ایک تصویر ایک کہانی: 19

تحریر : گل حسن کلمتی

آج کہانی ایک ایسی تصویر کی ہے، جو ایک تاریخ ہے. یہ تاریخ سندھ کی راجدھانی ہمارے اس شہر کراچی کی ایک عمارت کی ہے۔ یہ کہانی کلفٹن میں موجود ایک محل نما عمارت ”موھاٹا پیلس“ کی ہے۔ موھاٹا پیلس بنانے والے تاریخ کے جبر کے نتیجے میں جلاوطن ہوئے، تو اس پیلس کو بھی سکون نصیب نہیں ہوا۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ جب شہر کے ایک سیاسی، سماجی رہنما اور ایک بڑے تاجر مارواڑی ہندو رائے بہادر شورتن چندرا رتن گوردھن داس موھاٹا کی بیوی بیمار رہنے لگی، تو ڈاکٹروں اور حکیموں نے مشورہ دیا کہ انہیں صبح شام سمندر کی ہواؤں کی ضرورت ہے، ہواؤں کو قید نہیں کیا جاسکتا، اس لیے اس سیٹھ نے اپنی بیوی کے لیے تاج محل نہ سہی لیکن تاج محل سے کسی طرح  بھی کم نہیں، یہ محل 1927ع میں بنایا، جو موھاٹا پیلس کے نام سے مشہور ہے۔

اس دور میں سمندر کی لہریں عبداللہ شاہ اور روپ چند بیلا رام پارک (اب باغ ابنِ قاسم) کے ساتھ رتنیشور مھادیو مندر کی دیواروں سے ٹکراتی تھیں۔

موھاٹا پیلس کا نقشہ اس دور کے ایک مشہور آرکیٹیکٹ آغا احمد حسین نے بنایا تھا. آغا احمد حسین ہندو جیم خانہ، کراچی چیمبرز آف کامرس، انڈین مرچنٹس ایسوسی ایشن اور دیگر کئی عمارتوں کے آرکیٹیکٹ رہے ہیں، اس لیے ان عمارات میں آپ کو کافی مماثلت نظر آئے گی۔ ان میں سے ہندو جیم خانہ اور موھاٹا پیلس فن تعمیر کے لازوال شاہکار ہیں.

شورتن موھاٹا اپنی سخاوت اور سماجی کاموں کے حوالے سے مشہور تھا، وہ کراچی میونسپلٹی کا میمبر بھی تھا ، وہ بہت سی کمیٹیوں اور فلاحی اداروں کا ممبر تھا۔ موھاٹا پیلس کے تعمیر میں جودھپور کا گلابی پتھر اور گذری (گسری) کا زردی مائل پتھر استعمال کیا گیا، جس نے اس کے خوبصورتی چار چند لگا دئیے. پتھر کیسا بھی ہو، لیکن اصل کمال ان مزدوروں کے ہاتھوں کا جنہوں نے انہیں تراشا ہے. یہ عمارت ہندو اور مغل طرزِ تعمیر کا ایک شاہکار ہے، یہ ہنر آپ کو آغا احمد حسین کے ڈیزائن کردہ ہر عمارت میں دیکھنے کو ملے گا.

موھاٹا پیلس 18 ہزار 500 سؤ اسکوائر فٹ اور 1720 میٹر کی اراضی پر مشتمل ہے۔ عمارت کے چاروں اطراف پارک اور بڑے درخت ہوا کرتے تھے. عمارت کے چاروں کونوں پر چار پتھروں کے خوبصورت گنبد محرابوں پر بنے ہوئے ہیں. بیچ میں بڑے دروازے کے اوپر ایک بڑا شاہی گنبد ہے، اس گنبد کے چاروں اطراف چار اور چھوٹے گنبد ہیں ،یہ بھی محرابوں پر بنے ہوئے ہیں. اس طرح آٹھ چھوٹے اور بڑے گنبد نے اس خوبصورتی میں مزید اضافہ کیا ہوا ہے۔

عمارت کے تین مرکزی دروازے ہیں، جن کے اطراف کھڑکیاں ہیں. ہر کھڑکی الگ ڈیزائن کی ہے۔ گیلریوں پر خوبصورت نقش نگاری کی گئی ہے. دروازے اور کھڑکیوں میں اعلیٰ قسم کی لکڑی استعمال کی گئی ہے. عمارت کے بڑے لان پر بھی لکڑی کا عالیشان کام کیا گیا ہے۔دوسری منزل پر جانے کے لیے سیڑھیاں بھی لکڑی سے بنی ہوئی ہیں. اندر جانے کے لیے سامنے والے دونوں محرابوں کے اندر قطب مینار کی طرح گول دائرے والی سیڑھیاں ہیں، جس میں روشندانوں کے ذریعے روشنی کا اہتمام کیا گیا ہے.

موھاٹا پیلس کے اوپر والے حصے میں چار بیڈ روم اور ہر بیڈ روم کے ساتھ بیٹھک بھی ہے۔ نیچے والے حصے کے کمرے بڑے اور کشادہ ہیں۔یہاں پر محفلیں، پروگرام اور فنکشن ہوا کرتے تھے۔ اوپر والے ٹیرس میں مندر بھی تھا۔

موھاٹا پیلس کے تہہ خانے کے راستے سوئمنگ پول تھا، جہاں ٹھنڈے اور گرم پانی کا اہتمام تھا، جس کے لیے روشندانوں سے روشنی کا بندوست کیا گیا تھا۔ اس سوئمنگ کے پانی کے اخراج کے لیے ایک چھوٹی تین فٹ حجم کی سرنگ بھی تھی۔

شورتن موھاٹا کراچی چیمبر آف کامرس ، انڈین مرچنٹس ایسوسی ایشن، ڈیپچند ٹی اوجھا سینٹوریم کا بانی میمبر تھا. موھاٹا خاندان کا سندھ کی سیاست اور خصوصی طور پر کراچی کی ترقی میں بڑا ہاتھ رہا ہے. کھارادر میں مشہور گوردھن داس مارکیٹ، جو سیٹھ گوردھن داس موتی لال موھاٹا نے تعمیر کرائی تھی، یہ شورتن کے والد تھے. کھارادر میں موھاٹا ہاؤس بھی ان کا دوسرا گھر تھا۔

شورتن موھاٹا بیس سال موھاٹا پیلس میں رہے، تقسیم کے بعد وہ سندھ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے. جب پاکستان بنا تو موھاٹا پیلس کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا اور اسے وزارت خارجہ کے دفتر کے لیے منتخب کیا۔

شورتن نے ایک تقریب میں جناح سے ملاقات میں کہا کہ میرا ایک اور گھر بھی میں حکومت کو دینے کے لیے تیار ہوں ، موھاٹا پیلس میں رہ رہا ہوں، اس لیے یہ نہ لی جائے. جناح نے جواب دیا کہ میں اس سلسلے میں بے بس ہوں.

یہ بات مشہور بلاگر اختر بلوچ نے پاکستان بننے کے بعد کراچی کے پہلے ایڈمنسٹریٹر ھاشم رضا کی کتاب ”ہماری منزل“ (مطبوعہ 1991ع) کے حوالے سے اپنے ایک بلاگ میں تحریر کی تھی. یہ وہی ھاشم رضا تھے، جنہوں نے بیمار محمد علی جناح کے لیے ماڑی پور ایئر بیس پر ایک کھٹارا ایمبولینس بھیجی تھی، جو راستے ہی میں خراب ہو گئی تھی اور اس کا پٹرول بھی ختم ہوگیا تھا۔ شہر کا ایڈمنسٹریٹر ہوتے ہوئے بھی وہ بیمار جناح کو لینے بھی نہیں گئے تھے.

جب شورتن کو یہ جواب ملا، تو اس نے کراچی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ موھاٹا کے کراچی چھوڑنے کے بعد اس  عمارت میں منسٹری آف فارن افیئرز کی آفس قائم کی گئی۔  یہ عمارت، جو حکومت کی تحویل میں تھی، شورتن موھاٹا سے یہ کہہ کر لی گئی کہ اس میں سرکاری دفاتر قائم ہونگے، لیکن 1964ع میں یہ عمارت محمد علی جناح کے ممبئی کے گھر کے بدلے میں فاطمہ جناح کو دی گئی۔ شاید کلیم میں یہ عمارت بھی چلی گئی تھی۔

فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف انتخابات کے لیے موھاٹا پیلس کو ھیڈ کوارٹر بنایا تھا اور اس کا نام ”قصر فاطمہ“ جناح رکھا تھا. اسی عمارت میں فاطمہ جناح کی پراسرار طور پر موت واقع ہوئی تھی. اس موت کی کوئی انکوائری بھی نہیں ہوسکی.

فاطمہ جناح کی موت کے بعد جناح خاندان میں یہ ملکیت حاصل کرنے کے لیے جھگڑا شروع ہوا. بات کورٹ تک پہنچی، کورٹ نے محمد علی جناح کی بہن شیریں جناح کے حق میں فیصلہ دیا. وہ کچھ سال اس عمارت میں رہیں ، شیریں جناح کی وفات کے بعد دوبارہ جناح فیملی میں عمارت کے حصول کے لیے آپس میں جھگڑا ہوا اور معاملہ دوبارہ کورٹ میں پہنچ گیا، اس بار کورٹ نے عمارت سیل کرنے کے آرڈر دے دیا۔

بہت عرصے سیل ہونے کے بعد 1995ع میں سندھ حکومت نے یہ عمارت خرید لی اور یہاں پر میوزیم بنانے کا فیصلہ کیا. عمارت جو کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی تھی، اس کی دوبارہ مرمت کی گئی اور اسے اس کی اصلی حیثیت میں بحال کیا. موھاٹا پیلس ٹرسٹ نے اس کی ذمےداری لی۔

اس میں برٹش دور کے نوادرات، یادگار تصاویر ، سکّے اور نقشے رکھے گئے. فریئر ھال کے سامنے لگا ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ، کراچی میونسپلٹی کے دس سال منتخب صدر ھرچند وشنداس (کراچی، جو آج روشنیوں کا شہر ہے، یہ اسی کے مرہون منت ہے) کا کے ایم سی کے کباڑ خانے میں پڑا ہوا سر کٹا مجسمہ، شہر میں لگے باقی مجسمے جو ھمارے ایمان کے خطرے کے پیش نظر ہٹائے گے تھے اور مختلف جگہوں پڑے ہوئے تھے، وہ سب یہاں رکھے گئے.

1999ع میں یہ میوزیم عوام کے لیے کھولا گیا۔ ہم جیسے تاریخ کے طلباء کے لیے یہ سب کسی خزانے سے کم نہیں تھا۔

کچھ روز پہلے اچانک کورٹ کی طرف سے یہ فیصلہ آیا، کہ اس میوزیم کو فاطمہ جناح ڈینٹل کالج بنایا جائے اور اس کا نام موھاٹا پیلس سے تبدیل کرکے قصر فاطمہ جناح رکھا جائے۔

شاید موھاٹا نام سے ھمارے ایمان کو خطرہ لاحق ہے۔جس ہر پورے شہر اور صوبے میں شدید احتجاج سامنے آیا، کہ اس کو میوزیم رکھا جائے اور اس کا نام تبدیل نہ کیا جائے. چونکہ یہ سندھ حکومت کی ملکیت ہے، سندھ حکومت اور موھاٹا پیلس ٹرسٹ کو اس کی مالکی کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close