تھانہ بولا خان، جو کبھی ضلع کراچی کا حصہ تھا!

علی عمران

1843ع میں جب انگریزوں نے سندھ پر مکمل تسلط حاصل کر لیا تو جنرل چارلس نیپیئر نے سندھ کو صوبہ بمبئی کے اندر ضم کر دیا اور اسے تین حصوں میں تقسیم کر دیا یعنی کراچی، حیدرآباد اور شکارپور۔

1911ع کی مردم شماری کے مطابق ضلع کراچی جنوب میں ساحل سمندر سے لگا ہوا تھا، جب کہ مغرب میں بلوچستان کے ضلع لسبیلہ سے دریائے حب کے ذریعے الگ ہوتا تھا۔ دوسری طرف شمال میں کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے کے ذریعے ضلع لاڑکانہ کی تحصیل سہون پر ختم ہوتا تھا. جبکہ مشرق میں مشہور شہر جھرک پر دریائے سندھ کے کنارے پر ختم ہوتا تھا اور دوسرے کنارے سے ضلع حیدرآباد شروع ہو جاتا تھا۔

یعنی اس زمانے میں ضلع کراچی میں موجودہ ضلع ٹھٹہ کا پورا علاقہ اور موجودہ ضلع جامشورو کی تحصیل سہون تک کا علاقہ شامل تھا. اس زمانے میں ضلع کراچی میں 9 تحصیلیں شامل تھیں۔ جن میں کراچی، شاہ بندر، جاتی، سجاول، میرپور بٹھورو، میرپورساکرو، گھوڑا باری، اور کوٹری شامل تھیں. تحصیل کوٹری ضلع لاڑکانہ کی تحصیل سہون پر جا کر ختم ہوتی تھی. اس تحصیل کو دو محالوں میں بانٹا گیا تھا ایک کا نام مانجھنڈ محال اور دوسرے کا نام کوہستان محال تھا. کوہستان دراصل اس وقت کی تحصیل کوٹری کے پہاڑی علاقے کو کہا جاتا تھا دوسرے الفاظ میں کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے کو کوہستان کا نام دیا گیا تھا۔ اس زمانے میں کوہستان کا ہیڈکوارٹر تھانہ بولا خان کو بنایا گیا۔

تھانہ بولا خان سندھ کا ایک قدیم شہر ہے اور کہا جاتا ہے کہ نورمحمد کلہوڑا کے زمانے میں جب بولا خان نومروی نے جوکھیوں کے ایک حملہ آور دستے کا مقابلہ کیا تھا، تو یہاں پڑاؤ ڈالا تھا اور یوں اسی نسبت سے اس علاقے کا نام تھانا بولا خان پڑ گیا۔

1901ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی کل آبادی 12870 تھی جبکہ 1911ء کی مردم شماری کے مطابق یہ آبادی بڑھ کر 18483 ہوگئی تھی. جبکہ یہاں ایک محال کاری آفس، ایک ڈسپنسری، ایک پولیس اسٹیشن، ایک اسکول، ایک پوسٹ آفس اور ایک مسافر خانہ بھی تھا۔

کوہستان کے علاقے میں سندھ کے مشہور سیاسی خاندان ’ملک خاندان‘ آباد ہے. یہ خاندان کوہستان کا بادشاہ کہلاتا ہے. یہ خاندان آٹھویں صدی میں یہاں آکر آباد ہوا اور حکمرانی حاصل کی. پہلے یہ جام کہلاتے تھے. مغل حکمرانوں کی جانب سے اس خاندان کے ایک حکمران جام کانبھوخان کو ان کی بہادری پر "ملک” کا خطاب ملا تو تب سے یہ خاندان ملک کہلاتا ہے. اس وقت سے اب تک یہ خاندان سندھ کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتا آرہا ہے۔ موجودہ دور میں ملک اسد سکندر صاحب اس خاندان کے سردار ہیں۔

1936ء میں جب مسلم لیگ اور سندھ کے دیگر اکابرین کی کوششوں سے سندھ کو بمبئی سے الگ کر دیا گیا تو اس کے بعد 1941ء کی نئی مردم شماری میں صوبہ سندھ میں مزید اضلاع کا اضافہ کر دیا گیا اور یوں اضلاع کی تعداد 9 ہوگئی یعنی کراچی، حیدرآباد، دادو، نوابشاہ، لاڑکانہ، سکھر، تھرپارکر، ٹھٹہ اور خیرپور، تاہم ضلع خیرپور کو ایک الگ ریاست کی حیثیت حاصل تھی. اس طرح ضلع کراچی میں سے گھگھر پھاٹک سے آگے کے علاقے کو نئے ضلع ٹھٹہ میں شامل کر دیا گیا، جبکہ ضلع کراچی میں سے تحصیل کوٹری اور ضلع لاڑکانہ میں سے تحصیل سہون اور دادو کو نکال کر ایک نیا ضلع دادو بنا دیا گیا۔ اس نئے ضلع میں کوہستان کو تحصیل کا درجہ مل گیا اور تھانہ بولا خان اس کا تحصیل ہیڈکوارٹر بنا.

2004ء میں ضلع دادو کو تحصیل سہون سے کاٹ کر کراچی تک کے علاقے کو ایک نیا ضلع جامشورو کا نام دیا گیا۔ اس ضلع میں براہ راست تھانہ بولا خان کو تحصیل کا درجہ دے دیا گیا۔ اس تحصیل میں تمام کوہستان کا علاقہ شامل ہے، جس میں خاص طور پر نوری آباد جو کہ کراچی کے بعد سندھ کا سب سے بڑا صنعتی قصبہ ہے اور اس میں 200 سے زیادہ چھوٹے بڑے کارخانے موجود ہیں. اس کے علاوہ دیگر علاقوں میں کھالو کہر، سَری، مول شریف، تونگ، کرچات، تھانہ احمد خان وغیرہ کے علاقے شامل ہیں.

2017ء کی مردم شماری کے مطابق اس تحصیل کی آبادی 145262 نفوس پر مشتمل ہے. اس آبادی میں کافی تعداد میں ہندو بھی شامل ہیں، جو دراوت ڈیم کے آس پاس رہتے ہیں. تھانہ بولا خان کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس علاقے میں کبھی ہندو مسلم فسادات نہیں ہوئے اسی لئے اس علاقے کے ہندو ہجرت کر کے ہندوستان نہیں گئے اور بہت آزاد ماحول میں اپنی مذہبی زندگی گزارتے ہیں۔ تھانہ بولا خان کی تحصیل میں پالاری، برفت، خاصخیلی، میمن اور جوکھیو قبیلے بڑی تعداد میں آباد ہیں.

تھانہ بولا خان کی ایک اور پہچان کھیرتھر نیشنل پارک ہے. یہ پارک کراچی میں حب ڈیم کے پاس سے شروع ہوتا ہے اور پھر یہ زیادہ تر تھانہ بولا خان کی حدود میں ہی موجود ہے۔

کھیرتھر نیشنل پارک پاکستان کا تیسرا بڑا نیشنل پارک ہے، جو 3087 اسکوائر کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ تھانہ بولا خان کے علاقے آچر، کرچات، تونگ اور مول کھیرتھر نیشنل پارک میں آتے ہیں۔ اس علاقے کو 1972ء میں جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دیا گیا تھا۔ 1974ء میں اسے نیشنل پارک کا درجہ ملا اور یہ پاکستان کا پہلا پارک ہے جس کو اقوام متحدہ نے اپنی نیشنل پارک کی فہرست میں شامل کیا.

بارشوں کے زمانے میں یہ علاقہ قابل دید ہوتا ہے اور پہاڑوں پر سبزہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آپ شمالی علاقہ جات میں گھوم رہے ہوں. اس پارک کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں نایاب جنگلی حیات پائی جاتی ہے، جسے دیکھنے کے لیے دور دراز سے سیاح آتے ہیں. یہاں انواع و اقسام کے نایاب جنگلی جانور اور رینگنے والے جانور موجود ہیں، جن میں اڑیال، آئبیکس، جنگلی بلیاں، خرگوش، گیدڑ، لومڑیوں کی مختلف اقسام، جنگلی بھیڑیے جبکہ 2019 میں آخری مرتبہ یہاں تیندوا بھی دیکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اس نیشنل پارک میں مختلف اقسام کے سانپ اور اور نایاب قسم کی چھپکلیاں بھی پائی جاتی ہیں. اس نیشنل پارک میں 147 مختلف اقسام کے پرندے بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں، جن میں تمام قسم کے شکاری پرندوں کے ساتھ یہاں ایک زمانے میں گدھ بھی بہت بڑی تعداد پائے جاتے تھے مگر مری ہوئی فارمی مرغیوں کو کھانے سے ان میں مختلف قسم کی بیماریاں پیدا ہوئیں، جس کی وجہ سے گِدھوں کی نسل اب یہاں معدوم ہو گئی ہے.

کھیرتھر پارک میں کرچات سینٹر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کوہ تراش کی وادی آج بھی انسانی تہذیب کو اپنے دامن میں لپیٹے ہوئے ہے۔ کوہ تراش فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں تراشنے والوں کا پہاڑ۔ پہاڑ اور اس کے نواح میں 3500 قبل از مسیح کے انسانی تہذیب کے آثار ملے ہیں۔ یہ آثار ایک مکمل آبادی اور تہذیب کے بھر پور شواہدات فراہم کرتے ہیں۔

رنی کوٹ کا قلعہ بھی تھانہ بولا خان کی ہی تحصیل میں آتا ہے. اس کا راستہ انڈس ہائی وے پر سن کے پاس سے الٹے ہاتھ پر نکلتا ہے، جو تقریباً آدھے گھنٹے کی دوری پر ہے. یہ ایک تاریخی قلعہ ہے. اسے عظیم دیوار سندھ بھی کہا جاتا ہے. اس کا احاطہ تقریبا 26 کلو میٹر ہے. یہ قلعہ 1993 میں یونیسکو کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا تھا. اس کی تعمیر کے بارے میں کہ اس کی بنیاد کس نے اور کب رکھی اور کس نے اسے تعمیر کیا کوئی حتمی بات نہیں ہے، تاہم محکمہ آثار قدیمہ کو جو شواہد ملے ہیں اس کے مطابق اس قلعے کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے.

یہ قلعہ کھیرتھر کے پہاڑی سلسلوں میں بالکل دیوار چین کی طرح بنایا گیا ہے اور انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ دو ہزار سال پہلے کس طرح سے اسے بنایا گیا ہوگا اور کیسے پتھروں کو اتنے اونچے اونچے پہاڑوں پر پہنچایا گیا ہوگا. رنی کوٹ کا قلعہ خود ایک جہانِ حیرت ہے.

(لکھاری نہ صرف پیشے سے استاد ہیں ، بلکہ پڑھنے پڑھانے سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں۔ سیاحت کا جنون ان کی سرشت میں شامل ہے۔ ان کے پیر سفر کرتے اور ان کے ہاتھ ان اسفار کی روداد قلم بند کرتے ہیں، اس طرح وہ سب کو اپنے سفر میں شامل کر لیتے ہیں)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close