ایک امریکی ادارے نے بھارت کے 44 سرکاری اور نجی بینکوں کو مشکوک لین دین میں ملوث قرار دیا ہے، امریکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دو ہزار سے زائد ٹرانزیکشن کے ذریعے ایک ارب ڈالر سے زائد رقم غیرقانونی طریقے سے منتقل کی گئی
یہ لین دین منی لانڈرنگ ، دہشت گردی ، منشیات فروشی اور مالی دھوکہ دہی وغیرہ کے ضمن میں کی گئی ہے
انڈین میڈیا نے بھی امریکی ادارے کی اس رپورٹ کی تصدیق کی ہے۔ خود بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے اس حوالے سے خبر شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مالیاتی جرائم پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک نے بھارت کے 44 سرکاری اور نجی بینکوں کی دو ہزار سے زائد مشکوک ٹرانزیکشن کی نشاندہی کی ہے، جو کہ سال 2011ع سے 2017ع کے دوران کی گئیں۔ ان ٹرانزیکشن کے ذریعے ایک ارب ڈالر سے بھی زائد مالیت کی رقم کی منتقلی ہوئی
رپورٹ میں دی گئی تفصیلات کے مطابق بینکوں کی اس فہرست میں کئی سرکاری بینک بھی شامل ہیں. جن میں 290 ٹرانزیکشنز کے ساتھ سرفہرست پنجاب نیشنل بینک، 102 ٹرانزیکشن کے ساتھ اسٹیٹ بینک آف انڈیا، 93 ٹرانزکشن بینک آف بڑودا، 99 ٹرانزیکشن یونین بینک آف انڈیا اور 190 کنارا بینک بھی شامل ہیں
دلچسپ بات یہ ہے کہ سرکاری اور نجی بینکوں کے ساتھ ساتھ بھارت میں موجود غیرملکی بینکوں کی برانچز بھی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث نکلی ہیں، جنہیں فنڈز وصول کرنے یا بھیجنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ بھارت میں موجود ان غیرملکی بینکوں میں ڈچ بینک ٹرسٹ کمپنی امریکا، بی این وائی میلن، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ، جے پی مورگن اور دیگر بینکوں کی برانچ کے نام شامل ہیں
امریکن واچ ڈاگ کی اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ بینکنگ ریکارڈ سے معلوم ہوا ہے کہ بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے گیٹ وے کے ذریعے مشکوک لین دین کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ایک طرف بھارت میں قائم بینکوں کی برانچوں کو بیرون ممالک سے رقم بھارت آنے یا بھارت سے باہر بھیجنے کے لیے استعمال کیا گیا اور دوسری طرف ہندوستانی بینکوں کی دیگر ممالک میں قائم شاخیں بھی اس مشکوک لین دین میں شامل نکلیں جن میں کینیڈا میں موجود اسٹیٹ بینک آف انڈیا کا اکاؤنٹ اور برطانیہ میں موجود یونین بینک انڈیا کا اکاؤنٹ شامل ہیں۔