پاکستان نے بنگلادیش کو وائٹ واش کر دیا، شاہنواز ڈاھانی کا ڈیبیو، پہلے ہی اوور میں وکٹ

نیوز ڈیسک

ڈھاکا : بنگلاديش کے دارالحکومت ڈھاکا میں کھیلی گئی تین ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کا آخری میچ جیت کر پاکستان نے سیریز اپنے نام کرتے ہوئے بنگلادیش کو وائٹ واش کر دیا

بنگلاديش نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستان کو 125 رنز کا ہدف دیا، جسے پاکستان نے پانچ وکٹوں کے نقصان پر آخری بال پر حاصل کیا

حیدر علی نے جارحانہ کھیل کا مظاہرہ کیا اور 45 رنز کی اننگز کھیلی تاہم آخری اوور میں جب پاکستان کو 8 رنز درکار تھے وہ آؤٹ ہوگئے جس کے بعد مزید ایک وکٹ گرنے سے قومی ٹیم دباؤ کا شکار ہوگئی، بنگلادیشی بولر نے آخر اوور میں تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تاہم محمد رضوان نے بیسویں اوور کی آخری گیند پر چوکا مار کر پاکستان کو فتح دلا دی

آج کے میچ کی اہم بات شاہنواز ڈاھانی کا ڈیبیو تھا، جنہیں ایک طویل انتظار کے بعد بالآخر آج کھیلنے کا موقع دیا گیا

قومی ٹیم میں ڈیبیو کرنے والے فاسٹ بولر شاہنواز ڈاھانی نے اپنے پہلے ہی اوور کی تیسری بال پر وکٹ لے کر ٹی ٹوئنٹی انٹر نیشنل میں اپنی وکٹوں کا کھاتہ کھولا، تاہم وہ دوسری وکٹ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکے

میچ سے قبل شاہنواز ڈاھانی نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اپنی تصویر شیئر کی، جس میں وہ قومی کرکٹ ٹیم کی کِٹ میں ملبوس تھے

ٹوئٹر پر اپنی تصویر شیئر کرتے ہوئے شاہنواز ڈاھانی نے لکھا کہ ’الحمداللّہ! آج میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنے جا رہا ہوں۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ ’یہ سب میری والدہ کی دعاؤں سے ہوا، مجھ سے محبت کرنے اور میری حمایت کرنے کے لیے آپ سب کا شکریہ، اور دعا کریں کہ میں اپنے ملک کا فخر بنوں۔‘

جب کہ اس سے قبل پی سی بی نے انہیں پلینگ الیون کا حصہ بنانے کی تصدیق کرتے ہوئے ایک وڈیو بھی جاری کی، جس میں وہ اپنی والدہ سے بلوچی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے میچ کھیلنے کی نوید سناکر دعائیں لے رہے تھے

شاہنواز ڈاھانی صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ کے ایک نواحی گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے بڑی محنت سے کرکٹ کی دنیا میں اپنا مقام بنایا ہے

وہ کھیتی باڑی میں اپنے والد اور بھائی کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ مگر انہیں جب بھی موقع ملتا وہ ٹیپ بال سے کرکٹ کھیلنا شروع کر دیتے۔ والد کو ان کا کرکٹ کھیلنا پسند نہیں تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر سرکاری افسر بنے

مگر شاہنواز ڈاھانی کے لیے ایک اور مشکل یہ بھی تھی کہ ان کے والد گھر میں ٹی وی کے بھی سخت خلاف تھے، کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ گھر میں ٹی وی آیا تو بیٹا پڑھائی چھوڑ کر کرکٹ دیکھنے میں لگ جائے گا

شاہنواز ڈاھانی نے والد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے بی کام کیا، لیکن سرکاری افسر بننے کے بجائے کرکٹ سے اپنا تعلق نہ صرف قائم رکھا بلکہ اسی میں اپنا مستقبل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ آج وہ پاکستان کرکٹ ٹیم میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں

کچھ عرصہ قبل بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شاہنواز ڈاھانی کا کہنا تھا کہ ʹگاؤں میں ہماری کچھ زمینیں ہیں جن پر ہم گندم اور چاول کاشت کرتے ہیں۔ اسی طرح باغ ہے جہاں امرود پیدا ہوتے ہیں۔ میں نے گاؤں میں ٹیپ بال سے اپنی کرکٹ کی ابتدا کی۔ میرے ساتھیوں کو میرا انتظار ہوتا تھا کہ میں کب کھیتی باڑی ختم کروں تاکہ کرکٹ کھیل سکیں۔ وہ مجھے بلانے کے لیے کسی کو سائیکل یا موٹرسائیکل پر بھیجتے تھے۔ʹ

شاہنواز ڈاھانی کے مطابق ʹایک دن لاڑکانہ ریجنل کرکٹ کے ایک عہدیدار گاؤں میں آئے اور میری بولنگ دیکھ کر مجھے لاڑکانہ انڈر 19 کے ٹرائلز میں آنے کی دعوت دی۔ میں جب ٹرائلز دینے کے لیے گیا تو میرے پاس جوتے اور جرابیں نہیں تھیں جو میرے دوست نے مجھے دیں۔ میں نے اس وقت تک ہارڈ بال سے کرکٹ نہیں کھیلی تھی لیکن میں نے ٹرائلز میں کامیاب ہو کر انٹرڈسٹرکٹ ٹورنامنٹ کھیلا۔‘

شاہنواز ڈاھانی نے اپنی کلب کرکٹ لاڑکانہ کے الشہباز کلب کی طرف سے کھیلی۔ ان کے بڑے بھائی پولیس میں سپاہی ہیں جنہوں نے والد کے انتقال کے بعد شاہنواز کو کرکٹ کھیلنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ ان کی کھیل اور تعلیم کے سلسلے میں ہر ممکن رہنمائی کی

رواں سال ہونے والی پاکستان پریمئر لیگ (پی ایس ایل 6) میں جس کھلاڑی نے سب کی توجہ حاصل کی، وہ بائیس سالہ فاسٹ باؤلر شاہنواز ڈاھانی تھے، انہوں نے اپنی کارکردگی سے سب کو متاثر کیا

شاھنواز ڈاھانی کو ملتان سلطانز نے اس سال کے شروع میں PSL6 ڈرافٹ میں ابھرتے ہوئے کھلاڑی کے طور پر منتخب کیا تھا، اور پشاور زلمی کے خلاف کھیل کے دوران سلطانز کے لیے ڈیبیو کیا تھا

شاہنواز ڈاھانی نے اپنے ایک اور انٹرویو میں بتایا تھا کہ میں تیز گیند بازی کا شوقین تھا اور اپنے گاؤں میں اپنی تیز گیند بازی کے لیے جانا جاتا تھا، اسی لیے وہاں بہت سے لوگوں نے مجھے 3G باؤلر کا نام دیا تھا

ڈاھانی نے بتایا کہ میرے گاؤں میں دوست برق رفتاری کی وجہ سے مجھے تھری جی بولر کہتے تھے اور یہ تھری جی کا ٹائٹل تیز انٹرنیٹ سروس سے متاثر ہوکر دیا گیا تھا۔‘

ڈاھانی کا کہنا تھا کہ میرے والد اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ آج مجھے اپنے گاؤں کا چہرہ بنتے اور نام روشن کرتے ہوئے دیکھ کر بہت فخر محسوس کر رہے ہوں گے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close