سترہ گھنٹے ملبے تلے بہن کی ڈھال بننے والی شامی بچی، اور تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے بچا لی گئی نوزائیدہ بچی

ویب ڈیسک

ترکیہ اور شام میں پیر کی صبح آنے والے شدید زلزلے کے بعد تباہی کے مناظر کی تصاویر اور دلخراش وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں

شام میں تباہ ہونے والی ایک عمارت میں سترہ گھنٹے سے ملبے تلے دبی شامی بچی اپنی چھوٹی بہن کی ڈھال بن گئی اور اس کے سر کو زخمی ہونے سے بچانے کی کوشش کرتی رہی

العربیہ نیٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر وائرل وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ملبے تلے دبی شامی بچی اپنی چھوٹی بہن کے سر کو اپنے ہاتھ پر رکھے اور اسے اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے

دونوں بہنیں ایک بڑے بلاک کے نیچے دبی تھیں اور حرکت کرنے سے بھی قاصر تھیں تاہم انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ شامی بچی اپنی چھوٹی بہن کو حوصلہ دیتی رہی

ریسکیو ٹیم جب موقعے پر پہنچی تو امدادی ٹیم کے ایک اہلکار نے شامی لڑکی کو باتوں میں لگایا تاکہ ریسکیو آپریشن مکمل ہونے تک انہیں اطمینان دلایا جا سکے۔ اہلکار نے اس سے چھوٹی بہن کے کھلونوں کے بارے میں پوچھا؟

ملبے تلے دبی شامی لڑکی نے ریسکیو اہلکار سے کہا ’انکل مجھے یہاں سے نکال لیں۔ میں زندگی بھر آپ کی خدمت کرتی رہوں گی۔‘

مقامی میڈیا اور ریسکیو اہلکاروں کے مطابق لڑکی اور اس کی بہن کو زلزلے کے سترہ گھنٹے بعد ملبے سے نکال لیا گیا

دوسری جانب تباہ کن زلزلے کے بعد شام کے ایک قصبے میں امدادی کارکنوں کو کھدائی کے دوران ایک مکان کے ملبے سے نوزائیدہ بچی ملی، جو کچھ ہی دیر قبل پیدا ہوئی تھی اور اس کی نال اپنی ماں کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ ماں زلزلے میں دب کر ہلاک ہو چکی تھی

شیر خوار بچی کے ایک قریبی عزیز خلیل السویدی نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اپنے خاندان کا زندہ بچ جانے والا واحد فرد ہے۔ اس کے گھر کے باقی تمام افراد زلزلے کی لپیٹ میں آ کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ علاقہ شام کے باغیوں کے قبضے میں ہے

سوادی نے بتایا کہ انہیں بچی کی موجودگی کا اس وقت پتہ چلا جب بقول ان کے، ’’ہم نے کھدائی کرتے وقت ایک آواز سنی۔‘‘

’’ہم نے مٹی صاف کی اور بچی کو ہلاک شدہ ماں سے الگ کر کے اسپتال پہنچایا۔‘‘

شام کے زلزلے سے متاثرہ علاقے میں بھاری مشینوں سے ملبہ ہٹا کر زندہ بچ جانے والوں کو تلاش کیا جا رہا ہے۔
شام کے زلزلے سے متاثرہ علاقے میں بھاری مشینوں سے ملبہ ہٹا کر زندہ بچ جانے والوں کو تلاش کیا جا رہا ہے۔
بچی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے

فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ ایک شخص تباہ شدہ چار منزلہ عمارت کے ملبے سے ایک نوزائیدہ بچی کو نکال کر باہر لا رہا ہے جو دھول اور مٹی سے لت پت ہے

بچی کو علاج معالجے کے لیے قریبی قصبے عفرین میں لایا گیا جب کہ خاندان کے دیگر افراد نے کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد بچے کے والد عبداللہ ، والدہ افرا، اس کے چار دیگر بہن بھائیوں اور خالہ کی نعشیں ملبہ کھود کر باہر نکالیں

یہ مکان جندیارس کے تقریباً 50 گھروں میں شامل تھا جنہیں زلزلے نے ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے

عفرین کے اسپتال میں نوزائیدہ بچی کو انکیوبیٹر میں رکھا گیا ہے اور اسے ڈرپ لگائی گئی ہے۔ اس کے جسم پر زخموں کے نشان ہیں اور اس کی بائیں ہتھیلی پر پٹی بندھی ہوئی ہے

سخت سردی کی وجہ سے اس کی پیشانی اور انگلیاں ابھی تک نیلی ہیں

ڈاکٹر ہانی معروف نے بتایا کہ جب بچی کو اسپتال لایا گیا تو وہ ٹھنڈ (ہائپو تھرمیا) کے اثر میں تھی۔ اسے ٹھنڈ کے اثرات سے نکالنے کے لیے ہمیں اس کا جسم گرم کرنا پڑا اور اسے کیلشیم کی خوراکیں دینی پڑیں۔

ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کے جسم پر کئی زخم آئے ہیں۔

شام کے اس علاقے پر باغی فورسز قابض ہیں۔ یہاں زلزلہ زدگان کی مدد ایک ریسکیو گروپ ’وائٹ ہیلمٹس‘ کر رہا ہے

گروپ نے بتایا ہے کہ اس علاقے میں 210 سے زیادہ عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ 520 جزوی طور پر تباہ ہوئیں ہیں ، جب دیگر ہزاورں عمارتوں کا تھوڑا بہت نقصان ہوا ہے۔

ریسکیو گروپ نے کہا ہے ہم دنیا سے فوری امداد پہنچانے کی اپیل کر رہے ہیں کیونکہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے ۔ سینکڑوں لوگ اب بھی ملبے کے نیچے ہیں اور ہر سیکنڈ کا مطلب ایک جان بچانا ہے

سوشل میڈیا پر وائرل ایک اور وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شام میں حلب کے علاقے جندریس میں ملبے تلے دبی ایک بچی کو نکالنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ بچی بے ہوش تھی

اسی دوران ایک اہلکار نے بچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’تمہارے بابا یہاں ہیں؟‘ یہ سنتے ہی بچی کے اندر حرکت پیدا ہوئی اور وہ بلا ارادہ دیکھنے لگی

گھنٹوں ملبے تلے دبے رہنے سے بچی کا پورا چہرہ مٹی سے اٹا ہوا تھا

شام میں ہی زلزلے کے چوبیس گھنٹے کے بعد ایک منہدم عمارت کے ملبے تلے دبے شخص کو بھی نکالا گیا ہے

شام کے شہری دفاع نے منگل کو ریسکیو آپریشن کی وڈیو شیئر کی۔ ادلب کے ایک چھوٹے قصبے میں زلزلے سے مکمل تباہ ہونے والی پانچ منزلہ عمارت کے ملبے تکے دبے ایک نوجوان کو نکالا گیا، جس کی شناخت صرف علی کے نام سے ہوئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close