلڈر نے غلاموں کے بارے میں ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بھی انسان سمجھنا چاہیے اور ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ اسی بات کو پلنی دا ینگر، (وفات: 113) نے دھرایا کہ غلاموں پر سختی کی وجہ سے معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔

امرا میں ایک روایت یہ بھی تھی کہ اپنی وصیت میں وہ اپنے غلاموں کی رہائی کے بارے میں لکھ جاتے تھے، جس کے بعد یہ غلام آزاد ہو جاتے تھے۔ اس حیثیت سے بہت سے سابق غلاموں نے اپنے ہنر، فن اور ذہانت سے بہت دولت کمائی یہاں تک کہ یہ امرا کے مقابلے تک آ گئے۔ یہ حویلیوں میں رہتے تھے اور امرا کی دعوتیں کر کے اپنی دولت کا اظہار کرتے تھے۔

مورخوں نے رومی زوال کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی ایک وجہ غلاموں کی بڑھتی ہوئی تعداد تھی، جس نے کسانوں کو بیروزگار کیا اور رومی شہریوں کی آزادی کو بھی گھٹایا۔ رومی اشرافیہ نے جب غلاموں پر بھروسہ کیا تو روزمرّہ کی زندگی اور سیاست میں ان کی دلچسپی کم ہوتی چلی گی۔ وہ آرام دہ زندگی کے عادی ہو گئے اور محنت کرنے کا جذبہ ختم ہو گیا۔ انہیں یہ ڈر بھی رہتا تھا کہ غلام بغاوت کر کے پورے نظام کو ختم نہ کر دیں۔

اس لیے رومی غلام معاشرے کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گئے تھے، اگرچہ آخر میں انہوں نے اپنے رویے کو تبدیل کیا، مگر ان کی سماجی زندگی میں غلاموں کی وجہ سے رکاوٹیں پیدا ہو گئیں۔

رومی سلطنت میں جب وسعت آئی اور جنگوں میں بھی کمی ہوئی تو غلاموں کی آمد بھی زیادہ نہیں رہی اور یہ ادارہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا چلا گیا۔ جب بھی کسی معاشرے میں عدم مساوات ہوتی ہے اور اشرافیہ کا طبقہ غلاموں اور کمزور لوگوں کو کم تر سمجھںے لگتا ہے تو اس صورت میں معاشرے کا استحکام ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی صورت حال سے رومی سلطنت دوچار ہوئی اور زوال پذیر ہو کر اس کا خاتمہ ہوا۔

مذید تفصیل کے لیے دیکھیے:
برائینک ہاروی کی کتاب Daily life in Ancient Rome جو 2018 میں شائع ہوئی۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close