جلد یا بدیر ایسا ہو کر رہے گا…!
مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ کسی روز اچانک مجھ تک پہنچ جائیں گے اور مجھے سولی پر چڑھا دیں گے.. میں ذہنی طور پر اس انجام کے لیے تیار ہوں۔ بس کچھ شکوک و شبہات ہیں، جن سے چھٹکارا پانا چاہتا ہوں۔ میں یہ یقین حاصل کرنا چاہتا ہوں کہ میں کسی جادو وغیرہ کے زیرِ اثر تو نہیں.. یا میرے دماغ میں کوئی خلل تو واقع نہیں ہوا..؟ کیونکہ دو میں سے ایک بات ہی درست ہو سکتی ہے.. یا تو اس دوپہر وہ واقعہ حقیقتاً پیش آیا تھا… یا پھر میری ذہنی حالت مشکوک ہے.. مجھے فوراً اپنے دماغ کا معائنہ کرانا چاہیے!
جو بھی صورت ہو، اب یہ واقعہ زیادہ دیر تک چھپائے پھرنا میرے لیے مشکل ہوتا جارہا ہے… مصیبت یہ ہے کہ یہ بات میں جسے بھی بتاؤں گا، وہ بالکل یقین نہیں کرے گا.. اور تو اور، مجھے اپنی بیوی تک سے اسی ردعمل کی توقع ہے کہ وہ میری دماغی کیفیت پر شبہ کرے گی!
بہت سوچ بچار کے بعد میں نے اپنی بھڑاس نکالنے کی یہی راہ نکالی ہے کہ واقعہ جوں کا توں لکھ دوں.. اب یہ پڑھنے والوں پر ہے کہ وہ اس پر یقین کریں یا نہ کریں، کم سے کم.. میرے ذہن سے تو بوجھ اتر جائے گا.
جولائی کی اس گرم دوپہر، میں گھر جانے کے لیے دفتر سے جلد نکل گیا. راستے میں پیاس سے بےتاب ہو کر میں نے کولڈ کارنر سے ٹھنڈا مشروب پیا۔ اسی دوران میری نظر سامنے واقع آرٹ گیلری پر پڑی۔ وہاں ایک بینر لگا تھا، جس پر کسی غیر معروف آرٹسٹ کی پینٹنگز کی نمائش کا اعلان درج تھا۔ جھلسا دینے والی گرمی سے تھوڑی دیر نجات حاصل کرنے کے لیے میں نے کچھ وقت آرٹ گیلری کے ٹھنڈے اور فرحت بخش ماحول میں گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ گرمی سے قطع نظر، میں فنون لطیفہ کا قدر دان بھی ہوں اور تصویروں کی نمائش تو بطور خاص دیکھتا ہوں.
گیلری میں حسبِ توقع کوئی نہ تھا۔ ایک غیرمعروف مصور کے لیے اپنے گھر یا دفتر کی ٹھنڈی چھاؤں چھوڑ کر کون اس گرمی میں آرٹ گیلری کا رخ کرتا۔ میں اطمینان اور تفصیل سے باری باری ہر تصویر کا معائنہ کرتا آگے بڑھتا رہا۔ تب ایک ستون کے پیچھے سے اچانک ہی وہ شخص نکل کر میرے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس کے حلیے میں ایک عجیب بات تھی، جو دیکھنے والے کو دوبارہ اس کی طرف دیکھنے پر مجبور کرتی۔ اس بلا کی گرمی میں بھی وہ گرم کپڑے پہنے ہوا تھا۔ اور یہی نہیں، اس نے اوپر سے برساتی بھی چڑھائی ہوئی تھی، حالانکہ اس وقت بارش کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا، اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی سی تھی.
میں نے اخلاقی طور پر مسکرا کر اس کی طرف دیکھا، پھر یونہی بات چھیڑنے کے لیے کہا: ”باہر کے مقابلے میں اندر کتنا سکون ہے۔ اتنا کہ سردی محسوس ہو رہی ہے“
میں نے لطیف پیرائے میں یقیناً اس کے لباس کا مذاق اڑایا تھا۔ اس نے نظر اٹھا کر میری طرف دیکھا… اور میں کیا بتاؤں کہ اس کے دیکھنے سے مجھے کیسا لگا! بےاختیار میرے ذہن میں یہ خیال ابھرا کہ کاش میں نے کچھ نہ کہا ہوتا. اس کی نظروں میں غصہ یا ناپسندیدگی نہیں تھی۔ بس مجھے شدت سے اپنے بےوقوف اور احمق ہونے کا احساس ہو رہا تھا.
”تو تم اسی لیے اندر آئے ہو کہ یہاں ٹھنڈک کا احساس ہوگا..؟“ بالآخر اس نے کہا.
”ہاں، بات تو یہی ہے، مگر مجھے تصویروں سے بھی دلچسپی ہے.. اب یہ مت سمجھ لینا کہ میں کوئی آرٹسٹ وغیرہ ہوں“ آخری جملہ میں نے اسے ہنسانے اور اپنی خجالت مٹانے کے لیے کہا تھا۔ وہ ہنسا تو نہیں، لیکن اس کا جواب سن کر میری خجالت میں مزید ضرور اضافہ ہوا ”مم… مگر میرا ایک سالا بہت اچھا آرٹسٹ ہے۔ اس کی ایک شاہ کار پینٹنگ ہم نے اپنے ڈرائنگ روم میں لگائی ہوئی ہے“
”عنوان کیا ہے اس کا…؟“ میری بات کاٹ کر اس نے تمسخرانہ انداز میں کہا: ”غروبِ آفتاب کامنظر…؟“
”ہاں، ہاں!“ اس کے درست اندازے نے غصے میں بدلتی میری خجالت کو حیرانی میں بدل دیا ”لیکن تمہیں یہ کیسے پتا….!؟“ میں نے بےیقینی سے پوچھا
”عامیانہ آرٹسٹ ایسے ہی نام رکھتے ہیں، اپنی ”شاہکار“ تصویروں کے!“ اس نے لفظ شاہکار پر بالخصوص زور دے کر، طنزیہ انداز میں کہا، اس کے ہونٹ عجیب انداز میں پھیل گئے۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ مسکرایا تھا.
اس کے بعد اس نے فنِ مصوری، تصویروں اور مصوروں پر ایسی پر مغز اور سیر حاصل گفتگو کی کہ میرے دماغ کی نازک رگیں تک جھنجنا اٹھیں۔ مصوری اور مصوروں کے حوالے سے اس کے نازک اور باریک انکشافات سے کئی مصوروں کے لیے میری پسندیدگی، ناپسندیدگی میں… بلکہ بغض میں بدل گئی۔ اس کی سحر انگیز تقریر کے اختتام تک میں اس سے مرعوب ہوچکا تھا۔ آرٹ کے اس عظیم نقاد نے اپنا نام گرفتھ بتایا تھا ”تم تصویروں میں کیا دیکھتے ہو…؟“ اس نے اچانک مجھ سے سوال کیا
”مم… میں سب سے پہلے تو یہ دیکھتا ہوں کہ بنایا کیا گیا ہے۔“ میں اس کے اچانک اور عجیب سوال کا جواب دیتے ہوئے ہکلا گیا. ”مثلاً…. یہ تصویر ہے…“ میں نے قریبی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”اس تصویر کو میں نے تمام دوسری تصویروں کے مقابلے میں زیادہ توجہ سے اور دیر تک دیکھا ہے.. اس میں مختلف رنگ کے پھولوں سے سجا گلدان پینٹ کیا گیا ہے اور چونکہ پھول مجھے بےحد پسند ہیں تو….“
”بس! یہ دیکھتے ہو تم….؟“ میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ پوچھ بیٹھا
میں چکرا کر رہ گیا ”ہاں… مم… میرا خیال ہے، تصویر میں یہی کچھ ہے.. خوبصورت گلدان اور بس“
”تمہیں یہی نظر آرہا ہوگا… اس لیے تم نے یہی دیکھا“ اس نے گہری سنجیدگی سے کہا: ”گویا تم اب تک تصویریں دیکھنے کے حقیقی لطف سے محروم ہو۔ تمہاری ذہنی سطح اتنی نہیں کہ تم تصویروں کی حقیقت جان سکو. ایک ایک تصویر کے آگے ٹھہرنا اس پر نظر ڈالنا اور آگے بڑھ جانا… تم اسے تصویریں دیکھنا سمجھتے ہو… اب اس تصویر کو ہی لے لو..“ اس نے ایک پینٹنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”اس میں تمہیں کیا نظر آتا ہے؟“
اس کی تحقیر آمیز گفتگو، مضحکہ اڑانے والا رویہ اور بد لحاظی مجھے سخت گراں گزر رہی تھی۔ پھر بھی میں نے تحمل سے کام لیتے ہوئے اس کی بات کا جواب دیا: ”اس تصویر میں درخت کا ایک تنا نظر آ رہا ہے اور درختوں کے درمیان ایک بڑا سا مکان بنا ہوا ہے.. اگر تمہیں اس کے علاوہ بھی کچھ دکھائی دے رہا ہے، تو یہ تمہاری آنکھوں کا قصور ہے“ میں اپنی تلخی چھپا نہ سکا
میرا آخری جملہ اسے یقینی طور پر بہت برا لگا تھا۔ اس بات کا اظہار اس کے چہرے سے ہو رہا تھا۔ وہ ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گیا ”بات وہی ہے، جو میں ہمیشہ کہتا آیا ہوں“ اس نے پھر زہر افشانی کی ”کوئی بھی عام آدمی اپنی معمولی ذہنی سطح سے بڑھ کر بلند خیالی اور خوش ذوقی کا مظاہرہ کیسے کرسکتا ہے!؟“
اس کے اس بےرحمانہ تبصرے نے تو جیسے میرے تن بدن میں آگ لگا دی ”تم کہنا کیا چاہتے ہو…؟ تمہارا مطلب ہے کہ اس تصویر میں تمہیں اس کے علاوہ بھی کچھ نظر آرہا ہے، جو مجھ اندھے کو دکھائی نہیں دے رہا….؟“ میں نے بپھرے ہوئے انداز میں کہا
اس نے صدمے کی سی کیفیت میں مجھے دیکھا، افسردگی سے سر ہلایا پھر اچانک ہی ہنس پڑا ”ناراض مت ہو، دوست“ ہنسی رکی تو وہ بولا ”میں تصویروں کا باسی ہوں، تصویروں میں رہتا ہوں.. پھولوں کی جس تصویر کی تم تعریف کر رہے ہو، تم نے اسے صرف دیکھا ہے، جبکہ میں ان پھولوں کو چھو بھی سکتا ہوں اور سونگھ بھی سکتا ہوں..“
”کیا….!؟“ میں نے بے یقینی سے کہا اور اس کے چہرے کا جائزہ لیا جہاں مکمل سنجیدگی تھی، مذاق کا شائبہ تک نہ تھا۔
”ہاں.. اور یہی نہیں.. میں اس دوسری تصویر میں درختوں کے درمیان بنے مکان تک بھی جا چکا ہوں اور کھڑکی سے اندر جھانک کر آیا ہوں“
وہ اپنی ہی ہانکے جارہا تھا
مجھے یقین ہوچکا تھا کہ وہ دماغی طور پر کچھ کھسکا ہوا ہے۔ اب میں کسی بہانے اس سے چھٹکارا پانے کا سوچنے لگا. اسے شاید یہ اندازہ ہوگیا۔ میرے ارادے کا ہی نہیں، میرے تاثرات کا بھی۔ اس نے میری کلائی تھام لی اور بولا ”تمہیں میری باتوں پر یقین نہیں آرہا نا…؟“
میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر سی دوڑ گئی۔ اب مجھے اس سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ ہم دونوں کے سوا گیلری میں اب تک کوئی بھی نظر نہیں آیا تھا
”نہیں نہیں! مجھے یقین ہے“ میں نے اسے خوش کرنے کے لیے کہا۔ ”بس ذرا حیرانی کی بات ہے.. مگر تم کہہ رہے ہو، تو یونہی نہیں کہہ رہے ہوگے….“
”حیرانی کی کیا بات ہے اس میں!“ وہ ہذیانی انداز میں چیخ پڑا۔ ”تمہیں اس بات پر یقین کیوں نہیں آتا کہ میں تصویروں کے اندر جاسکتا ہوں۔“
مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ بس اس کا منہ حیرانی سے تکتا رہا۔ اس نے شدید برہمی کے عالم میں میرا بازو پکڑا اور ایک جھٹکے سے کھینچ کر مجھے ایک تصویر کے سامنے لے جا کھڑا کیا۔ گرفتھ کی آنکھیں جیسے چنگاریاں برسا رہی تھیں ۔ ایک لمحے کو مڑ کر اس نے داخلی دروازے کی سمت دیکھا، پھر رازدارانہ انداز میں مجھ سے سرگوشی کی۔ ”یہ تصویر دیکھ رہے ہو….؟“
میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ بولا ”غور سے سنو.. اس تصویر کا عنوان ہے…. پھانسی گھاٹ! یہ پینٹنگ آرٹ گیلری کی سجاوٹ کا مستقل حصہ ہے، اس کا نمائش سے کوئی تعلق نہیں۔“
میں نے تفہیمی انداز میں سر ہلانے پر اکتفا کیا
”اب اگر تم چاہو تو میں تمہیں بھی اس منظر میں لے جا سکتا ہوں۔“
مجھے اس کی سرسراتی ہوئی آواز سنائی دی۔ میں کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں، حیرت اور بےیقینی سے اسے دیکھتا رہ گیا۔ مجھے احساس ہوا کہ حیرت کی زیادتی سے میرا منہ بھی بےاختیار کھلا ہوا تھا۔
”یوں بےوقوفوں کی طرح مت دیکھو۔ جلدی بتاؤ، اس وقت یہاں کوئی نہیں ہے۔ تمہیں میرے ساتھ اس منظر میں چلنا ہے تو یہ اچھا موقع ہے۔“
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دوں۔ اس جگہ سے، اس شخص سے چھٹکارا پانا اس وقت میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش بن گئی تھی۔ اس نے جیسے میری سوچ پڑھ لی۔ میرے بازو پر اس کی گرفت مزید سخت ہو گئی۔ آخرکار میں نے فیصلہ کرلیا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچانا چاہیے۔ یہ سوچ کر میں نے کہا ”ٹھیک ہے، میں تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔“
یہ سننا تھا کہ اس کے چہرے پر آسودہ سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ ”یہ ہوئی نا بات! اب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ میں سچ کہہ رہا ہوں یا جھوٹ… یہ کرسی تصویر کے سامنے لے آؤ اور اس پر بالکل آرام دہ حالت میں بیٹھ جاؤ۔“ اس نے قریب پڑی کرسی کی طرف اشارہ کرکے کہا ”تصویر کو دیکھتے رہو اور اپنے جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دو۔“
میں اس کی ہدایات پر عمل کرتا رہا۔ مجھے کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ گرفتھ مجھ سے دھیمی مگر بھاری آواز میں مختلف سوالات کرتا رہا۔
”تمہیں تصویر میں کیا نظر آرہا ہے….؟“
”مجھے لکڑی کے دو…. نہیں تین چوکھٹے نظر آرہے ہیں۔ ارے ! یہ تو پھانسی گھاٹ ہے۔“
”یہ دن کا کون سا وقت ہے….؟“
”جھٹپٹے کا وقت معلوم ہوتا ہے.. ہاں…. اور …. یہ سردیوں کی شام ہے۔“
”کیا تمہیں سب کچھ واضح نظر آرہا ہے..؟” گرفتھ کی بوجھل آواز مجھے کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہونے لگی تھی۔ ‘‘کچھ فاصلے پر بنا قید خانہ نظر آرہا ہے تمہیں؟“
”آں…. یہ سرمئی سی عمارت….؟ مگر یہ کچھ دھندلاتا جارہا ہے۔ روشنی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ شاید رات ہوتی جارہی ہے۔“
”آؤ، اب میرے ساتھ پھانسی گھاٹ کی طرف چلو۔“
….اور میں واقعی وہاں موجود تھا۔ صرف میں ہی نہیں، گرفتھ بھی میرے ساتھ تھا! میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا کہ اس وقت میں کیا محسوس کر رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہوں اور کسی بھی لمحے چیخ مار کر اٹھ بیٹھوں گا۔ مجھے صرف اتنا احساس تھا کہ وہاں پہنچنے سے پہلے کافی دیر اور دور تک میں کہنیوں کے بل رینگتا رہا ہوں۔ میرا سانس بےتحاشہ پھولا ہوا تھا۔ گرفتھ کا حال بھی مجھ سے مختلف نہیں تھا۔
”تم ٹھیک تو ہو…؟“ گرفتھ نے مجھ سے سرگوشی میں پوچھا۔
میں نے اس کی بات کا جواب دینے کی کوشش کی مگر میرے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔ میں تھر تھر کانپ رہا تھا اور بےیقینی سے زمین کے اس چھوٹے غار نما سوراخ کو دیکھ رہا تھا، جس سے رینگ کر ہم باہر آئے تھے۔
”میرا خیال ہے، ہمیں فوراً واپس چلنا چاہیے“ میں نے مضبوطی سے گرفتھ کا بازو تھام کر ادھر ادھر کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ”میں سمجھ رہا تھا کہ تم یونہی مذاق کر رہے ہو۔ مجھے یقین آگیا، تم ٹھیک کہہ رہے تھے۔ بس بہت ہوگیا یہ پاگل پن.. فوراً واپس چلو۔“ میں اس وقت جتنا خوفزدہ تھا، زندگی میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
”خاموش ہوجاؤ!“ میرے شانے پکڑ کر گرفتھ نے مجھے بری طرح جھجھوڑ کر کہا۔ اس کا جھجھوڑنا جیسے مجھے ہوش میں لے آیا اور میں خود کو خاصا پرسکون محسوس کرنے لگا۔ ”ہم جب چاہیں گے، اس سوراخ سے واپس چلے جائیں گے۔“ اس نے سوراخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے گویا مجھے تسلی دی۔ اس بار اس کا لہجہ نرم تھا۔ ”ہر تصویر میں، ہر منظر میں اس قسم کا کوئی نہ کوئی سوراخ، کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ہوا کرتا ہے… جہاں سے تصویر میں داخل ہوا جاسکے۔ بہرحال فکر نہ کرو.. میرے ساتھ آؤ… ہم بالکل محفوظ ہیں۔“
اس کے لہجے میں بےنام سا تحکم تھا اور اس کی آنکھیں…. خدا کی پناہ! عجیب کشش تھی، ان میں لگتا تھا، میرے آر پار دیکھ رہی ہیں۔ میں خود کو اس کی ہر بات کی تعمیل کرنے پر مجبور پا رہا تھا۔ اس کے اشارہ کرنے پر میں اس کے پیچھے ہولیا۔
”تمہیں میری بات پر پوری طرح یقین آگیا نا، کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا تھا…؟“ چلتے چلتے اس نے پوچھا۔
”ہاں“میں نے جواب دیا ”ہو سکتا ہے کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں… مگر تم نے جو کچھ کہا، وہ کر دکھایا۔“
”خواب!“ وہ مربیانہ انداز میں ہنسا اور ہاتھ میں پکڑی چھڑی سے قریبی درخت کے تنے پر ضرب لگائی۔.”یہ درخت، یہ ماحول…. انہیں چھوؤ، محسوس کرو اور مجھے بتاؤ کہ کیا خواب ایسا ہوتا ہے…. اتناحقیقی….؟”
میں نے ایک بار پھر اردگرد کا جائزہ لیا اور اس سے پوچھا: ”تم یہاں پہلے بھی آچکے ہو….؟“
”یہ میرا تیسرا چکر ہے“ اس نے جواب دیا۔ ہم بدستور چل رہے تھے ”اس پینٹنگ نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ یہ اذیت کے اظہار کا بےمثال شاہکار ہے۔“
”ہاں واقعی، یہ عجیب سی پینٹنگ ہے“ میں نے اپنی دانست میں اس کی تائید کی تھی، مگر وہ تو جیسے پھاڑ کھانے والے لہجے میں مجھ پر پھٹ پڑا
”کیا کہا….؟ عجیب سی! اس پینٹنگ کا خالق، خوف اور اذیت پینٹ کرنے میں اپنی مثال آپ تھا…. ایک ایسا فنکار جو انسانی زندگی کے تمام آلام و مصائب کو اپنے برش کی ایک ہی جنبش سے، ایک ہی کینوس پر ابھار سکتا تھا۔“
”یہ تصویر اس نے کتنے سال پہلے بنائی ہوگی..؟” میں نے بس کچھ نہ کچھ بولنے کی خاطر یہ سوال کیا تھا
”1803ع میں!“
اس دوران میں ہم پھانسی کے پھندوں کے قریب پہنچ چکے تھے۔ میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ”تت…. تمہارا مطلب ہے کہ اس وقت ہم 1803ع میں….“
”بالکل“ اس نے میرا جملہ مکمل ہونے سے پہلے جواب دے دیا ”جب ہم کسی منظر میں داخل ہورہے ہوتے ہیں تو دراصل، اس دور اور اس وقت میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں، جس دور کی عکاسی تصویر میں کی گئی ہوتی ہے۔“
اس کا انکشاف سنتے ہی میری ٹانگوں سے گویا جان نکل گئی اور انہوں نے میرا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا۔ ٹانگوں کی لرزش پر قابو پانے کے لیے میں جلدی سے قریب ہی پڑے درخت کے تنے پر بیٹھ گیا۔ گرفتھ نہایت اطمینان سے پھانسی کے پھندوں کے درمیان، ٹہل رہا تھس اور اپنی چھڑی سے پھندوں کو جھلا رہا تھا۔
”ان پھندوں سے کسی کو کبھی پھانسی دی بھی گئی ہے….؟“
”ہاں، بےشمار مجرموں کو.. وہ مجرم، جو اس قیدخانے سے فرار ہونے کی کوشش کرتے تھے“ اس نے چھڑی کی مدد سے دور نظر آنے والی عمارت کے ہیولے کی طرف اشارہ کیا جو اس کے کہنے کے مطابق قید خانہ تھا۔ ”اردگرد کا علاقہ بھاگنے والوں کے لیے اچھی پناہ گاہ ثابت ہوتا تھا۔ وہ کچھ وقت یہاں روپوش رہ کر گزارتے۔ اس دوران قریبی آبادی کے لوگ یا گزرنے والا کوئی مسافر ان کے ہتھے چڑھ جاتا تو وہ اسے لُوٹ کر قتل کر دیتے“
”تو یہاں ان لوگوں کو پھانسی….“
”ششش!“ میری بات ادھوری رہ گئی۔ اس نے مجھے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور خود جیسے کچھ سننے کی کوشش کرنے لگا۔ میں نے بھی اپنی سماعت پر زور دیا اور تب میری رہی سہی طاقت بھی جواب دے گئی۔ مجھے بھی کچھ آدمیوں کے آپس میں باتیں کرنے کی آوازیں واضح طور پر سنائی دی تھیں۔
”چلو، جلدی کرو!“ گرفتھ نے تشویش زدہ لیکن دبی دبی آواز میں کہا۔ ”ہم ان سے جتنا دور رہیں، اتنا ہی اچھا ہے“
میں جلدی سے تنے سے اترا اور جیسے تیسے اپنی بےجان ٹانگوں کو گھسیٹتے ہوئے اسی طرف بڑھنے لگا جدھر سے ہم لوگ آئے تھے۔
”اُدھر نہیں….اِدھر!“ گرفتھ کی نیچی مگر کرخت آواز آئی ”اس وقت ان لوگوں کا رخ اسی سوراخ کی طرف ہے، جس سے ہم لوگ آئے ہیں“
میں پلٹا اور اس کی تقلید میں، اس کے برابر گھاس پر لیٹ گیا۔ خوف سے میری حالت بری ہو رہی تھی اور میں اس گھڑی کو کوس رہا تھا، جب میں نے اس کے ساتھ تصویر میں آنے کی حامی بھری تھی۔ ”یہ کون لوگ ہیں….؟“ میں کوشش کے باوجود آواز کی لرزش پر قابو نہ رکھ سکا۔
شاید میری کیفیت کے پیش نظر اس نے نرمی سے جواب دیا۔ ”اپنی آوازوں سے تو یہ مفرور مجرم ہی معلوم ہوتے ہیں۔ شش…. سنو! یہ لوگ کچھ کہہ رہے ہیں۔“
آنے والوں میں سے ایک کی آواز آئی۔ ”آوازیں تو یہیں سے سنائی دی تھیں۔“
”تمہارے کان بجے ہوں گے۔ یہاں تو کوئی نہیں۔ اپنے کانوں کا علاج کراؤ۔’’ دوسری آوازسنائی دی۔
”میں تمہارا سر توڑ دوں گا اگر تم نے آئندہ مجھ سے اس طرح بات کی!“ پہلے والے کی آواز سن کر اندازہ ہوتا تھا کہ اس کے تیور نہایت خراب ہیں ”میں نے خود ان کی آوازیں سنی ہیں۔ وہ شاید دو افراد ہیں۔“
”اگر ہم ان کے ہتھے چڑھ گئے تو موت یقینی سمجھو“ گرفتھ نے سرگوشی میں تشویش کا اظہار کیا ”جب میں کہوں تو فوراً بھاگ لینا“
”تمہیں وہ جگہ تو یاد ہے نا… جہاں سوراخ ہے…؟“ میں نے تشویش ناک لہجے میں پوچھا۔
اس کے اثبات میں سر ہلانے سے مجھے خاصا حوصلہ ہوا۔ میں نے اس پر نظریں جما دیں۔ میری کوشش تھی کہ پلکیں بھی نہ جھپکیں، مبادا اس مختصر سے عرصے میں وہ بھاگنا شروع کردے اور میں وہیں رہ جاؤں
”بھاگو!“ اچانک آواز آئی
میں نے بےتحاشہ گرفتھ کے تعاقب میں بھاگنا شروع کر دیا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ہم کس سمت میں دوڑ رہے ہیں۔ میں بس اس پر نظریں جمائے اندھا دھند بھاگے چلا جا رہا تھا۔ اس وقت مجھے جیسے بجلی کا شدید جھٹکا سا لگا، جب ان میں سے ایک کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ وہ چیخ رہا تھا ”یہ رہے وہ لوگ…. یہ رہے!“ یہ آواز وہی تھی جس نے پہلے ہماری آوازیں سننے کا دعویٰ کیا تھا۔ ”رک جاؤ! تم لوگ بچ کر نہیں جاسکتے۔“ دوسرے نے للکارا
مجھے یاد نہیں کہ میں کب تک بھاگتا رہا۔ جھاڑیوں کو پھلانگتا، درختوں کے درمیان بس گرفتھ کی اندھا دھند تقلید کرتا رہا۔ ایک مقام پر پہنچ کر گرفتھ دیوانہ وار زمین پر ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگا۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ سوراخ کی جگہ بھول گیا ہے اور اسی کو تلاش کر رہا ہے
”مِلا….؟“ قریب پہنچ کر میں نے بےقراری سے پوچھا
”پتا نہیں کہا چلا گیا! نہیں مل رہا۔“ اس کی آواز سے اس کے شدید ذہنی کرب کا اندازہ ہورہا تھا
دہشت کی وجہ سے میرے پیٹ میں گرہیں سی پڑنے لگیں ”کہاں چلا گیا….؟“ میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بےبسی سے منمنایا
تعاقب کرنے والوں کے دوڑتے قدموں کی آوازیں واضح سنائی دے رہی تھیں، جو لمحہ بہ لمحہ قریب آرہی تھیں.. اسی وقت غیرارادی طور پر میری نگاہ ایک سمت اٹھ گئی اور میں خوشی سے اچھل پڑا…
”مل گیا…. مل گیا!“ میں نے فرط مسرت سے چلاتے ہوئے گڑھے کی طرف چھلانگ لگا دی ”جلدی کرو، ادھر آؤ…“ میں مسلسل چیخ رہا تھا۔ اس دوران گڑھے تک پہنچ کر میں نے اپنا سر اور کندھے، اس چھوٹے غار نما سوراخ میں داخل کردیے تھے ”مجھے اپنی لکڑی پکڑاؤ…. میں تمہیں کھینچ لوں گا۔“ میں موت سے بھاگنے اور زندگی تک پہنچنے کی جنونی کوشش کرتے ہوئے اسے کہہ رہا تھا…
یہ کوشش کتنی طویل اور کٹھن تھی اور بعد میں کیا ہوا، مجھے کچھ پتا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ میں بےہوش ہوگیا تھا۔ حواس بحال ہونے پر میں نے سب سے پہلے جو کچھ دیکھا، وہ میرے گرد آلودہ کپڑے تھے۔ میرے کپڑوں سے جھڑی کچھ مٹی آرٹ گیلری کے فرش پر بھی پڑی تھی۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا، گرفتھ نظر نہ آیا۔ میں بمشکل وہاں سے اٹھا اور پینٹنگ کو قریب سے دیکھنے لگا، جو کچھ میرے مشاہدے میں آیا، اس نے میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی کی لہر دوڑا دی…. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں نے پہلے وہ پینٹنگ دیکھی تھی تو پھانسی کے تمام پھندے خالی تھے، مگر اب تیسرے پھندے میں ایک لاش لٹک رہی تھی… میں نے اور قریب سے بغور اس لاش کا معائنہ کیا، تو میرے بدترین اندیشوں کی تصدیق ہوگئی… وہ گرفتھ تھا!!!
میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کسی کو قائل نہیں کرسکتا کہ یہ عالم جنوں ہے یا ہوش مندی۔ اسے ہوش و حواس کے عالم میں پیش آنے والا واقعہ ثابت کرنے کے لیے میرے پاس صرف ایک ثبوت ہے…. خود مجھے بھی اس ثبوت کی بدولت ہی یقین آتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ خواب نہیں، حقیقتاً ہوا ہے… وہ ثبوت ہے گرفتھ کی چھڑی…. جو حقیقتاً اس نے سوراخ میں میری طرف بڑھائی ہوگی کہ میں اسے کھینچ لوں!
معروف کہانی نویس روڈرک وِل کنسن Roderick Wilkinson اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں 1917ع میں پیدا ہوا۔ ، جو اپنی کہانیوں اور سیاحتی تحریروں کی وجہ سے جانا جاتا ہے.
روڈرک وِل کنسن نے اپنے ادبی کیرئیر کی شروعات تھرلر، سسپنس اور ڈراونی کہانیاں لکھنے سے کی. 1947ء تا 1960ء کی دہائی تک وہ بی بی سی اسکاٹ لینڈ ریڈیو میں بطور اسکرپٹ رائٹر خدمات انجام دیتا رہا ۔ اس کی کئی فکشن کہانیاں 1950ع کی دہائی میں مشہور سسپنس اور مسٹری میگزین میں شایع ہوئیں، انہوں نے کئی ناول بھی لکھے۔ 1960ع کی دہائی میں انہوں نے اسکاٹ لینڈ کی سیاحت اور فشنگ کے موضوعات پر بھی کتابیں لکھیں۔ ان کی کتابوں میں، Murder Belongs To Me، The pressure men ، Everything Goes Dead،The Big Still، Memories of Maryhill، Fishing the Scottish Islands اور Fishing Stories شامل ہیں۔ ان کی کہانیوں پر ٹی وی ڈرامے اور فلمیں بھی بنائی گئیں جن میں Que voyez-vous Miss Ellis? (What do you see Miss Ellis?) اور The Colonel قابلِ ذکر ہیں۔ یہ کہانی، روڈرک وِل کنسن کی لکھی کہانی In The Picture کا ترجمہ ہے جو 1952ع میں بی بی سی ریڈیو سے نشر کی گئی۔ اس کہانی کو 1955ع میں ایک ہالی ووڈ فلم Three Cases of Murder میں بھی شامل کیا گیا.