دو عشرے پہلے کا قصہ ہے کہ بی بی سی بش ہاؤس ریسٹورنٹ میں ایک مہمان ڈاکٹر نے اچانک پوچھا کہ آپ روزانہ کتنے کپ چائے پیتے ہیں؟ میں نے کہا شائد سات آٹھ۔ اور چینی فی کپ کتنی استعمال کرتے ہیں؟ میں نے کہا دو چمچ
ڈاکٹر نے شکردان سے سولہ چمچ چینی نکال کے طشتری میں ایک چھوٹی سی میٹھی پہاڑی بناتے ہوئے کہا ’’تو یہ ہے وہ زہر جو آپ روزانہ جسم میں بلا ضرورت انڈیل لیتے ہیں‘‘ اور چہل قدمی کتنی کرتے ہیں؟ میں نے کہا وقت ہی نہیں ملتا۔ کبھی صبح کی شفٹ ہوتی ہے، تو کبھی رات کی۔زیادہ سے زیادہ دفتر سے ٹیوب اسٹیشن اور وہاں سے چار پانچ سو گز پرے گھر تک
ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ کم ازکم تیس منٹ چہل قدمی تو چوبیس گھنٹے میں کسی بھی وقت ہو سکتی ہے، مگر ہم لوگ خود کو مصروفیت کے دھوکے میں رکھ کے ہر اہم غیر اہم کام کرتے ہیں، سوائے خود پر آدھا گھنٹہ خرچ کرنے کے۔ خود کو یونہی دھوکا دیتے رہے تو یہ جسم ایک بار ہی اچانک پٹخنی دے گا
دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کو روزانہ آٹھ کپ چائے میں سولہ چمچ چینی ڈالنی ہے تو پھر مسلسل بیٹھ کے کرنے والی نوکری آپ کے لیے مناسب نہیں۔ پھر آپ جسمانی مزدوری کیجیے تاکہ جسم وہ چینی ہضم کر سکے جس کی اسے ہرگز ہرگز ضرورت نہیں۔ جو سبزیاں ، پھل حتیٰ کہ روٹی آپ کھاتے ہیں، ان میں قدرتی شوگر اتنی ہوتی ہے کہ جسم کی شوگر کی بنیادی ضرورت خود بخود پوری ہو جاتی ہے۔ جسم کو الگ سے مصنوعی چینی اور مٹھائیاں کھلانا ایسے ہے، جیسے کسی مہمان کا پیٹ بھرا ہو، پھر بھی آپ اس کے منہ میں کھانا ٹھونسنے پر بضد ہوں۔ ظاہر ہے یا تو اسے قے آ جائے گی یا پھر میزبان سے نفرت ہو جائے گی، لہٰذا جسم سے اتنا ہی پیار کریں جتنی ضرورت ہے، ورنہ ’’اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے‘‘ والا معاملہ ہو سکتا ہے
وہ دن اور آج کا دن اب میری زبان پھیکی چائے کی عادی ہو چکی ہے۔ میٹھی چائے کے دو گھونٹ بھی نہیں برداشت ہوتے اور جسم نے کبھی پلٹ کر شکوہ نہیں کیا کہ یہ تم میرے ساتھ کیا کر رہے ہو…
ویسے بھی کہتے ہیں کہ لائف اسٹائل تبدیل کرنے میں ایک ماہ اور عادت بدلنے کے لیے کم ازکم تین ماہ درکار ہیں۔ دو عشرے پہلے میں نے چینی ترک کی تو ذیابیطس کے خوف سے نہیں، بلکہ طبی منطق سے قائل ہو کر کی۔ آج ساٹھ برس کی عمر میں بھی اب تک اوپر والے نے ذیابیطس سے بچا رکھا ہے۔ مگر کب تک؟ یہ میں نہیں جانتا۔ روزمرہ پریشانیاں میرے حصے میں بھی اتنی ہی ہیں، جتنی کسی بھی انسان کے حصے میں آتی ہیں۔ مگر ان پریشانیوں کو ذیابیطس کا ایک بڑا سبب بننے سے پہلے ہی چالیس منٹ کی چہل قدمی سے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہوں
ڈاکٹر یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلسل ذہنی پریشانی اور نیند کی اتھل پتھل بھی آپ کے لبلبے پر اثر انداز ہوتی ہے اور پھر جب ایک دن آپ پر حقیقت کھلتی ہے تو پہلی گالی آپ ڈاکٹر کو دیتے ہیں کہ چینی تو میں استعمال نہیں کرتا، پھر شوگر کیسے ہو گئی۔ لہٰذا منا بھائی ایم بی بی ایس کا یہ فارمولا بھی برا نہیں کہ ’’ٹینشن لینے کا نہیں، دینے کا!‘‘
دو ہزار تین کی عراق امریکا جنگ کے دوران ڈیڑھ ماہ قاہرہ میں بھی گذرا۔ یہ شہر نہ رات کو سوتا ہے نہ دن میں.. شام ڈھلے سے فجر تک پرانے قاہرہ کے چائے خانے کھچا کھچ بھرے رہتے ہیں اور قہوے پر قہوہ انڈلتا چلا جاتا ہے۔ مصری کہتے ہیں کہ وہ قہوہ ہی کیا، جس میں اتنی چینی نہ ہو کہ چمچ کھڑا ہو جائے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ذیابیطس مصر کی قومی بیماری قرار دی جا چکی ہے۔ پینتیس فیصد آبادی اس میں مبتلا ہے اور کروڑوں روپے کی چینی اربوں روپے کا علاج کروا رہی ہے۔صرف مصر ہی کیا۔ اگر پورے شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطی کو دیکھا جائے تو ہر چھٹا شخص (تہتر ملین نفوس) ذیابیطس کا شکار ہے
اس قدر بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر سال کی طرح اس بار بھی چودہ نومبر کو عالمی یومِ ذیابیطس منایا گیا۔ اس موقعے پر بین الاقوامی ڈائبیٹک فیڈریشن (آئی ڈی ایف) کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر دسواں شخص (پانچ سو سینتیس ملین) ذیابیطس میں مبتلا ہے۔ یہ تعداد دو ہزار انیس کے مقابلے میں انیس فیصد بڑھی ہے۔ ان میں سے ایک سو چالیس ملین چین میں ، چوہتر ملین بھارت میں اور تینتیس ملین پاکستان میں ہیں۔ یعنی ذیابیطس کی عالمی رینکنگ میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ اضافی طور پر گیارہ ملین پاکستانی امپیریڈ گلوکوز ٹولرینس (آئی جی ٹی) کا شکار ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ کسی بھی وقت ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے لیے بالکل تیار ہیں!
ایک چوتھائی سے زائد (چھبیس اعشاریہ نو فیصد) کو معلوم ہی نہیں کہ وہ ذیابیطس میں جکڑے جا چکے ہیں۔ ایسے مریض جو علاج درمیان میں چھوڑ دیتے ہیں وہ امراضِ قلب ، گردوں کے ناکارہ پن ، نابینگی اور پیر یا ٹانگ کٹنے کے خطرات کے لیے صلائے عام بن جاتے ہیں۔ ان حالات میں اہلِ خانہ کے لیے مریض کی طبی و دیکھ بھالی مالیاتی و جذباتی قیمت کس قدر ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں!
ہر سال پاکستان میں چار لاکھ اموات ذیابیطس کے سبب ہوتی ہیں۔ ہر چوتھا پاکستانی اس میں مبتلا ہے یا مبتلا ہوا چاہتا ہے۔ یعنی دو ہزار انیس سے اب تک ذیابیطس کے شکار مریضوں کے تخمینے میں ستر فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ ان میں سے چالیس فیصد یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ مبتلا ہیں۔ کیونکہ نہ تو طبی سہولتیں کافی ہیں اور جہاں ہیں بھی، وہاں ہر شخص اپنا معالج خود بن کے ذیابیطس سے بھی خطرناک مرض یعنی خود تشخیصی میں مبتلا ہے۔ یہ افلاطون تب ہی طبی معائنے پر راضی ہوتا ہے، جب جسم جوتا پکڑ کے مارنا شروع کردے
اس برس انسولین کی دریافت کی صدی مکمل ہو گئی، مگر سو برس بعد بھی ذیابیطس میں مبتلا ہر دوسرے شخص کی انسولین تک یا تو رسائی نہیں یا وہ اسے خریدنے سے قاصر ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کی نوے فیصد عالمی آبادی ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ہے۔ اس کے موٹے موٹے اسباب میں غربت، گنجانیت سے جڑے مسائل ، جسمانی ورزش کی اہمیت نہ جاننا ، موٹاپا اور توندیلا پن بتائے جاتے ہیں۔ ذیابیطس کی فوری تشخیص ہو سکے تو اسے پسپا بھی کیا جا سکتا ہے یا ذیلی اثرات کو کم سے کم سطح پر رکھا جا سکتا ہے
دو ہزار اکیس میں ذیابیطس سے جڑے مسائل کے علاج معالجے کے عالمی اخراجات نو سو چھیاسٹھ ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ یعنی پچھلے پندرہ برس میں ان اخراجات میں تین سو سولہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ہماری توجہ گزشتہ دو برس سے کوویڈ سے ہونے والی ہلاکتوں پر ہے۔مگر اس حقیقت کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی کہ دو ہزار اکیس میں اکتوبر تک سڑسٹھ لاکھ افراد ذیابیطس یا اس کے سبب ہونے والی جسمانی پیچیدگیوں سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ل
کیا اب بھی کوئی یہ ماجرا پڑھ کے کہے گا کہ ’’سب سے پہلے تو گھبرانا نہیں ہے۔‘‘
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس