ناظم جوکھیو کیس میں شواہد چھپانے کی دفعات کا اضافہ، نئی جے آئی ٹی بنانے کا مطالبہ

نیوز ڈیسک

ملیر کراچی : ملیر کورٹ نے ناظم جوکھیو قتل کیس میں گرفتار ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں مزید توسیع کردی، پولیس نے مقدمے میں شواہد چھپانے کی دفعات کا اضافہ کر دیا

تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ کورٹ ملیر میں ناظم جوکھیو قتل کیس کی سماعت ہوئی، پولیس نے ایم پی اے جام اویس سمیت چھ ملزمان کو عدالت میں پیش کیا اور ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں دو روز کی توسیع کی استدعا کی

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے مقدمے میں شواہد چھپانے کی دفعات کا اضافہ کر دیا ہے، مقدمے میں اغوا کی دفعہ پہلے ہی شامل کی جا چکی ہے

کیس میں تفتیشی افسر کا مزید کہنا تھا کہ مفرور ملزمان سے متعلق تفتیش کے لئے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی جائے

اس موقع پر عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں مزید دو روز کی توسیع کردی اور حکم دیا کہ آئندہ سماعت میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کی درخواست پر دلائل دیئے جائیں

واضح رہے کہ ناظم جوکھیو قتل کیس میں گزشتہ روز تفتیشی افسر نے ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو کو بیان کے لئے خط لکھا ہے

تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی غیر ملکی کی آمد کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں ، گاڑی کس کے نام تھی اس کا ڈیٹا ابھی تک نہیں ملا،ل. اس حوالے سے تحقیقاتی ٹیم کے تفتیشی افسر نے افضل جوکھیو کو بیان کے لئے خط لکھا ہے

ذرائع کا کہنا ہے کہ افضل جوکھیو نے تفتیشی افسر پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا بیان 7 نومبر کو قلم بند ہو چکا ہے ، مزید بیان جے آئی ٹی کے سامنے رکارڈ کرواؤں گا

ناظم جوکھیو قتل کیس کے مدعی نے درخواست کی ہے کہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کی جائیں اور ایس ایچ او میمن گوٹھ پولیس سٹیشن کے موبائل فون کی فرانسک کرائی جائے تاکہ ملزمان سے ان کے رابطے کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکیں

ملیر کے جوڈیشل میجسٹریٹ کی عدالت میں پولیس نے منگل کی صبح رکن سندھ اسمبلی جام اویس گہرام سمیت پانچ ملزمان کو پیش کیا اور مزید ریمانڈ کی استدعا کی۔ ملزم کے وکلا نے مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ پولیس نے جو تحقیقات کرنی تھی وہ ہو چکی لہٰذا ان کے مؤکل کو اب جیل بھیجا جائے

مدعی افضل جوکھیو کے وکلا نے مؤقف اختیار کیا کہ مرکزی ملزم جام عبدالکریم ابھی تک عدالت میں پیش نہیں ہوئے، جبکہ نیاز سالار جو مقتول ناظم کو ساتھ لے گئے تھے، انہیں بھی پولیس گرفتار نہیں کر سکی اور نہ ہی آلہ قتل برآمد کیا گیا، انہیں پولیس کی موجودہ تفتیشی ٹیم پر اعتماد نہیں

منگل کے روز مدعی کے وکلا نے عدالت کو درخواست دی جس میں مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کرنے کی گزارش کی گئی ہے اور مؤقف اختیار کیا گیا کہ اس اقدام قتل سے عوام میں عدم تحفظ اور خوف پھیلایا گیا لہٰذا دفعات شامل کی جائیں

مدعی کے وکلا نے ایک اور درخواست بھی پیش کی جس میں ایس ایچ او میمن گوٹھ کے فون کا ریکارڈ اور جیو فینسگ بھی کرانے کی گزارش کی گئی اور عدالت کو آگاہ کیا کہ انہیں شبہ ہے کہ قتل کے بعد وہ بااثر افراد سے رابطے میں تھے

اس کے ساتھ درخواست میں یہ بھی بتایا گیا کہ پولیس کا کہنا ہے کہ ناظم جوکھیو کی جن لوگوں سے تلخ کلامی ہوئی تھی وہ غیر ملکی نہیں بلکہ محکمہ جنگلی حیات کے ملازم ہیں لہٰذا انییں عدالت میں شناخت پریڈ کے لیے پیش کیا جائے

تفتیشی افسر نے پولیس کو بتایا کہ ناظم جوکھیو کا جلا ہوا موبائل فون اور کپڑے برآمد ہو چکے ہیں جن کو فارنزک لیبارٹری بھیجا گیا ہے، جس پر مدعی کے وکلا نے مؤقف اختیار کیا کہ کپڑوں اور موبائل کی تصدیق ان سے نہیں کروائی گئی

عدالت نے ملزمان کو 18 نومبر تک پولیس کے حوالے کر دیا ہے اور اس روز مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کے بارے میں فریقین دلائل بھی دیں گے

اس سے قبل ناظم جوکھیو کے ورثا اور وکلا نے ملیر پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مقدمے کی آزادانہ تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کی درخواست کی تھی

محکمہ داخلہ نے ان کی یہ درخواست منظوری کے لیے وزیر اعلیٰ کو بھیج رکھی ہے

دوسری جانب ناظم جوکھیو کے بڑے بھائی اور مقدمے کے مدعی افضل جوکھیو نے پیر کو محکمہ داخلہ کے سیکریٹری سے ملاقات کی اور انہیں اسسٹنٹ آئی جی جاوید عالم اوڈھو کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دینے کی درخواست دی، جس میں ایک ڈی ایس پی، ایک انسپکٹر، رینجرز، آئی ایس آئی، ایم آئی کے میجر رینک کے افسران کے ساتھ انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے بھی افسران شامل کرنے کی درخواست کی گئی ہے

افضل جوکھیو کے مطابق تفتیشی پولیس کے جو نتائج آرہے ہیں وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں، پولیس نے جو کپڑے اور موبائل فون برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے وہ اس سے بھی اتفاق نہیں کرتے کیونکہ ایک تو وہ وہاں موجود نہیں تھے اور دوسرا کپڑے اور موبائل بھی جلے ہوئے ہیں

افضل جوکھیو کے وکیل نے بتایا کہ ناظم کے قتل کی جو ایف آئی آر درج کی گئی وہ مدعی کے پہنچنے سے قبل اس کے بیان کو بنیاد بنا کر دائر کی گئی تھی۔ وکیل نے دعویٰ کیا ہے کہ مدعی نے جب کہا کہ انہیں پڑھنے تو دیں تو اس کو کہا گیا کہ آپ کو کاربن کاپی دیتے ہیں گھبرائیں نہ آپ کے ساتھ انصاف ہوگا

وکیل کے مطابق ’پولیس نے پانچ ملزمان کے نام شامل کیے ہیں۔ جو حقائق تھے یا پوری کہانی تھی، وہ بھی ایف آئی آر میں ادھوری ہی لکھی گئی ہے، جو مرکزی ملزم ہے جام کریم بجار اس کا نام بھی شامل نہیں کیا گیا تھا، ایف آئی آر میں اور جو جائے وقوعہ بتائی گئی تھی وہ جام ہاؤس کے باہر کی بتائی گئی تھی، جبکہ ہلاکت تو جام ہاؤس کے اندر ہوئی تھی

افضل جوکھیو نے پولیس کو گذشتہ روز اس کمرے کی نشاندہی کی تھی، جہاں ان کے بھائی کو قید رکھا گیا اور وہاں اس کی موت واقع ہوئی، ان کی یہ وڈیو گذشتہ روز سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی تھی

وکیل نے بتایا کہ ایف آئی آر کے بعد پہلا مرحلہ یہی ہوتا ہے کہ جائے وقوعہ کا معائنہ کر کے رپورٹ تیار کی جائے۔ ان کے مطابق تفتیشی افسر نے خود ہی تحریر کر کے افضل سے دستخط کرانے کے لیے دیے جس کو انہوں نے تسلیم نہیں کیا اور واضح کیا کہ وہ خود جائے وقوعہ کی انسپکشن کرائیں گے

انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر کے فوری بعد یا واقعہ کے چند گھنٹوں کے بعد موقعہ واردات کا معائنہ ہوتا ہے لیکن چار روز کے بعد معائنہ کرایا گیا۔ اس موقع پر صرف دو افسران موجود تھے جبکہ ڈنڈوں کی ریکوری پہلے ہی دکھا دی گئی، ہمیں اعتماد نہیں ہے کہ یہ واقعی وہی ڈنڈے ہیں جن سے تشدد کیا گیا یا کہیں اور سے لائے گئے ہیں

مدعی افضل جوکھیو کے وکیل کا کہنا ہے کہ جام ہاؤس کے اندر جہاں جام برادران موجود تھے پولیس کو وہاں بھی جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن انہوں نے پولیس پر دباؤ ڈالا جس کے بعد وہ اس جگہ تک پہنچے جہاں ناظم کی ہلاکت ہوئی تھی

انہوں نے کہا کہ جام ہاؤس میں جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں، ان کی ریکارڈنگ بھی پولیس برآمد نہیں کرسکی ہے حالانکہ اس بارے میں عدالت واضح حکم نامہ جاری کر چکی ہے۔ جام اویس گرفتار ہیں لیکن پولیس ان سے تفتیش کے دوران جو دو غیر ملکی مہمان تھے ان کے نام اور ٹیلیفون نمبر بھی حاصل نہیں کر سکی

مدعی کے وکیل کے مطابق گذشتہ روز کرین طلب کر کے ڈرامہ رچایا گیا اور کنویں سے جلے ہوئے کپڑے اور موبائل برآمد کر کے دعویٰ کیا گیا کہ یہ ناظم کے ہیں لیکن ہمیں نہیں بلایا گیا اور نہ ہی ہم سے اس کی تصدیق کرائی گئی اس ساری صورتحال سے ہمیں یقین ہوگیا کہ پولیس مدعی کے بجائے ملزمان کو فائدہ دے رہی ہے اس لیے جے آئی ٹی بنائی جائے

ایڈووکیٹ مظفر جونیجو نے بتایا کہ انہیں زیر دفعہ 160 کے تحت ایک نوٹس دیا گیا کہ جو گواہ ہیں ان کی فہرست دی جائے تاکہ ان کے مجسٹریٹ کے روبرو بیانات لیے جا سکیں۔ ان کے مطابق اگر وہ اس مرحلے پر گواہوں کے بیانات رکارڈ کرائیں گے تو لازمی طور پر دوسرے فریق کے وکلا ان پر جرح کریں گے اور کوئی تضاد پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ملزمان کو فائدہ پہنچایا جاسکے

ان کے مطابق ملیر پولیس انتہائی ہوشیاری سے مقدمے کو خراب کر رہی ہے

دوسری جانب سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے امداد پتافی نے ملیر اور شہدادکوٹ میں بیگناہ قتل ناظم جوکھیو اور فہمیدہ سیال واقعہ کو ذاتی قبائلی جھگڑا قرار دے دیا، اپوزیشن ارکان کی جانب سے قاتل قاتل پی پی قاتل کے نعرے لگائے گئے

پیر کو فاتحہ خوانی اور دعائے مغفرت کے موقع پر اپوزیشن کے کئی سینئر پارلیمنٹرینز نے صوبے میں قتل کے حالیہ لرزہ خیز واقعات پر حکومت سندھ کو آڑے ہاتھوں لیا. نصرت سحر عباسی ناظم جوکھیو اور فہمیدہ سیال کے قتل پر حکومت سندھ پر برس پڑیں، جمال صدیقی نے بددعا کی کہ اللہ ظلم کرنے والوں کو اسی دنیا میں نشان عبرت بنادے جبکہ خواجہ اظہار الحسن نے کہاکہ فہمیدہ سیال کے قتل نے سانحہ علی گڑھ کی یاد تازہ کرادی

سندھ اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر ریحانہ لغاری کی زیر صدارت سوا گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا تو فاتحہ خوانی کے موقع پر جب سفاکانہ طریقے سے قتل کئے جانے والے ناظم جوکھیو اور خاتون فہمیدہ سیال کا ذکر آیا تو اپوزیشن نے ان ہلاکتوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی. ایم کیو ایم کے رکن محمد حسین نے کہا کہ قتل کے شواہد کافی تکلیف دہ ہیں اور سب کو معلوم ہے کہ کون لوگ ملوث ہیں، انہوں نے کہا کہ فہمیدہ سیال کو ظالموں نے قتل کیا ، قرآن پاک کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھا گیا

ادہر سندھ کے وزیرِ اطلاعات سعید غنی نے کہا ہے کہ سندھ حکومت ناظم جوکھیو کے اہلِ خانہ سے تعاون کر رہی ہے، ہم ناظم جوکھیو کے ساتھ کھڑے ہیں، ایم پی اے کے ساتھ نہیں

سندھ اسمبلی کے اجلاس کے بعد وزیرِ اطلاعات سندھ سعید غنی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ناظم جوکھیو کے اہلِ خانہ کو انصاف دلایا جائے گا، اس کیس میں سندھ حکومت متاثرین کے ساتھ کھڑی ہے

انہوں نے کہا کہ ناظم جوکھیو کے اہلِ خانہ نے کہا کہ ہمیں کوئی دھمکی نہیں دی گئی، بلکہ وکیل کو دھمکیاں دی گئیں ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close