مشرقی استبداد

ڈاکٹر مبارک علی

ونانی مورخ ہیروڈوٹس نے اپنی کتاب تاریخ میں یونانی اور ایرانی جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یونانی اس لیے فتحیاب ہوئے، کیونکہ ان میں آزادی کا جذبہ تھا، جبکہ ایرانی استبدادی نظام میں رہتے ہوئے اپنے حکمرانوں کے غلام تھے۔

ارسطو نے کہا ہے کہ یونان اور مشرق میں فرق یہ ہے کہ اہلِ یونان آمرانہ حکومت کے خلاف ہیں، جبکہ اہل مشرق بادشاہت کے اسیر ہیں۔ اس لیے ان کے کردار میں آزادی کے جذبات نہیں ہیں۔ اس موضوع پر مائیکل کرٹس نے اپنی کتاب Orientalism In Islam میں ان یورپی مفکرین کی ارادے بیان کیے ہیں، جو مشرق اور مغرب کے تہذیبی فرق کو نمایاں کرتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلے فرانس کے مفکر مونتیسکیو (Montesquieu-D.1755) نے مقتنہ، عدلیہ اور انتظامیہ کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کی تجویز بھی دی تھی تاکہ اختیارات کسی ایک ادارے کے پاس نہ ہوں۔ وہ استبدادی نظام کے خلاف تھا۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ اس نظام میں آزادی نہ ہونے کی وجہ سے نئے خیالات و افکار پیدا نہیں ہوں گے اور معاشرہ ذہنی اور تہذیبی طور پر بنجر ہو جائے گا۔ برطانوی فلسفی اڈمنڈ برک 1797) ) جو ہاؤس آف کومن کے ممبر تھے اور پُرجوش مقرر بھی تھے۔

جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے پہلے مقامی گورنر جنرل وارن ہاسٹنگس (d.1818) پر بدعنوانی اور ختیارات کے بےجا استعمال پر پارلیمنٹ میں مواخذہ ہوا تو ان کا سب سے بڑا مخالف بَرک تھا۔ اس نے Warren Hastings پر الزام لگایا کہ اس نے ہندوستان میں حکومت کرتے ہوئے برطانوی قانون کی خلاف ورزی کی اور اپنے احکامات کو استبدادی طریقے سے نافذ کرایا۔ Warren Hastings کے وکیلوں کی دلیل یہ تھی کہ ہندوستانی آزادی اور قانون کی بالادستی سے ناواقف ہیں۔ ان پر صدیوں سے استبدادی نظام کے تحت حکومتیں رہی ہیں۔ اس لیے وہ اپنی روایات کے تحت تسلّط میں رہتے ہیںَ اس کے جواب میں برک کی دلیل یہ تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں تہذیبی مِشن لے کر گئی ہے اس لیے اس کے اراکین کو انگریزی قوانین اور اداروں کی پاسداری کرنی چاہیے۔

اگر کمپنی کی حکومت نے بھی ہندوستان کی حکومتوں کا طرز اختیار کیا تو اس میں اور مقامی حکومتوں میں کیا فرق رہے گا۔ اس صورت میں انگریزوں کا تہذیبی مِشن ناکام ہو جائے گا، اور ہندوستانیوں کی نظروں میں ان کی کوئی عزت نہیں رہے گی۔

اڈمنڈ برک ایسٹ انڈیا کمپنی کے لوگوں کی ہندوستان میں لُوٹ کھسُوٹ کا بھی ناقد تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ کمپنی کی حیثیت تاجروں کی ہے، جو ہندوستان میں مُنافع کی غرض سے گئے تھے۔ جب انہیں سیاسی اقتدار مِلا تو سیاسی اختیارات کو تجارتی منافع کی خاطر استعمال کیا اور ہندوستان کی قدیم روایتوں اور اداروں کو ختم کر کے اس کو تہذیبی طور پر نقصان پہنچایا۔ کمپنی کے ملازمین نے بدعنوانی کے ذریعے دولت اکھٹی کی اور جب وہ واپس انگلستان آئے تو اس دولت سے انہوں نے زرعی زمینیں خریدیں۔ اپنی رہائش کے لیے حویلیاں تیار کرائیں اور ہاؤس آف کومن کی رکنیت خرید کر پارلیمنٹ میں داخل ہوئے۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ کمپنی کے یہ عہدیدار بدعنوان تھے۔ اس لیے انہوں نے انگلش سسٹم کو بگاڑنے کی کوشش کی۔ برک کے لیے یہ سب سے بڑا خطرہ تھا کہ کمپنی کی وجہ سے انگلستان کی سیاست میں جو اعلیٰ اقدار ہیں۔ ان کا خاتمہ ہو جائے گا اور یہاں بھی رشوت اور بدعنوانی جڑ پکڑیں گی۔

برک Burke، کمپنی کے ملازمین پر اس لیے بھی تنقید کرتا ہے، کیونکہ ان کی اکثریت کا تعلق نچلے طبقوں سے تھا۔ ان میں انگلش اشرافیہ کے اوصاف نہ تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے ہندوستان میں لوٹ مار کی۔ کسی اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پابندی نہ کی اور ہر جائز اور ناجائز طریقے سے دولت اکٹھی کی۔ انگلستان کے معاشرے میں یہ لوگ ’نوباب‘ کہلاتے تھے۔ اپنی دولت کے باوجود یہ لوگ انگلش اشرافیہ کا حصّہ نہ بن سکے۔

ہندوستان کے بارے میں جیمز مِل اور اس کے لڑکے جون اسٹواٹ مِل نے اپنی تحریروں میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ یہ دونوں باپ بیٹے کمپنی کے ملازم تھے۔ اس حیثیت سے ہندوستان میں کمپنی کی حکومت جو اقدامات کر رہی تھی، یہ اس سے واقف تھے۔ ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں جرمن فلسفی ہیگل (d.1831) نے کہا تھا کہ اس کی کوئی تاریخ نہیں ہے، اس لیے ہندوستان کی ابتدائی تاریخ کمپنی کے دو عہدیداروں نے لکھی۔ ان میں سے ایک مال کُم تھا اور دوسرا اَلفِنسٹِن تھا۔

تاریخ نویسی کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جیمز مِل نے ہسٹری آف برٹش انڈیا لکھی۔ اس نے پہلی مرتبہ ہندوستان کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا۔ مُسلم پیریڈ اور برطانوی پیریڈ پہلے دو ادوار کو مذہب سے مُنسلک کیا اور برطانوی عہد کو سیکولر بنا کر اس کی تعریف کی۔

وہ ہندو عہد کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہندو تہذیب میں کوئی گہری اخلاقی قدریں نہیں ہیں، ان کا مذہب مبالغہ آمیز قصّے کہانیوں پر مشتمل ہے۔ ذات بات کی تقسیم نے اس کے معاشرے کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے برہمنوں کو تمام مذہبی اختیارات دے دیے ہیں۔ کیونکہ ذات پات کی وجہ سے کوئی فرد نہ اپنا پیشہ بدل سکتا ہے اور نہ ذات کو بدل سکتا ہے۔ اس لیے ان میں محنت اور مشقّت کی عادت نہیں ہے۔ یہ سُست، کاہل اور کام چور ہیں۔ ان کے مقابلے میں وہ مغل حکومت کی تعریف کرتا ہے، کہ مُسلم فاتحین ہندوستان میں نئی ٹیکنالوجی لے کر آئے، جس کی وجہ سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا اور ٹیکسٹائل کی صنعت کو فروغ مِلا۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ کیونکہ اسلامی معاشرے میں ذات پات کی تقسیم نہیں ہے، اس لیے کوئی بھی ذہین اور باصلاحیت فرد اعلیٰ عہدے پر فائز ہو سکتا ہے۔

جیمز مِل اور جان اسٹوارٹ مِل دونوں اس بات کے قائل تھے کہ ہندوستان میں انگریزی تہذیب کو فروغ دیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ذریعہ تعلیم انگریزی ہو اور انگریزی روایات کو ہر شعبے میں نافذ کیا جائے۔ ان کے موقف کی وجہ یہ تھی کہ Warren Hastings گورنر جنرل تھا اور وہ فارسی اور ہندی زبانوں کا ماہر بھی تھا۔ اس نے اور ولیم جونز نے مِل کر ’ایشیاٹِک سوسائٹی آف بنگال‘ کی بنیاد ڈالی۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ عربی، فارسی اور سَنسکرت کے مخلوطات کو ایڈٹ کر کے شائع کیا جائے۔ ولیم جونز جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 20 زبانیں جانتا تھا اور ماہر لِسانیات تھا، وہ مشرقی علوم کے احیاء کا حامی تھا اور ہندوستان کی قدیم روایات اور اداروں کو تحفظ دینا چاہتا تھا۔ گورنر جنرل Warren Hastings نے بھی اس سلسلے میں برطانوی حکومت کی سرپرستی کی اور مُسلم علماء اور ہندو پنڈتوں سے ان کے مذہبی قوانین تیار کروائے۔ جیمزمِل کو Warren Hastings اور ولیم جونز سے اختلاف تھا۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ مشرقی علوم فرسودہ ہو چکے تھے، ان کو دوبارہ سے زندہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

جیمزمِل نے دو گروہ پیدا کیے۔ ایک گروہ وہ تھا، جو ہندوستانی اَدب، آرٹ، موسیقی اور اس کی زبانوں کو قائم رکھنا چاہتا تھا، تاکہ ہندوستان کی اپنی شناخت رہے۔ دوسرا گروہ وہ تھا، جو ہندوستان کو مغربی تہذیب میں ڈھالنے کا حامی تھا، اور انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا چاہتا تھا۔ اس گروہ کو لارڈ میکالے کی حمایت مِل گئی، جس نے 1833 میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کی سفارش کی۔ اس نے ہندوستان میں ایک ایسا تعلیم یافتہ طبقہ پیدا کیا جو مغربی تہذیب کا حامی تھا اور اپنی مقامی روایات سے بیزار تھا۔

تیسرا اہم مفکر Alexis De Tocqueville (d.1859) تھا، جس نے فرانس کے الجزائر پر قبضے کی حمایت کی۔ اس کی دلیل بھی یہ تھی کہ الجزائر کے عرب استبدادی حکومت میں رہتے ہوئے باربیرین ہو گئے ہیں۔ اس لیے فرانس کے تہذیبی مِشن کا کام یہ ہے کہ ان کو مہذب بنائیں۔ وہ اس کا حامی تھا کہ الجزائر کو فرانس میں ضَم کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے فرانسیسی حکومت نے بڑی تعداد میں الجزائر میں نوآبادکار بھیجے۔ جنہوں نے عربوں کی زمینوں پر قبضے کئے اور الجزائر میں فرانسیسی حکومت قائم کی۔

اس پورے تجزیے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یورپی ملکوں نے مشرق کی اس استبدادیت کو ختم کرنے کے لیے اپنی استبدادی طاقت کو استعمال کیا۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close