میلبورن : عراقی نژاد آسٹریلوی شہری حسام صراف نے ذاتی باغیچے میں ایک ہی پودے پر پانچ مختلف اقسام کے پھل اگا کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے
حال ہی میں گنیز ورلڈ ریکارڈ نے بھی حسام صراف کے اس کارنامے کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی ریکارڈ بک کا حصہ بنا لیا ہے
گارجیئن آسٹریلیا کے مطابق، حسام صراف بہت چھوٹی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ آسٹریلیا آگئے تھے اور پچھلے کئی سال سے شیپرٹن، وکٹوریا میں مقیم ہیں
حسام صراف نے بتایا کہ باغبانی کا شوق انہیں اپنے بزرگوں سے ورثے میں ملا ہے اور وہ بچپن میں کئی کئی مہینوں تک اپنے دادا کے باغ میں ان کا ہاتھ بٹانے اور باغبانی سیکھنے میں گزارتے تھے
وہ باغبانی میں کچھ الگ کرنا چاہتے تھے لہذا انہوں نے ایک پودے پر مختلف پھل اگانے کی کوششیں شروع کردیں
طویل محنت کے بعد آخرکار حسام کو کامیابی حاصل ہوگئی اور وہ ایک ہی پودے پر سرخ و سفید شفتالو (نیکٹرائن)، سفید اور زرد آڑو ، سرخ و زرد آلوچے ، پیچ کاٹ (آڑو اور خوبانی کا کراس)، خوبانی، بادام اور چیری اگانے میں کامیاب ہو گئے
ویسے تو یہ دس اقسام کے پھل بنتے ہیں مگر اِن میں سے شفتالو اور آلوچے کا تعلق ایک ہی نوع (species) کے پھلوں سے ہے، جبکہ پیچ کاٹ اپنے آپ میں صرف دو انواع کا کراس ہے، جو اپنے آپ میں کوئی علیحدہ قسم شمار نہیں ہوتی
تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد حسام نے ایک پودے پر پانچ قسموں کے پھل (یعنی آلوچہ، خوبانی، بادام، آڑو اور چیری) اگانے کے عالمی ریکارڈ کےلیے گنیز ورلڈ ریکارڈ کو ای میل بھیجی
جواب میں ادارے نے یہ کہہ کر ان کا دعویٰ مسترد کردیا کہ اس طرح کا ایک ریکارڈ پہلے ہی چلی کے لوئی کاراسکو کے نام ہے، جنہوں نے ایک درخت پر پانچ قسم کے پھل اگائے تھے۔ حسام نے صرف وہ ریکارڈ برابر کیا ہے، کوئی نیا ریکارڈ نہیں بنایا
حسام نے یہ جواب دیکھ کر کاراسکو کے ریکارڈ کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اس میں آڑو اور شفتالو کو پھلوں کی دو الگ الگ قسموں میں شمار کیا گیا ہے، حالانکہ وہ ایک ہی نوع کی دو مختلف اقسام ہیں
اسی دلیل کے ساتھ حسام نے ایک بار پھر گنیز ورلڈ ریکارڈ سے رابطہ کیا۔ چھان بین کے بعد گنیز ورلڈ ریکارڈ کے منتظمین نے حسام کی یہ دلیل تسلیم کرلی
اس طرح کاراسکو کا ریکارڈ پانچ سے کم ہو کر چار پر آگیا اور ایک درخت پر سب سے زیادہ یعنی پانچ اقسام کے پھل اُگانے کا عالمی ریکارڈ حسام کے نام درج کر دیا گیا
حسام کا کہنا ہے کہ ایک درخت پر کئی اقسام کے پھل اگا کر وہ نئی نسل کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہونے کے باوجود ہم آپس میں مل جل کر رہ سکتے ہیں.