نیو میکسیکو : حال ہی میں موقر جریدے ’سائنس‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں
اس تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سائنس دانوں کو شمالی امریکہ میں انسانی قدموں کے نشانوں کے نئے فاسل ملے ہیں جو تئیس ہزار سال پرانے ہیں. ان کی دریافت نے براعظم پر انسانی سرگرمی پر تحقیق کے حوالے سے نئے در وا ہوئے ہیں، کیوں کہ اس سے قبل انسان کی شمالی امریکہ میں سرگرمیوں کے شواہد بارہ ہزار سال پرانے تھے
برطانیہ کی بورنمتھ یونیوسٹی میں ہومینن پئلیواکالوجی کی ماہر ڈاکٹر سیلی رینالڈس کہتی ہیں ”اس دریافت سے یہ ثابت ہوتا ہے، کہ انسان برف کی پرتیں پگھلنے کے بعد نہیں بلکہ آخری برفانی دور سے قبل یہاں موجود تھے“
انسانی پاؤں کے نشانات کے فوسل امریکی ریاست نیو میکسیکو کے وائٹ سینڈز نیشنل پارک میں ایک قدیم جھیل کی نرم مٹی میں پائے گئے۔ یہ جھیل اب الکلی فلیٹ کا حصہ ہے
ڈاکٹر رینالڈس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ براعظم امریکہ میں قدیم ترین پاؤں کے نشانات وائٹ سینڈز کے مقام سے ملے ہیں جو تقریباً تئیس ہزار پرانے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یہاں برف کی پرتوں کی تعداد سب سے زیادہ تھیں
وہ کہتی ہیں ’ماضی میں ہمارا خیال تھا کہ انسان صرف برف کی پرتیں ختم ہونے کے بعد ہی شمال سے یہاں پہنچا تھا، لہٰذا ہمارا خیال تھا کہ ہم بارہ ہزار سال قبل ہی یہاں موجود تھے اور اسی طرح ایک طویل عرصے تک بہت سے مقامات پر انسانی رسائی کے بارے میں سوچا گیا تھا کہ جب برف سے ڈھکی راہداریاں کھلیں، تو ہی انسان جنوب کی طرف سفر کرنے کے قابل ہوا تھا۔‘
انسانی پیروں کے یہ نشانات سب سے پہلے نیشنل پارک کے ریسورس منیجر ڈیوڈ بسٹوس نے اس وقت دریافت کیے، جب انہوں نے ان ’گھوسٹ ٹریکس‘ کے بارے میں سنا، جہاں پاؤں کے نشانات زمین گیلی ہونے پر ظاہر ہوتے اور خشک ہونے پر غائب ہو جاتے تھے
سب سے پہلے سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق 2016ع میں کی کہ پاؤں کے نشانات کے فوسل حقیقی تھے اور اس ہفتے ’سائنس‘ جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پیروں کے نشانات کے ارد گرد آبی نباتات کے بیجوں کی کاربن ڈیٹنگ سے ثابت ہوا ہے کہ یہ اکیس ہزار سے تئیس ہزار سال پرانے ہیں
زیادہ تر پیروں کے نشان نو عمر انسانوں، چھوٹے بچوں اور کچھ بالغوں کے بھی ہیں، جن کے چاروں طرف میمتھز (قدیم برفانی ہاتھی) دیو ہیکل گراؤنڈ سلاتھس (دو پاؤں پر چلنے والا قدیم امریکی جانور) اور خوفناک بھیڑیوں کے قدموں کے نشانات بھی موجود ہیں
ڈاکٹر رینالڈس کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے براعظم امریکہ میں میگافونا (قدیم دیو ہیکل جانوروں) پر انسانی اثرات کا بھی پتہ چلتا ہے۔ انسانوں کے ساتھ ان کا بقائے باہمی سے رہنے کا دور زیادہ دیر چلا لیکن بالآخر زیادہ شکار کی وجہ سے یہ جانور ناپید ہو گئے
ڈاکٹر رینالڈس کے مطابق: ’شاید یہ ہو سکتا ہے شروع کے سالوں میں انسان ان میگافوناز کو اس لیے مار رہے ہوں تاکہ وہ خود کو مرنے اور اور ان کا شکار بننے سے محفوظ رکھ سکیں.. اور ممکنہ طور پر وقت کے ساتھ ساتھ آبادی بڑھنے سے طاقت کا توازن تبدیل ہو گیا ہو اور انسانوں نے ان میگا فوناز کو زیادہ تعداد میں مارنا شروع کر دیا ہو اور شاید اسی وجہ سے یہ ختم ہو گئے۔‘
تاریخ کے بارے یہ بھی پڑھیے:
-
سعودی عرب میں پہاڑ تراش کر بنائے گئے اونٹوں کے اہرامِ مصر سے بھی قدیم مجسمے
-
دو برابر حصوں میں تقسیم چٹان، سعودی عرب کا ارضیاتی عجوبہ
-
پولینڈ کے غوطہ خوروں نے دنیا کا آٹھواں عجوبہ دریافت کرلیا
-
شوگر کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی انسولین کی تاریخ
-
یک تصویر ، ایک کہانی (1) (گل حسن کلمتی)
-
بابلی تختی میں قدیم پروٹو میتھ کی حیرت انگیز دریافت نے کئی دعووں کو غلط ثابت کر دیا
-
1857 کی جنگ آزادی میں کراچی کا کردار (تیسری اور آخری قسط) (گل حسن کلمتی)