جوئیں (ڈنمارک کے زیر انتظام، نیم خود مختار جزائر فیرو کی ایک کہانی)

ہیئن برے (مترجم: نصر ملک)

لِنگوریہ سے تھوڑی دور شمال میں، ڈھلوان کے سب سے زیادہ مضبوط حصے پر ایک تنہا مکان ہے اور اِس گھر کے آس پاس کھیتیاں ہیں۔ یہاں کلور اور اُس کے والدین رہتے تھے۔

کلور جب بیس سال کا تھا تو اس کی ماں فوت ہو گئی تھی اور اس کا باپ بستر پر جا پڑا تھا۔ کلور کے لیے اُس کی ماں کی وفات تو اتنی بھاری ضرب نہیں تھی، لیکن اُس کے باپ کا ایک مردے کی طرح بستر پر پڑے رہنا اس کے لیے بد تر تھا۔ اگر اُس نے خاموشی اختیار کر لی ہوتی تو کلور کو شکایت کرنے کے لیے کچھ نہ ہوتا، لیکن صبح، دوپہر، اور ہر رات وہ اپنے بیٹے پر زور دیتا رہتا تھا کہ وہ شادی کر لے۔ کلور نے اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں کی تھی۔

بوڑھا بھی ہار ماننے والا نہیں تھا، وہ مسلسل زور دیتا رہتا تھا، ’’اگر ہم گھر میں کوئی عورت نہ لائیں گے تو میں اِن سب جوؤں سے مرجاؤں گا۔‘‘ وہ کہتا رہتا۔۔ کلور کی آنکھیں اشکبار ہو جاتیں۔

اس کا باپ جلدی سے اپنے گھٹنوں پر کھڑا ہو جاتا اور پھر جوئیں تلاش کرنے کے لیے بستر کو الٹ پلٹ کرنے لگتا۔ وہ لوہے کی ایک چمٹی کے ساتھ جوؤں کو پکڑتا اور انہیں کچلنے کے بعد وہ انہیں اپنے بستر کے اوپر لٹکی ہوئی ایک ٹوکری میں ڈال دیتا۔
وہ اِس ٹوکری کو اپنے بیٹے کے لیے ایک خطرہ بنائے رکھنا چاہتا تھا۔ ’’میں اسے ہر ایک کو دکھاؤں گا۔۔ میں بتاؤں گا کہ تم کس طرح مجھے موت کی طرف دھکیل رہے ہو۔۔۔۔ تم قتل کر رہے ہو!‘‘ وہ کہتا۔

کلور ایک عام سا نوجوان تھا، جو جنسِ مخالف کی طرف راغب ہونا تو محسوس کرتا تھا، لیکن اپنے ساتھیوں میں وہ ایسا تھا کہ اس کے لیے ہمت نہیں کر پاتا تھا۔۔ اور جونہی وہ ایسا کرنے کے نزدیک ہوتا، اُس کے اعصاب اسے جواب دے جاتے۔۔ نہیں، اُسے نہیں لگتا تھا کہ لڑکیوں کو اس طرح کی چیزیں پسند ہوں گی۔۔

لیکن آخر کچھ تو کرنا تھا۔ اب وہ اس بوڑھے آدمی کے ساتھ وہاں مزید نہیں رہ سکتا تھا۔ اب گالی گلوچ میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔

اُس کا باپ خوفناک حد تک تمباکو چباتا رہتا تھا۔ اُس کا دعویٰ تھا کہ یہ جوؤں کا سب سے مؤثر علاج ہے۔ وہ تمباکو کو اس حد تک چباتا کہ تمباکو کا رس اس کے گلے سے ہوتا ہوا، شریانوں تک پہنچے اور پھر پسینے کی طرح اس کی جلد پر نمو دار ہو۔

’’۔۔۔۔تو اب جوؤں کو آنے دو، ان کمبختوں پر لعنت ہو۔۔۔۔۔ میں۔۔۔!‘‘ وہ بڑبڑاتا۔

اُس نے اپنے بستر کی پاس ایک لاٹھی رکھی ہوئی تھی، جو اس کی پرانی کشتی کے چپّو سے بنائی گئی تھی۔ کبھی کبھی جب وہ جوؤں کے بارے میں بات کرتا، وہ اپنے پاؤں پر اچھل پڑتا اور اپنے اردگرد لاٹھی گھمانے لگتا۔ وہ اُن کو للکارتا، ’’آؤ شیطانو، آؤ! میں تمہیں سبق سکھاتا ہوں!‘‘

اور پھر جب وہ دیکھتا کہ ہزاروں جوؤں کا لشکر قطار بنائے اُس کی جانب بڑھ رہا ہے تو وہ لاٹھی کو زور سے گھماتا ہوا ان کے درمیان پھینک دیتا اور خود پر بڑا فخر کرنے لگتا اور خود کلامی کرنے لگتا، ’’آہا، ہاں، ہاں، بوڑھے، اچھا، بہت اچھا۔۔۔۔۔ ایک وقت تھا جب تم واقعی ایک مرد تھے۔ اب تم نوّے سال کے ہو اور پھر بھی تم ایک ہزار کے مقابلے میں اکیلے کھڑے ہو سکتے ہو۔‘‘

بوڑھا اپنی ٹوکری کو جتنا زیادہ بھرتا تھا، کلور اُتنا ہی گھر میں اپنے لیے ایک بیوی لے آنے کے متعلق سوچتا۔ ایک دن وہ اپنے باپ کے پاس یہ جاننے کے لیے گیا کہ وہ اپنے وقت میں کسی لڑکی کے ساتھ کیسا تھا۔

کلور جب اندر داخل ہوا تو اُس کا بوڑھا باپ بڑے زور سے تمباکو چبا رہا تھا۔ وہ بستر کے درمیان بیٹھا، کھڑکی سے اندر آتی چمکیلی دھوپ کی کرنوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ ابھی تک تمباکو چبا رہا تھا۔ کلور نے اُس سے بات کی، لیکن نہیں، بوڑھے نے اس پر کوئی دھیان نہ دیا۔ پھر اچانک اُس نے اپنی گردن بڑھائی اور منھ سے بستر پر تمباکو کے رس کی قے کر دی۔۔ اور اپنی بانہوں کو اوپر اٹھا لیا اور ایک زوردار چیخ ماری۔

’’تم اس طرح کیوں بیٹھے ہو؟‘‘ کلور نے پوچھا

’’میں اس طرح کیوں بیٹھا ہوں! کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اُس میں سے سولہ جوئیں بستر کے پائے سے اوپر چڑھ رہی تھیں؟ وہ مر گئی ہیں، ہر ایک مر چکی ہے، تمباکو کے رس میں ڈوب کر!‘‘ اور پھر اُس نے ایک بھر پور قہقہہ لگایا

کلور کو اِس ملاقات سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور وہ بوڑھے کی کسی لڑکی کے ساتھ وقت گزاری کے متعلق کچھ بھی نہ اگلوا سکا۔ اب وہی بات براہِ راست پوچھنے کے لیے اس کے اعصاب ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ لیکن بوڑھے نے ابھی تک اُسے کچھ نہیں بتایا تھا۔ اس لیے نہیں کہ اسے کوئی جھجک یا شرم تھی۔۔ نہیں، ایسا نہیں تھا۔۔۔

بوڑھے نے اس کی چٹکی لی اور اس کے ساتھ کُشتی لڑنے لگا اور وہ کافی حد تک اُس پر مسلط رہا۔

بیٹے کو یہ سب کچھ نا امید و مایوس کرنے کے لیے کافی تھا، وہ پیچھے ہٹ گیا۔ ’نہیں! مجھے اس کے لیے خود کوشش کرنی ہوگی۔‘ اُس نے سوچا

اب شام کے وقت کلور نے گاؤں جانا شروع کر دیا۔ وہ ان گھروں میں جاتا، جہاں ’گھر بیٹھی بیٹیاں‘ ہوتی تھیں۔ وہاں جا کر وہ اُن کی طرف دیکھتا رہتا لیکن اس نے کبھی ایک لفظ تک نہ بولا

بوڑھا آدمی جاننا چاہتا تھا کہ معاملات کیسے چل رہے تھے۔
نہیں، کلور کی حوصلہ شکنی ہوئی تھی: ’اس طرح چکر لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔ مجھے کچھ بھی تو حاصل نہیں ہو رہا‘ وہ سوچتا، ’وہ تو میری طرف دیکھتی تک نہیں۔ کاش میں نے ڈانس کرنا سیکھا ہوتا تو میں بھی اُن کے ساتھ ڈانس میں شامل ہو سکتا تھا، پھر معاملات بھی خود بخود بہتر ہو جاتے۔‘

اور پھر بوڑھا اپنے بستر سے اُٹھ کھڑا ہوا تاکہ کلور کو ڈانس کرنا سکھا سکے۔ اُن دونوں نے کہنیوں کو جھکا لیا اور ایک نعرہ لگاتے ہوئے تیز تیز قدموں پر دائیں بائیں اور پھر آگے پیچھے، گھیرے کی صورت میں گھمایا اور یہ عمل بار بار دہرایا ۔ اور جب بیٹا ڈانس کے دوران قدم اٹھانے کے طور طریقے سیکھ گیا تو بوڑھا پھر اپنے بستر میں جا گھسا۔

اب کلور ڈانس کے لیے گیا اور وہاں موجود لڑکیوں کو بڑی بے تابی و اشتیاق سے دیکھنے لگا، لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہ دی۔ کلور حوصلہ شکنی کا شکار ہو گیا اور واپس چلا گیا۔

بوڑھے نے پوچھا کہ معاملہ کیسا رہا؟

’’نہیں! کچھ بھی نہیں ہوا، میں کچھ بھی حاصل نہیں کر پایا‘‘ کلور بولا

’’تم ڈرپوک ہو، بے وقوف!‘‘ بوڑھا بولا، ’’جانے سے پہلے ایک آدھ جام پیو، اور پھر جاؤ، یہ تمہارے اعصاب کو بحال رکھنے کے لیے کافی ہوگا۔‘‘

کلور کو کچھ برانڈی مل گئی۔۔ لیکن ہوا کیا؟ اُس نے کچھ اتنی چڑھا لی کہ وہ گاؤں تک پہنچ ہی نہ پایا، اور سڑک پر کہیں سے کہیں گزر گیا اور جہاں تک جا سکتا تھا، گیا۔۔

لیکن ایک شام جب کلور ڈانس ہال سے جا رہا تھا، اس وقت وہ ایک عورت کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔۔۔۔۔ وہ کوئی اتنی کم عمر نوجوان لڑکی نہیں تھی، جو گاؤں کے مضافات میں واقع ایک گھر پر کسی سے ملاقات کے لیے جا رہی ہو۔ راستے میں ایک زبردست برفانی طوفان نے انہیں آ لیا اور انہیں پتھر کی ایک باڑ کے پیچھے پناہ لینی پڑی۔

یہ موسم کافی وقت تک جاری رہا اور برفباری ہوتی رہی۔ لڑکی نے سردی کی شکایت کی، ’’میں ٹھٹھر رہی ہوں‘‘ وہ بولی۔

’’جی!‘‘ کلور نے اس سے اتفاق کیا کہ سخت سردی پڑ رہی تھی۔ اُس نے اپنے بازؤں کو اپنے سینے کے ساتھ چمٹا لیا، لیکن مزید کچھ نہ بولا۔

لڑکی کو اب مزید سردی لگنے لگی تھی اور ٹھنڈ اُس کے بدن میں داخل ہو رہی تھی۔ آخر کار وہ بولی، ’’کلور، اگر تم واقعی مرد ہوتے تو تم مجھے تھوڑا سا گرم کرتے۔‘‘

کلور ہنسا، اس نے سوچا، یہ کوئی مذاق تھا۔

لیکن لڑکی ثابت قدم رہی ’’تم مجھے تھوڑا سا گرم کیوں نہیں کرتے؟‘‘ اب کلور کو احساس ہوا کہ شاید وہ اُس کے متعلق سنجیدہ ہے، اس لیے وہ بولا، ’’ٹھیک ہے، اگر میں جانتا ہوں کہ مجھے کیا کرنا ہے، تو پھر، یقیناً۔۔۔۔۔۔‘‘

’’کیا کرنا ہے!‘‘ لڑکی بولی، ’’تم میرے قریب بیٹھ سکتے ہو، آؤ، تم میرے ساتھ لگ کر بیٹھو، اور مجھے اپنی بانہوں میں لے لو، بس یہی کچھ تو ہے۔‘‘

اِس موقع پر کلور کی زبان گنگ ہو گئی، وہ برف میں تھوڑا سا ادھر ہوا اور احتیاط سے بیٹھ گیا اور لڑکی کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ وہ اسی طرح بیٹھا رہا، اُس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا، لیکن اب وہ آہستہ آہستہ اُس کا لمس اور گرمی محسوس کرنے لگا تھا۔ اسے یہ محسوس ہونے لگا کہ اس کے کپڑوں کے نیچے ایک نرم جسم یعنی آرام دہ عورت کا جسم ہے۔ پھر اُس میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ اُس نے اپنے ہونٹ لڑکی کے گال تک لے جا کر اسے ایک بوسہ دیا۔ اس نے دوبارہ اُسے چومنا چاہا اور اس کے ہونٹ خود بہ خود اس کے رخسار پر جا لگے، کیوں کہ اسے اب معلوم تھا کہ رخسار کہاں ہے۔ لیکن لڑکی نے اپنا سر پھیر لیا تھا۔۔ کلور نے اسے منھ سے پکڑ لیا، وہ ابھی تک آگ سے بھرا ہوا تھا اور اس نے لڑکی کو اتنی سختی سے بھینچا کہ اُس کی آنکھیں نکل آئیں۔

اور اس طرح اُن پر پڑی برف پگھل کئی۔۔۔۔

اس رات جب کلور دیر گئے گھر آیا تو اسے آواز سنائی دی کہ بوڑھا آدمی ایک گانٹھ لگا رہا تھا اور وہ اپنی لاٹھی کے ساتھ ٹکرا رہا تھا۔ کلور اُس کے پاس گیا اور کہا کہ اب اِس گھر میں ایک عورت آئے گی

’’ہاں! وقت آگیا ہے‘‘ بوڑھے نے اسے ٹوکری دکھاتے ہوئے کہا، جس میں جوئیں بھری ہوئی تھیں۔

اب اِس کے بعد کلور ایک اور شخص تھا۔ وہ ہر اتوار کو نہاتا، نئے کپڑے پہنتا اور گھر کے اردو گرد صفائی ستھرائی رکھتا۔ بوڑھا اس تبدیلی پر حیران، بستر میں لیٹا تبصرے کرتا رہتا کہ اب یہ گھر اتنا فینسی ہے کہ وہ کسی کو یہاں آنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔۔

لیکن پھر ایک دن جب وہ بوڑھا آدمی اپنی لاٹھی سے ٹیک لگائے ہوئے اپنے بستر پر کھڑا تھا، تو ایک عورت ہاتھ میں ایک ٹب لیے ہوئے اندر آئی اور اُسے فرش پر رکھ دیا۔ پھر وہ پانی لانے کے لیے باہر گئی اور پانی لا کر ٹب میں ڈال دیا۔ بوڑھا یہ سب دیکھتا رہا لیکن اس نے ایک لفظ بھی نہ بولا۔ پھر اچانک بوڑھے نے پوچھا کہ کیا وہ کلور کی بیوی ہے؟

’’ہاں، میں ہوں!‘‘ وہ بولی

اب بوڑھا سب جوئیں اتارنے والا تھا، اور وہ اس کی مدد کرتے ہوئے اُسے ٹب تک لے جانے والی تھی۔

بوڑھے نے پوچھا کہ کیا وہ بپٹسٹ ہے؟ اس کا اپنا تو بپتسمہ ہو چکا ہوا تھا ۔ اُس نے زور سے قسم کھائی کہ وہ کپڑے نہیں اتارے گا۔

لیکن اُس نے بوڑھے کو پکڑ لیا اور اس کے کپڑے اتار کر انہیں ایک کونے میں پھینک دیا۔ بوڑھے نے اپنی زندگی کی جنگ لڑی، لیکن اُس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ وہ بہت مضبوط اور طاقتور تھی۔ پھر اُس نے بوڑھے کو اٹھایا اور ٹب میں پھینک دیا۔ وہ مدد کے لیے چیخا، چلایا۔ اب نوّے سال کی عمر میں وہ دوبارہ مکمل بپتسمہ لینے کی بجائے، اپنی جوؤں سے مر جانے کو ترجیح دے رہا تھا۔ اُس نے اُن تمام قوتوں کو پکارا، جن سے اِس وقت اُسے مدد کی امید تھی۔ تب، اسی وقت ایک زوردار حادثہ ہوا، ایک پتھر پہاڑی سے بڑی تیزی کے ساتھ لڑکھراتا ہوا، گھر کی کھڑکی سے ٹکرا کر اُسے توڑتے ہوئے اندر فرش سے جا ٹکرایا۔ اُس نے ٹب کو توڑ ڈالا لیکن بوڑھے مرد یا عورت کو نقصان نہیں سکا تھا۔

’’تم نے وہاں دیکھا!‘‘ اب بوڑھے نے بڑی تیز آواز میں پوچھا، اُس کا خیال تھا کہ وہ ایک جادو کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے

لیکن اُس عورت نے ہمت نہیں ہاری تھی۔۔۔۔۔ اب وہ ایک اور ٹب لے آئی تھی۔ اُس نے اسے پانی سے بھرا اور بوڑھے کو اُس میں پھینک دیا، اور اسے برش سے دھونے اور جھاڑنے لگی۔ جب وہ اسے نہلانے سے فارغ ہوئی تو اُس نے ایک قینچی لا کر پہلے اُس کی داڑھی اور پھر ساتھ ہی سر کے بال بھی کاٹ دیے۔ اب بوڑھے نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے بدن کے ’مخصوص حصے‘ کو چھپا لیا۔

’’نہیں! نہیں!‘‘ وہ بولی، اُس نے بوڑھے کے ہاتھوں کو پرے ہٹایا، ’’تمہارے بدن کے ساتھ گندگی کا ایک نشان بیشک رہ جائے لیکن میں تمہارے جسم پر موجود ہر بال کاٹ ڈالوں گی۔”

بوڑھے آدمی نے روتے ہوئے اُس دن پر لعنت بھیجی، جب اُس نے اپنے بیٹے سے گھر میں اِس دہشت کو لانے کی درخواست کی تھی۔

اس عورت نے بستر میں جو کچھ تھا، سب جلا دیا۔ باقی سب کچھ دھویا، جھاڑا اور جب وہ بوڑھا دوبارہ اپنے بستر پر واپس آیا تو لحاف، گدّے، لاٹھی، تمباکو، سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ اور گھر میں کہیں بھی جوؤں کا کوئی نشان نہیں تھا۔

پھر بوڑھے نے اپنے ساتھ اس بد تمیزی اور واہیات برتاؤ کے باجود، عورت کو سراہا کہ اُس نے یوں جوؤں کو یکسر ختم کر دیا تھا۔۔ لیکن اس کے فوراً بعد اُس کی موت ہو گئی۔۔

اب جب جوئیں چلی گئیں تو اُسے محسوس ہوا کہ اُس کے پاس زندہ رہنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔ نہ کوئی شے، جس کے ساتھ وہ لڑ جھگڑ سکے، اور اسی وجہ سے وہ مر گیا۔

وہ مر گیا۔۔ ہاں شاید آپ اسے بیزاری و سستی کہہ سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close