’سمجھ نہیں آتی، میں اپنے لاپتہ شوہر کی بیوی ہوں یا بیوہ؟‘

نیوز ڈیسک

کوئٹہ : ’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں اپنی زندگی میں کوئی خوشی مناؤں یا بے بس ہو کر بیٹھ جاؤں، میں خود نہیں جانتی کہ میں کیا کروں؟‘ یہ الفاظ ہیں، آج سے تقریباً دس سال پہلے لاپتہ ہونے والے ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی اہلیہ کے، جو ہر روز اس امید کے ساتھ اپنے دن کا آغاز کرتی ہیں کہ شاید یہ وہی دن ہو، جب ان کے لاپتہ شوہر گھر لوٹ آئیں

وہ خود سے یہ سوال کرتے کرتے تھک چکی ہیں کہ آیا وہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیوی ہیں یا ان کی بیوہ؟ وہ ایک سہاگن بن کر اپنے شوہر کی لوٹنے کا انتظار کریں یا سب کچھ بھلا کر خود کو بیوہ تسلیم کر لیں؟ ان کا معاشرے میں اب قانونی درجہ کیا ہے، ہر گزرتا دن ایسے کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے، لیکن جواب کہیں نہیں.. نہ عدالتوں میں، نہ ایوانوں میں

ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی اہلیہ کے مطابق 28 جون 2009ع کو انھیں ہسپتال سے ایک رات فون آیا کے سول اور ملٹری کپڑوں میں کچھ لوگ اسلحہ کے ساتھ ہسپتال میں گھسے، ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو مارا پیٹا اور اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے۔ اس فون کال پر ملنے والی خبر کے بعد گذشتہ دس سالوں سے ان کی زندگی سوالات میں الجھ کر رہ گئی ہے

وہ کہتی ہیں ”انہیں اب کسی خوشی کی تلاش نہیں، میرے لیے کوئی خوشی، خوشی نہیں ہے اور نہ کسی اور کو اپنی زندگی میں لانے کی خواہش رکھتی ہوں۔ بس میں ابھی تک انتظار میں ہوں کہ میرے شوہر کی زندگی اور سلامتی کی کوئی خبر آئے گی اور وہ واپس ہماری زندگیوں میں آئیں گے، پھر میں ان کے ساتھ ہی اپنی آگے کی زندگی گزاروں گی۔ میرے شوہر کو شہید کیا گیا ہے یا پھر وہ زندہ ہے، میں اس کے لیے انتظار کر رہی ہوں اور انتظار کرتی رہوں گی“

جواب سے محروم ان سوالات کا بوجھ اپنی جگہ لیکن ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی اہلیہ کی زندگی میں اپنے قانونی اسٹیٹس اور لوگوں کی باتوں کی الجھنیں اس سے سوا ہیں

”مجھے لوگ کہتے ہیں کہ تم بدقسمت ہو تمہاری زندگی میں خوشیاں نہیں آئیں گی اور کہتے ہیں کہ میری بدقسمتی کی وجہ سے گھر کی خوشیاں چلی گئی ہیں۔“

لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کے جبری طور پر گمشدہ ہونے کا غم تو ہر لمحہ محسوس کرتے ہیں، لیکن گھر کا ایک فرد بھی اس طرح لاپتہ ہو تو پیچھے رہ جانے والے کئی قانونی پیچیدگیوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں

اگر ایک طرف ایک بیوی اپنے شادی شدہ ہونے یا بیوہ ہونے کا سوال کرتی ہے تو دوسری طرف ایک بیٹی کو اس ملک میں اپنی شناخت لینے کے لیے دو سال عدالتوں کے دھکے کھا کر حق حاصل کرنا پڑتا ہے

ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی، سمی بلوچ کے مطابق جب انہیں اپنا شناختی کارڈ بنوانا تھا، اُس وقت اُن سے ان کے والد کا شناختی کارڈ بھی مانگا گیا، لیکن وہ چونکہ اپنی مدت پوری کر چکا تھا، اس لیے نادرا نے ان سے والد کے نئے کارڈ کا مطالبہ کیا

کیا کوئی اس دکھ اور بے بسی کو محسوس کر سکتا ہے، جب اس صورتحال پر بات کرتے ہوئے سمی بلوچ کہتی ہے کہ
’میرے والد لاپتہ ہیں، میں اُن کا نیا شناختی کارڈ کہاں سے لاتی؟ یا پھر مجھے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ جمع کروانے کا کہا گیا.. لیکن میں اپنے زندہ والد کو مردہ کیسے تسلیم کر لیتی؟‘

سمی بلوچ بتاتی ہیں کہ انہیں دو سال عدالت کے چکر کاٹنے پڑے، جہاں سے انہوں نے خصوصی حکم جاری کروایا جس کے بعد جا کر ان کا اپنا شناختی کارڈ بنا

لاپتہ افراد کے لواحقین کی قانونی مشکلات کے کئی روپ ہیں۔ مہکان (فرضی نام) کے بھائی ایک سرکاری ملازم ہیں، چار سال پہلے یعنی 2017 میں انہیں گھر کے قریب ایک ورک شاپ سے کچھ فوجی وردی اور سول کپڑوں میں ملبوس افراد نے مارا پیٹا اور پھر اُٹھا کر لے گئے.. اس دن سے ان کا بھائی بھی گیا اور واحد کمانے والے بھائی کی سرکاری تنخواہ بھی بند ہو گئی

مہکان کہتی ہیں کہ لاپتہ کیے جانے کے بعد دوسرا بھائی دو مہینے تک جا کر ان کی تنخواہ لیتا رہا، لیکن اس کے بعد ان کی تنخواہ بند ہو گئی۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ ڈیوٹی پر نہیں آرہے ہیں، اس لیے ان کی تنخواہ بند کی گئی ہے. ان کو لاﺅ تو ہم ان کی تنخواہ دیں گے۔ جب اسے لاپتہ کر دیا گیا ہے، تو ہم ان کو کہاں سے لائیں؟ جس پر کہا گیا کہ پھر اس کی تنخواہ بند ہی رہے گی ہے

اس ایک واقعے نے انہیں قانونی جنگ لڑنے کا راستہ تو دکھایا، لیکن اس راستے پر چلنے کے لیے اس غریب خاندان کے پاس مطلوبہ مالی وسائل کہاں سے آئیں

مہکان کا کہنا ہے کہ ہم چار سال سے انتظار کر رہے ہیں کہ بھائی آج آئے گا، کل آئے گا۔ چار سال ہو گئے، نہ ان کو چھوڑ رہے ہیں اور نہ بتا رہے ہیں۔ ہم بیٹھے اسی غریبی اور بے بسی میں زندگی گزار رہے ہیں. پہلے ہم خواتین کچھ نہیں کرتی تھیں بھائی کے صدقے، لیکن اب ہم مجبور ہیں۔ محنتی کشیدہ کاری کا کام اٹھا کر کرتے ہیں، پانچ ہزار روپے میں دس ہزار روپے میں۔ اس طرح کشیدہ کاری کر کے اس مہنگائی میں بچوں کا وقت گزار رہے ہیں، کبھی بھوکے ہوتے ہیں کبھی سیر.. ایک طرف بھائی کی جدائی کا غم، تو دوسری طرف اس کے گمشدہ ہو جانے سے تنخواہ بھی بند۔ باقی بچی تو صرف مالی مشکلات.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close