ایک تصویر ایک کہانی-21

تحریر: گل حسن کلمتی

گجھڑو ڈورو سے گجر نالہ تک کا سفر

تصویر میں جو نقشہ ہے، آج کی کہانی اس کے متعلق ہے، یہ نقشہ دیھ گُجھڑو(ڳُجھڙو) کا ہے، جو 1915ع میں انگریز دور میں بنایا گیا تھا۔

انگریز نے سندھ پر قبضے کے بعد زمین کے سروے کا کام 1896ع میں شروع کیا ، لیکن کراچی میں پلیگ کی بیماری کی وجہ سے کام ایک سال دیر سے شروع ہوا. انگریز نے کراچی شہری علائقہ جسے اولڈ کراچی کہا جاتا تھا، وہاں پر 1850ع کے بعد وارڈ بنائے تھے،1890ع میں 26 وارڈ تھے ، تقسیم کے وقت ان کی تعداد 46 تھی. انگریز دور میں یہ وارڈ یا میونسپلٹی کی حدود ایک طرف گزی بندر ،گورا قبرستان، ٹکری (جہاں اب جناح کا مزار ہے) ، لیاری ندی شیر شاہ تک تھے. باقی دیہی علاقے تھے، جو لوکل بورڈ کراچی میں تھے ، وہاں زمین کے سروے میں دیھ کا نام دیا گیا. دیھ روینیو کا سب سے چھوٹا یونٹ ہے. سندھ میں اسے دیھ، باقی صوبوں میں اسے موضع کہا جاتا ہے.

سروے کا یہ کام 1925ع کو مکمل ہوا. موجودہ کراچی کی حدود میں 92 دیھ ہیں ۔ ایک دیھ ایک ہزار ایکڑ سے لے کر پندرہ ہزار ایکڑ تک اور اس سے بھی زائد ایریا پر مشتمل ہے.

آج کل گجر نالہ کا نام آپ بہت سن رہے ہیں ، اصل میں یہ گُجھڑو (ڳُجھڙو ) ہے. یہ برساتی نالہ ہے، سندھی میں برساتی نالے کو ڈورو یا ڈوری کہتے ہیں، بڑے نالے کو نَئَیں کہتے ہیں. گجھڑو (ڳجھڙو) برساتی نالہ نیو کراچی اور سورجانی کے پہاڑوں سے بہہ کر آتا ہے. جب ان پہاڑوں پر بارش ہوتی تھی تو پہاڑ قریب ہونے کی وجہ سے اس میں پانی بہت جلدی اور چپکے سے آجاتا تھا، اس کے اس عمل کی وجہ سے، اس کے کنارے پر بسنے والے باسیوں نے اسے گجھڑو (ڳجھڙو) نام دیا ، یعنی گجھ میں یا چپکے سے آنا.

سروے کے بعد اس دیھ کو بھی اس برساتی نالے کے وجہ سے دیھ گجھڑو (ڳجھڙو) کا نام دیا گیا ، جو آج بھی ریوینیو ریکارڈ میں اسی نام سے موجود ہے۔ نقشے میں سرخ دائروں میں یہ نام دیکھا جا سکتا ہے۔

ضیاءالحق کے بلدیاتی نظام میں گجھڑو(گجھڙو ) یونین کونسل تھا، جو کچھ عرصے ٹاؤن کمیٹی بھی بنا. اس دور میں آہستہ آہستہ یہ نام گجھڑو (ڳجھڙو) سے گُجرو ہوا۔ آج بھی یونین کونسل کے پرانے ریکارڈ میں گجھڑو (ڳجھڙو) اور گُجرو دونوں نام موجود ہیں۔ یہ یونین کونسل سہراب خان گبول گوٹھ سے کراچی یونیورسٹی سے آگے تک تھا. بہار علی گبول اس کے چیئرمین رہے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں گڈاپ ٹاؤن کے سہراب گوٹھ ،معمار آباد کے علاقوں پر مشتمل یونین کونسل گجھڑو (ڳجھڙو) تھا، جو گجرو مشہورِ ہوا. لیکن ریکارڈ میں گجھڑو (ڳجھڙو ) تھا. پرويز مشرف کے بلدیاتی نظام میں اس دیھ کا دس فیصد حصہ گڈاپ ٹاؤن میں، پچپن فیصد حصہ گلشن اقبال ٹاؤن میں، بیس فیصد حصہ گلبرک ٹاؤن میں اور پندرہ فیصد حصہ لیاقت آباد ٹاؤن میں تھا.موجودہ صورتحال میں اس کی حدود سہراب گوٹھ سے پیالہ ہوٹل، دوسری جانب نصرت بھٹو کالونی،ناظم آباد، پرانی سبزی منڈی، منو گوٹھ، عیسٰی نگری، گیلانی ریلوے اسٹیشن، گلشن چورنگی، بھانگریا گوٹھ، سندھی ھوٹل، عائشہ منزل، انچولی، گبول ٹاؤن، واٹر پمپ، اسکیم 16، اسکیم 24 ، پاک پی ڈبلیو ڈی کوارٹرز ، کراچی یونیورسٹی، این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی اس دیھ میں ہیں۔

گجھڑو (ڳجھڙو) سے گجرو بننے کا یہ سفر مصطفیٰ کمال کے دور میں، جب وہ سٹی ناظم تھے، شروع ہوا۔ مصطفیٰ کمال اور اس کی ٹیم نے گجھڑو (گجھڙو) نالہ کو گُجر نالہ مشہور کیا.

یہ تاریخ کے ساتھ زیادتی ہے، کیونکہ کچھ عرصہ پہلے ایک صاحب نے ملک کے بڑے اخبار میں اس پر مضمون لکھا کہ ”گُجر قوم یہاں رہتی تھی، اس لیے اس کا نام گُجر نالہ پڑا“

سندھی نسل کے راجپوت گجر آج بھی لسبیلہ بلوچستان میں بڑی اکثریت میں رہتے ہیں. لسبیلہ میں گجروں کی حکومت بھی رہی ہے. کراچی میں لسبیلہ چوک کے ساتھ بارن گوٹھ بھی سندھی راجپوت گجروں کا گوٹھ ہے سندھی فلموں کے مشہور ہیرو وسیم راجا کا تعلق بھی اسی گوٹھ سے ہے۔ لیکن گجھڑو نالہ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے. 1915ع کے نقشے میں واضح طور پر ڳجھڙو ڍورو (گجھڑو نالہ) لکھا ہوا ہے، آج بھی مقامی لوگ اسے گجھڑو کہتے ہیں۔

میں نے تصحیح کے لیے مذکورہ اخبار کو ثبوتوں کے ساتھ جواب لکھا ، لیکن وہ شایع نہیں کیا گیا۔ اگر غلط نام مشہور کیے جائیں، تو آنے والے مورخ اسے اپنے سوچ اور سمجھ کے مطابق لکھنے کی کوشش کرے گا. یہ اتنی پرانی بات بھی نہیں ہے کہ اس پر کسی تحقیق کی ضرورت ہو، بس نام درست کرنے کی ضرورت ہے، جو اگر ہم چاہیں تو کر سکتے ہیں، لیکن اگر جان بوجھ کر یہاں کی تاریخ کو مٹانا ہے، تو پھر اس طرح بہت سے گجھڑو، گجر بنائے جا سکتے ہیں

آئیں، ھم اس شہر کے باسی عہد کریں، جو نام غلط کیے گئے ہیں ، یا بے خبری اور لاعلمی میں ان کو بگاڑا گیا ہے، ان کو درست لکھیں، درست پڑھیں ، تاکہ آنے والے مورخ کے لیے کوئی پریشانی نہ ہو.
ایسے بہت سے نام ہیں. وقتاً فوقتاً ان پر لکھنے کی کوشش کروں گا، جسے کیاماڑی کو ہم نے کیماڑی کردیا، سورجانی کو سرجانی، تائیسر کو تیسر ، وٹیجی کو وتاجی، دَمبا گوٹھ کو دُنبہ گوٹھ ، نئی سبزی منڈی کے پیچھے جُھونجھار بروھی گوٹھ کو جنجال گوٹھ کردیا.. جو نام تبدیل کیے گئے وہ ان کے علاوہ ہیں، یہ وہ ہیں جو بگاڑے گئے ہیں۔

نوٹ: کراچی کے 92 دیھوں کے بارے میں مکمل تفصیلات گل حسن کلمتی کی کراچی کے تاریخ پر لکھی گئی کتاب ”کراچی، سندھ جی مارئی“ میں موجود ہیں ،جس کا اردو ترجمہ بہت جلد مارکیٹ میں دستیاب ہوگا.
گل حسن کلمتی مزید بلاگز


 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close