ریاض : سعودی عرب نے ایک اور حیرت انگیز شہر بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے، جو آٹھ کونوں کے منفرد ڈیزائن والا شہر ہوگا اور بحیرہ احمر میں تیرے گا
سعودی حکومت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق أوكساجون نامی یہ شہر اس سے قبل شروع کیے گئے نیوم پراجیکٹ کا حصہ ہوگا
واضح رہے کہ نیوم سعودی عرب کی تاریخ کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ ہے جو پانچ سو ارب ڈالرز کی لاگت سے تعمیر کیا جا رہا ہے
دو سال قبل شروع کیے گئے نیوم کے بارے میں کہا گیا تھا کہ شہر ایسا ہوگا جو دنیا میں کبھی تعمیر نہیں ہوا ہوگا. وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ میں نیوم کے بارے میں دعویٰ کیا تھا کہ یہاں روبوٹس کی تعداد انسانوں سے زیادہ ہوگی جبکہ ہولوگرام ٹیچرز جینیاتی طور پر تدوین شدہ طالبعلموں کو تعلیم دیں گے
اب نیوم کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر حال ہی میں اعلان شدہ أوكساجون کی ایک دنگ کردینے والی کانسیپٹ وڈیو شیئر کی گئی ہے
تعمیر مکمل ہونے پر یہ سمندر میں تیرنے والا دنیا کا سب سے بڑا اور حیرت انگیز انسانی اسٹرکچر ہوگا
بیان کے مطابق یہ خطے میں لاجسٹک ہب ثابت ہونے والی
دنیا کی پہلی خودکار بندرگاہ بھی ہوگی
تاہم فی الحال یہ تفصیلات نہیں بتائی گئیں کہ اس شہر کی تعمیر کی لاگت کیا ہوگی یا شہر کس طرح سمندر میں تیرنے کی صلاحیت رکھتا ہوگا
واضح رہے کہ بحیرہ احمر دنیا کی مصروف ترین تجارتی راستوں میں سے ایک ہے۔ یہاں تعمیر ہونے والا نیوم سعودی عرب کے ویژن 2030ع کا حصہ ہے اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے مطابق اس منصوبے کے تحت بحیرہ احمر میں اتنا بڑا پل بھی تعمیر کیا جائے گا، جو کہ اس نئے شہر کو مصر، اردن اور افریقہ کے باقی حصوں سے ملا دے گا اور اس طرح دنیا میں پہلی بار تین ممالک کا پہلا خصوصی زون قائم ہوگا
اب نئے شہر کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں سعودی ولی عہد نے کہا ہے کہ أوكساجون نیوم کی اقتصادی ترقی اور تنوع کا مرکز ثابت ہوگا، جس سے ہمارے ویژن 2030 کے عزائم کو پورا کرنے میں مدد ملے گی
ان کا کہنا تھا کہ یہ سعودی عرب کی تجارت اور معیشت کے لیے اہم کردار ادا کرے گا اور عالمی تجارت کے لیے ایک نیا مرکز ثابت ہوگا
اس سے قبل 2021ع کے آغاز میں بھی سعودی ولی عہد نے ایک ایسے منفرد شہر کو تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا، جس میں گاڑیاں یا سڑکیں نہیں ہوں گی
اس شہر کو دی لائن کا نام دیا گیا ہے، دی لائن بھی سعودی عرب کے پانچ سو ارب ڈالرز کے اسمارٹ سٹی منصوبے نیوم کا ہی حصہ ہوگا
اس نئے شہر کی تعمیر کا مقصد مستقبل کی آبادیوں کو ہائپر کنکٹ کرنا ہے
سعودی ولی عہد کے مطابق دی لائن میں الٹرا ہائی اسپیڈ ٹرانزٹ سسٹم، خودکار ڈرائیونگ والی گاڑیاں اور ایسا شہری لے آؤٹ ہوگا جو بنیادی سہولیات جیسے اسکول اور طبی مراکز رہائشیوں تک پہنچائے گا
ان سب مقامات پر کسی بھی جگہ سے پانچ منٹ تک پیدل چل کر پہنچنا ممکن ہوگا اور کوئی بھی سفر بیس منٹ سے زیادہ طویل نہیں ہوگا
سعودی اعلان کے مطابق اس شہر میں دس لاکھ افراد رہائش پذیر ہوں گے، جو 170 کلو میٹر رقبے پر پھیلا ہوگا اور ماحول دوست توانائی سے اس کی ضروریات پوری کی جائیں گی
أوكساجون سے پہلے شروع کیے گئے نیوم شہر کے متعلق
نیوم شہر کے منصوبے کا اعلان نومبر 2017 میں ہوا تھا. نیوم کے بارے میں جو تفصیلات جاری کی گئی تھیں، وہ حیرت زدہ کر دینے والی ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کسی سائنس فکشن سے کم نہیں اور یقین کرنا مشکل ہے کہ حقیقی زندگی میں ایسا ہونا ممکن ہوگا
نیوم شہر میں کلاﺅڈ سیڈنگ (مصنوعی بارش) ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی، کیونکہ نیوم کا تجویز کردہ مقام ساحل پر واقع ہے جس کے ارگرد صحرا ہے، اس لیے وہاں موسم کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے کلاﺅڈ سیڈنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے بارش کے برسنے کو یقینی بنایا جائے گا.
نیوم شہر میں کیمرے، ڈرونز اور چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کا بہت زیادہ استعمال ہوگا
نیوم میں جینیاتی تدوین کے منصوبے پر بھی کام ہوگا اور جاپان کا سافٹ بینک ‘زندگی سے موت تک کے ایک نئے طرز زندگی’ کو تشکیل دیا جائے گا، جس کے لیے جینز میں تبدیلی لاکر انسانی مضبوطی اور ذہانت کو بڑھایا جائے گا
نیوم شہر میں گھر کا ہر کام روبوٹ ملازمین کریں گے، روبوٹس کے درمیان کیج فائٹس بھی لوگوں کی تفریح کے لیے ہوں گی جبکہ روبوٹ ڈائناسور سے بھرے ایک امیوزمنٹ پارک کو بھی تعمیر کیا جائے گا
اس خطے کے گورنر شہزادہ فہد بن سلطان نے اس شہر کی تعمیر کے حوالے سے ہونے والے ایک اجلاس میں کہا تھا ‘میں کوئی شاہراہ نہیں چاہتا، ہم 2030 تک اڑنے والی گاڑیاں چاہتے ہیں’، ایک اور دستاویز میں لکھا ہے کہ ڈرائیونگ صرف تفریح کے لیے ہوگی، ٹرانسپورٹیشن کے لیے نہیں
نیوم شہر کے لیے ایک مصنوعی چاند کی تجویز بھی دی گئی تھی، جو کہ ممکنہ طور پر ڈرونز کے فلیٹ یا خلا سے لائیو اسٹریم امیجز کی مدد سے تیار کیا جائے گا
خیال رہے کہ اکتوبر 2017 میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بحیرہ احمر کے ساحلی علاقے میں 500 ارب ڈالرز کی لاگت سے نئے شہر کی تعمیر کا اعلان کیا تھا، جو موجودہ حکومتی فریم ورک سے آزاد خودمختار حیثیت میں کام کرے گا
ان کے بقول اس نئے شہر میں توانائی کی ضروریات کلین انرجی سے پوری کی جائیں گی اور وہاں روایتی اقدار کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی
اس منصوبے کے لیے ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں شہر کا جو طرز زندگی دکھایا گیا ہے وہ سعودی عرب کے موجودہ کلچر سے بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ یعنی خواتین عام ملبوسات میں عوامی مقامات میں جاگنگ کررہی ہیں، مردوں کے ساتھ کام اور موسیقی کے آلات بجا رہی ہیں
کچھ ”دی لائن“ شہر کے بارے میں :
نیوم شہر کا منصوبہ پیش کرنے کے کچھ عرصے بعد سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک اور منفرد شہر تعمیر کرنے کا اعلان بھی کیا تھا، جس میں گاڑیاں یا سڑکیں نہیں ہوں گی
اس شہر کو دی لائن کا نام دیا گیا، یہ شہر بھی سعودی عرب کے پانچ سو ارب ڈالرز کے اسمارٹ سٹی منصوبے نیوم کا حصہ ہوگا
اس نئے شہر کی تعمیر کا مقصد مستقبل کی آبادیوں کو ہائپر کنکٹ کرنا بتایا گیا تھا
سعودی ولی عہد کے مطابق ”دی لائن“ میں الٹرا ہائی اسپیڈ ٹرانزٹ سسٹم، خودکار ڈرائیونگ والی گاڑیاں اور ایسا شہری لے آؤٹ ہوگا جو بنیادی سہولیات جیسے اسکول اور طبی مراکز رہائشیوں تک پہنچائے گا، ان سب مقامات پر کسی بھی جگہ سے پانچ منٹ تک پیدل چل کر پہنچنا ممکن ہوگا اور کوئی بھی سفر بیس منٹ سے زیادہ طویل نہیں ہوگا
سعودی اعلان کے مطابق اس شہر میں دس لاکھ افراد رہائش پذیر ہوں گے جو 170 کلو میٹر رقبے پر پھیلا ہوگا اور ماحول دوست توانائی سے اس کی ضروریات پوری کی جائیں گی
اعلان میں بتایا گیا تھا کہ یہ شہر قدرت پر توجہ مرکوز کرے گا جس کی سطح پر پیڈسٹرین لیئر اور 2 اضافی لیئرز ہوں گی. جبکہ انفراسٹرکچر اور ٹرانسپورٹ سطح کے نیچے ہوں گے
حکام کے مطابق اس شہر میں اے آئی ٹیکنالوجی مانیٹرنگ کرے گی، جس کے لیے ڈیٹا اور ماڈلز کو استعمال کرکے روزمرہ کی زندگی کو بہتر بنانے کے ذرائع کا تعین کرے گی
بتایا گیا تھا کہ اس شہر کی تعمیر پر 180 ارب سعودی ریال خرچ کیے جائیں گے جبکہ 3 لاکھ 80 ہزار ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے.