میجر جنرل سمیڈلے بٹلر (اٹھارہ سو اکیاسی تا اکیس جون انیس سو چالیس) امریکن میرین کور کے سب سے زیادہ ڈیکوریٹڈ سولجر تھے۔ انھوں نے چونتیس سالہ فوجی کیریئر میں پہلی عالمی جنگ سمیت وسطی امریکا، ایشیا اور یورپ میں درجنوں فوجی مشنز میں حصہ لیا۔ سولہ تمغے کمائے۔ ان میں سے پانچ شجاعت و بہادری کے اعتراف میں ملے۔ امریکی عسکری تاریخ میں اب تک جن انیس فوجیوں کو دو بار میڈل آف آنر ملا۔ ان میں سمیڈلے بٹلر بھی شامل ہیں۔
انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد کئی کتابیں لکھیں۔ مگر انیس سو تینتیس میں ان کا ایک لیکچر ”وار از اے ریکٹ“ خاصا مشہور ہوا۔ اسے کتابی شکل دی گئی اور یہی جنگ مخالف کتاب ان کی تحریری شناخت بھی بنی۔ اس کے اب تک بیسیوں ایڈیشن شایع ہو چکے ہیں۔ کچھ اقتباسات آپ کی نذر کرتا ہوں۔
’’میں نے تینتیس برس چار ماہ فوج میں گذارے اور اس عرصے میں زیادہ تر وقت وال اسٹریٹ اور بینکرز کے مفاداتی محافظ کے طور پر محسوس کرتا رہا۔ گویا میں سرمایہ داری کا غنڈہ تھا۔انیس سو چودہ میں میکسیکو میں امریکی تیل کمپنیوں کے مفاداتی تحفظ کے لیے مجھے بھیجا گیا۔
میں نے ہیٹی اور کیوبا کو سٹی بینک کے چھوکروں کے لیے ایک محفوظ خطہ بنایا تاکہ وہ یہاں سے پیسہ بٹور سکیں۔وال اسٹریٹ کے مفادات کے لیے وسطی امریکا کی درجن بھر ریاستوں کی عزت تار تار کی۔نکارا گوا کو براؤن برادرز بینکرز کے کھل کھیلنے کے لیے پوتر کیا۔ ڈومینیکن ری پبلک کے اندھیروں کو امریکی شوگر کمپنیوں کے لیے منور کیا۔ہنڈوراس کو امریکی فروٹ کمپنیوں کے استحصال کے لیے کھلوایا۔اور چین میں اسٹینڈرڈ آئل کمپنی کی دخل اندازی کے لیے حالات سازگار کیے۔ ایل کپون ( شکاگو کا مشہور غنڈہ) بے چارا تو محض تین اضلاع میں وارداتوں کے لیے بدنام ہے۔میں نے تو تین براعظموں میں وارداتیں کیں‘‘
’’بلاشبہ جنگ کا دوسرا نام منافع ہے۔جس میں نقصان جان کا اور منافع ڈالر کی شکل میں اٹھایا جاتا ہے‘‘
’’نوجوانوں کو جنگی خدمات کی جانب راغب کرنے کے لیے لچھے دار اہداف دکھائے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ جنگ آیندہ کی جنگوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔اس جنگ کا مقصد دنیا میں جمہوری اقدار کا تحفظ ہے۔انھیں کوئی نہیں بتاتا کہ دشمن کی جس گولی کا وہ نشانہ بن سکتے ہیں وہ انھی کے بھائیوں نے بنائی ہے۔
جو آبدوز ان کے بحری جہاز کو ڈبو سکتی ہے اس کی تیاری کے حقوق بھی امریکا میں ہی پیٹنٹ ہوئے ہیں۔لڑکوں کو بس یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک شاندار مہم جوئی پر جا رہے ہیں۔اور اس شاندار مہم جوئی کے عوض انھیں دلدلی خندقوں میں ہمہ وقت چوکس رہنے اور ڈبہ بند خوراک کھانے اور اپنے پیاروں کو پیچھے چھوڑنے کے بدلے تیس ڈالر ماہانہ دیے جاتے ہیں۔اور جو بھرتی ہونے سے ہچکچاتے ہیں انھیں وطن اور نظریے کے نام پر غیرت دلائی جاتی ہے۔ اس کارِ خیر میں پادری بھی شامل کیے جاتے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ ہمارا خدا جرمنوں کے خدا سے برتر ہے اور اسے تمہاری ضرورت ہے‘‘
’’تم واقعی منافع بخش جنگی کاروبار ختم کرنا چاہتے ہو ؟ تو پھر ایک راستہ بہت ہی سیدھا سا ہے۔ہتھیار ساز کارخانوں کے تمام ورکروں، مینیجروں، ڈائریکٹروں، بینکرز، عوامی و آئینی عہدیداروں، فوجی افسروں، نوکر شاہوں ، کو بس اتنے پیسے دو جتنے کہ خندق میں بیٹھ کر لڑنے والے سپاہی کو ملتے ہیں۔
ان سے کہو کہ اس تنخواہ سے نہ صرف وہ اپنا گھر چلائیں بلکہ اسی میں سے جنگی انشورنس اور جنگی بانڈز کا پریمیم اور قسطیں بھی بھریں۔ان سب کو ایک ماہ کی مہلت دو۔اور پابند کر دو کہ ان سب کے خاندانوں کے صحت مند جوانوں کو لازماً کچھ عرصہ عسکری خدمات انجام دینا ہوں گی۔پھر تم دیکھو گے کہ منافع بخش جنگی ریکٹ اور گٹھ جوڑ کس طرح راتوں رات ختم ہوتا ہے‘‘
’’اور معلوم ہے کہ ریکٹ کیا ہوتا ہے؟ ریکٹ وہ منافع بخش منصوبہ ہوتا ہے، جس سے اکثریت بے خبر ہوتی ہے۔ صرف ایک چالاک اقلیت جانتی ہے کہ کس طرح ہر طرح کے حالات کو منافع میں بدلنا ہے۔ ریکٹ میں فائدہ صرف اوپر کے گنے چنے لوگوںکے گٹھ جوڑ کو ہوتا ہے۔اکثریت کو صرف خواب اور خوشنما اور جوشیلے نعرے ملتے ہیں‘‘
’’جی ہاں ہم اپنے سفارتکاروں، سیاستدانوں اور جنرلوں کو تخفیفِ اسلحہ کانفرنسوں میں بھی بھیجتے ہیں۔ مگر جنگ کے کاروباری پس پردہ رہ کر اس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ ایسی کوئی کانفرنس کامیاب نہ ہو۔ وہ مندوبین کو بتاتے ہیں کہ رکاوٹیں کیسے ڈالنی ہیں اور راستہ کیسے روکنا ہے۔ کیونکہ امن سے زیادہ اہم پیٹ اور کاروبار ہے۔ کبھی آپ نے دیکھا کہ تخفیفِ اسلحہ کانفرنسوں میں کیے گئے وعدے پورے ہوئے ہوں؟‘‘
’’جنگ کی اجازت صرف دو صورتوں میں ہونی چاہیے۔ گھر کی حفاظت کے لیے اور بنیادی آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے۔ باقی کسی بھی وجہ کے لیے لڑی جانے والی جنگ ایک منافع بخش شعبدے بازی کے سوا کچھ نہیں‘‘
’’اگر ہم اپنے بہترین دماغوں کو ہمہ وقت تباہی پھیلانے والے نت نئے آلات و ہتھیاروں کی تحقیق و ایجاد پر لگائے رکھیں گے تو انھیں عمومی خوشحالی بڑھانے والی تحقیق و ایجاد و دریافت کے لیے کہاں سے وقت ملے گا۔فتح و شکست جنگی کاروبار سے نہیں فلاحی ہنرمندی سے نتھی ہونا چاہیے۔ امن کی ٹیکنالوجی سے جنگی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ منافع کمایا جا سکتا ہے۔مگر یہ ایک صبر آزما راستہ ہے اور جنگ بازوں کے پاس اتنا صبر کہاں؟‘‘
’’مگر یہ کیسے ممکن ہے جب امن کے دور میں صنعتی منافع زیادہ سے زیادہ دس بیس فیصد ہو اور جنگی ماحول میں یہ منافع اٹھارہ سو فیصد تک پہنچ جائے۔پہلی عالمی جنگ پر امریکا نے باون ارب ڈالر خرچ کیے۔ ان میں سے انتالیس ارب ڈالر جنگی اخراجات تھے اور تیرہ ارب ڈالر کا منافع اکیس ہزار سرمایہ کاروں میں بٹ بٹا گیا‘‘
یہ تو تھے میجر جنرل سمیڈلے بٹلر کے خیالات۔ ایک اور فوجی جنرل آئزن ہاور بھی تھے جو امریکا کے صدر بنے انھوں نے انیس سو اکسٹھ میں اپنی الوداعی تقریر میں فرمایا،
’’پچھلی صدی تک ہماری پاس ہتھیار سازی کی صنعت نہیں تھی۔ بحران کے وقت ہل بنانے والے تلوار بنانے کی اہلیت رکھتے تھے۔مگر بدلے ہوئے حالات میں ہمیں ایک مستقل ہتھیار ساز صنعت کو اپنانا پڑا۔آج پینتیس لاکھ امریکی زن و مرد دفاعی امور سے وابستہ ہیں۔ہم دفاع پر تمام امریکی کارپوریشنوں کی آمدنی سے زیادہ صرف کر رہے ہیں۔
مگر دفاعی صنعت کے اثرات ہر شعبہ زندگی پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ہمیں دفاعی شعبے ( ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس) کو ضرور ترقی دینی چاہیے مگر اس کے پھیلتے ہوئے اثر و رسوخ پر بھی نگاہ رکھنی چاہیے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے سائے ہماری بنیادی آزادیوں اور جمہوری ڈھانچے کو اپنی گرفت میں لے لیں۔ہمیں دفاع اور آزادیوں کے درمیان توازن رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ خوشحالی کا سفر برقرار رہے۔
سمیڈلے بٹلر کا اسی برس پہلے اور آئزن ہاور کا باون برس قبل انتقال ہو گیا۔وہ ہار گئے اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس جیت گیا۔آج امریکا کا سالانہ دفاعی بجٹ اس کے بعد دفاع پر خرچ کرنے والے نو ممالک کے مجموعی دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔اور دنیا کو آزاد اور جمہوری بنانے کا نعرہ بھی اپنی جگہ ہے۔
(بشکریہ ایکسپریس و بی بی سی)