اسلام آباد : عالمی مالیاتی ادارے اور پاکستان کے درمیان اسٹاف لیول پر قرض کا معاہدہ بالآخر طے پاگیا ہے
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹاف لیول معاہدے کا مطلب یہ ہے، کہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا معطل شدہ پروگرام بحال ہو گیا ہے
واضح رہے کہ دونوں فریقین کے درمیان گذشتہ کئی مہینوں سے اس پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات چل رہے تھے
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعلامیے کے مطابق اب اس معاہدے کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا، جس کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو 1.059 ارب ڈالر کی قسط جاری کر دی جائے گی
اس قسط کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف سے جاری کیے جائے والے فنڈز کی مجموعی رقم 3.027 ارب ڈالر ہو جائے گی
آئی ایم ایف معاہدہ پاکستان کے لیے اس صورت میں بھی معاون ثابت ہوگا کہ اس کے بعد پاکستان کو دوسرے بین الاقوامی اداروں سے بھی فنڈنگ آ سکے گی
واضح رہے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جولائی 2019 میں چھ ارب ڈالر کی ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) کا معاہدہ ہوا تھا، جس کے تحت پاکستان کو تین سال سے زائد کے عرصے میں چھ ارب ڈالر کی رقم بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی جانب سے قسطوں میں ملنی تھی
تاہم گذشتہ ڈیڑھ سال سے پروگرام پر صحیح طور پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے دو سال میں صرف دو ارب ڈالر کی رقم پاکستان کو مل سکی ہے
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان چھٹے نظر ثانی اجلاس کے بعد ایک ارب ڈالر کی رقم پاکستان کو ملے گی
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی ایک رپورٹ کے مطابق عارف حبیب لمٹیڈ میں ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹیو بورڈ کا اجلاس دسمبر کے وسط میں ہوگا، جس کے بعد پاکستان کو 1.05 ارب ڈالر کی قسط جاری ہو جائے گی
انہوں نے بتایا کہ اس پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کی جن شرائط کو مانا گیا ہے، اس کا ذکر اس اعلامیے میں نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے ایک الگ سے دستاویز جاری کی جائے گی، جو کہ ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس سے پہلے جاری ہوگی
معاشی امور کے صحافی شہباز رانا نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس سے پہلے پاکستان کو پیشگی اقدامات اٹھانے پڑیں گے تاکہ وہاں سے منظوری اور قسط جاری ہو سکے۔ ان اقدامات میں منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا ترمیمی بل بھی شامل ہو سکتا ہے
شہباز رانا نے کہا کہ پیشگی اقدامات میں تقریباً چار سو ارب کے لگ بھگ اضافی ٹیکس اور ملک کے پبلک سیکٹر ڈولپمنٹ پروگرام میں دو سو ارب روپے کٹوتی شامل ہیں
یاد رہے کہ پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اگست 2018ع میں اقتدار میں آنے سے پہلے گذشتہ حکومت کے آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے پروگرام کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا
تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی چند مہینوں میں آئی ایم ایف پروگرام میں شامل نہ ہونے کی پالیسی اختیار کی گئی، تاہم بعدازاں ملک کے بڑھتے ہوئے ادائیگیوں کے عدم توازن کی وجہ بتا کر پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا
البتہ معاہدے کی شرائط پر کچھ تحفظات کی وجہ سے اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کو اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہونا پڑا اور ان کی جگہ ٹیکنوکریٹ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ کا منصب سنھبالنے کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو حتمی شکل دی، جس کے تحت جولائی 2019ع میں معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوا
اسلام آباد میں مقیم معاشی امور کے صحافی ظہیر عباسی نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام سے معاہدہ پاکستان کی مجبوری تھی کیونکہ اس وقت پاکستان کے بیرونی فناننسگ کے سارے ذرائع بند تھے اور بیس ارب ڈالر کے تاریخی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نمٹنے اور بیرونی ادائیگیوں کے لیے اس وقت یہ ڈیل بہت ضروری تھی
ظہیر عباسی نے بتایا کہ سعودی عرب اور چین سے ملنے والے ڈیپازٹس نے تھوڑی بہت مدد تو فراہم کی لیکن وہ مسئلے کا حل نہیں تھا، کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام میں شرکت کے بعد دوسرے عالمی مالیاتی ادارے یعنی عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک بھی فناننسگ جاری کرتے ہیں اور بین الاقوامی بانڈ مارکیٹ میں ملک کی کریڈٹ ریٹنگ بھی بہتر ہوتی ہے
ماہرین کے مطابق جب ملک میں آنے والی ساری انکم کو ٹیکس نہیں کیا جائے گا اور توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ بڑھتے رہیں گے تو پھر لازمی طور پر آئی ایم ایف یہ شرائط رکھے گا کہ مختلف اقدامات جیسا کہ ٹیکسز لگا کر کے بجٹ خسارہ کم کریں. اس صورتحال میں ایک بار پھر اس خدشے نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے کہ کیا آئی ایم ایف کے اس قرضے کے لیے ٹیکسوں کے نام پر عوام کا مزید خون نچوڑا جائے گا؟