دس سال تک خاکروب کا کام کرنے کے بعد جس روز پستہ قد، جھریوں کے مجموعے، بوڑھے ہَئَیلو کو کام سے نکال دیا گیا، اس سے اگلے دن وہ پہلی مرتبہ محلے میں گھوڑا گاڑی کے بغیر داخل ہوا۔ کانوں سے نیچے تک ڈھلکی ہوئی سرکاری ٹوپی، ایک بڑے سائز کا کوٹ، جس کے کندھے دونوں طرف سے ڈھلکے ہوئے تھے، گھسی پٹی پرانی پتلون اور گھسی ہوئی ایڑیوں والے بھاری بھر کم فوجی بوٹ پہنے وہ محلے کے عین مرکز میں پہنچ کر رک گیا…
دس سال، دس لمبے سال ہر روز صبح کے وقت اپنے گھوڑے کی باگ کھینچے وہ آہستہ آہستہ اس محلے میں داخل ہوتا۔ محلے والوں کی کوئی بات اس سے چھپی ہوئی نہ تھی۔ وہ ایک ایک کر کے تمام گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتا، ”کچرا ہے یا نہیں ہے؟“ کہہ کر پوچھتا، اگر ہوتا تو اٹھا لیتا، ورنہ اسے انتظار کروا کر کچھ دیر بعد ”نہیں ہے، ہمارا کوڑا کرکٹ نہیں ہے!“ کہنے والوں پر بھی کبھی غصہ نہ ہوتا..
اس طرح وہ کئی سخت تپتی گرمیاں، آندھی طوفانوں اور پالے والی کئی سردیاں گزار چکا تھا۔ اسی طرح کے ایک سردی کے موسم میں اس کی بیوی مر گئی تھی۔ اس کے تینوں بیٹے بھی اسی طرح کی سردی کے موسموں میں اسے بلدیہ کے اصطبل میں چھوڑ کر روٹی کی تلاش میں پردیس چلے گئے تھے اور کئی سال ہوئے اسے خستہ حال اصطبل میں ہی بھول بھال گئے تھے۔ مگر اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہ تھی…
گرم گرم گوبر کی بو والے اس اصطبل سے آج وہ کتنی زبردست حسرتیں لیے جدا ہو رہا تھا۔ اس کی گھوڑی کی پیاری یُومش اسی اصطبل میں اس کے ہاتھوں میں پیدا ہوئی تھی اور اسی کے کھر کھرے تلے اسی اصطبل میں بڑی ہوئی تھی..
اسے یومش سے کس قدر پیار تھا! یومش بالکل انسانوں کی طرح تھی۔ ”رک جاؤ“ کہنے سے رک جاتی، ’’واہ‘‘ کہنے سے پھر چلنے لگ جاتی۔ یومش کی ماں کا نام بَونجُک تھا۔ بونجک کی ماں مرجان تھی اور مرجان کی ماں سَؤت.. مگر یومش سے بڑھ کر کوئی بھی نہ تھی.. ”یومش“ کہو تو رک جاتی، پلٹ کر دیکھتی تھی۔ جس روز اس کا پاؤں دہرا ہو گیا تھا، اس رات وہ کیسے فریادیں کرتی رہی، اپنی سرمئی آنکھوں سے کیسے اشک بہاتی رہی تھی! یومش بالکل انسانوں جیسی تھی.
اس کے دماغ میں اچانک ایک خیال آیا۔ ”اگر بولو (اناطولیہ شہر کا ایک چھوٹا قصبہ) والے نے چاندی کی پٹائی کر دی تو!“
یہ خیال آتے ہی اس کے ابرو تن گئے۔ اس نے اپنی سرکاری ٹوپی سر سے اتار کر ہاتھ میں پکڑ لی۔
”مارے گا۔… وہ اسے ضرور مارے گا!“ اس نے اپنے آپ سے کہا۔
اس نے غصے سے محلے کی طرف نظر دوڑائی۔ بھلا اس محلے والے کیوں صبح جلدی نہیں جاگا کرتے تھے؟ اگر وہ جاگ اٹھتے اور انہیں پتہ چل جاتا کہ ہَئیلو کو نکال دیا گیا ہے تو وہ مل کر بلدیہ کے میئر کے پاس جا کر کہتے: ”بولو والے کو خاکروب کے کام کی کیا سمجھ بھلا؟ وہ تو ابھی ہاتھ میں کھر کھرا بھی ٹھیک سے پکڑ سکتا۔ ہئیلو ہمارا دس سال پرانا خاکروب ہے۔ یومش اس کے ہاتھوں میں پیدا ہوئی تھی۔ ہم اس کے علاوہ کسی کو اپنا خاکروب نہیں بننے دیں گے۔ ممکن ہی نہیں… کسی اور کو نہیں بننے دیں گے.. خاکروب ہو گا، تو ہئیلو ہو گا، ورنہ نہیں چاہیے ہمیں کوئی اور خاکروب..!“
اگر وہ اپنی بات پر ڈٹے رہیں تو بلدیہ کا میئر صفائی کے کاموں کے ڈائریکٹر کو بلوا کر کہے کہ: ”ہئیلو کو تم نے کام سے کیوں نکال دیا ہے؟ ہئیلو اس محلے کا دس سال پرانا خاکروب ہے۔ یومش اس کے ہاتھوں میں پیدا ہوئی تھی۔ بولو والا تو ابھی ہاتھ میں کھر کھرا بھی اچھی طرح نہیں پکڑ سکتا.. تو بولو والے کو نکال دو اور ہئیلو کو رکھ لو۔ چلو جلدی کرو.. ابھی..!“
اس کے دل میں ایک امید ابھری۔ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس کے جھریوں والے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
یہ سب کچھ ناممکن بھی تو نہیں تھا۔ وہ محلے کے تمام گھروں کی دہلیزوں اور کنڈیوں کو، کوڑے کے ڈبوں کو، یہاں تک کہ محلے کے کتوں اور بلیوں کو بھی خوب اچھی طرح سے جانتا تھا۔ ایسے میں کیا اس محلے والے ہئیلو کے بغیر گزارہ کر لیں گے؟ اس محلے میں تو اتنے بڑے بڑے لوگ رہتے ہیں، کہ بلدیہ کا میئر بھی انہیں انکار نہیں کر سکے گا..
”ٹھہرو ذرا تم“ اس نے اپنے آپ سے کہا، ”وہ کہتے ہیں ناں، اگر گرمیاں ہیں تو خزاں بھی تو ہے… اگر بولو والے کا پیچھا مضبوط ہے تو میرا بھی تو…“
سامنے کے کونے میں محلے کا بھنگی دکھائی دے رہا تھا۔ وہ ایک لمبے ڈنڈے والے جھاڑو سے علاقے کی گرد صاف کرتے کرتے گلی کی اینٹوں پر جھاڑ و دے رہا تھا۔ ہئیلو اس کے پاس گیا اور بولا :
”تمہارا کام آسان ہو!“
بھنگی نے جواب دیا ”شکریہ ہئیلو چاچا! تمہاری گاڑی کہاں ہے..؟“
ہیلو نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا ”انہوں نے لے لی ہے“
”لے لی ہے!؟ کہیں کام سے تو نہیں نکال دیا..؟“
”نکال دیا ہے.“
”تو تمہاری جگہ کسے رکھا ہے؟“
”ہے ایک.. مگر تم ذرا ٹھہرو۔“
”تو گویا یہ بات ٹھیک ہی ہے۔ ہمارے اِیبَو نے بتایا تھا مگر مجھے یقین نہیں آیا تھا۔ بڑا افسوس ہے۔ ہئیلو چاچا، بڑا افسوس ہے!“
‘‘اِیبو نے بتایا تھا تمہیں؟“
”اِیبو نے ہی بتایا تھا، بیچارے نے بڑے افسوس سے بتایا تھا.. اسے بڑا دکھ ہو ا تھا، بہت زیادہ۔“
”اِبو اچھا بچہ ہے۔ جوانمرد بچہ ہے۔“
”تو اب تم کیا کام کرو گے؟“
”میں کیا کام کروں گا؟ ٹھہرو ذرا۔ اللہ کریم ہے“ اس نے پھر محلے پر نظر دوڑائی اور بولا
”اس محلے کے لوگ… کیا تم جانتے ہو اس محلے کو؟ اس محلے کے لوگ بولو والے کو کسی حالت میں کوڑا کرکٹ نہیں اٹھانے دیں گے۔ توبہ کرو! جانتے ہو کیوں..؟ وہ تو ابھی گھوڑی کے کھرکھرے کو بھی ٹھیک طرح نہیں پکڑنا جانتا!کیا محلے والے نہیں جانتے یہ بات؟ اس محلے میں میرے اتنے حمایتی لوگ ہیں کہ…“
اتنے میں ان کے قریب کے ایک گھر کا دروازہ کھلا اور پھر بند ہو گیا۔ ہئیلو نے کہا ”آہا! ہمارے ایڈوکیٹ صاحب تھے“
اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ ایک امید، ایک بھرپور روشنی کی کرن۔ یہ وکیل صاحب بڑی میٹھی زبان والے ہنس مکھ آدمی تھے۔ عید کے موقع پر دل کھول کر بخشش دیا کرتے تھے۔ ایک عید پر تو انہوں نے اسے وہ سگریٹ بھی عنایت کئے تھے جن کا ایک سرا سنہری ہوتا ہے۔ وہ بولا: ”یہ جو ایڈوکیٹ صاحب ہیں ناں.. یہ اتنا کچھ جانتے ہیں کہ تمہارا بلدیہ کا میئر بھی اس کے سامنے ادب سے کھڑا ہو جاتا ہے!“
بھنگی ”کیا واقعی ہئیلو چاچا؟ ویسے یہ بڑے لوگ یہ سب کہاں سے سیکھتے ہیں؟“
ہیلو کی آنکھیں جگمگا اٹھیں، بولا : ”کمانڈروں کے اسکول میں!“
وہ فٹ پاتھ کے سامنے ایک اونچی جگہ پر جا کھڑا ہو گیا اور سر سے ٹوپی اتار دی.
لمبے قد کا، چوڑے کندھے والا وکیل ایک سخت سیب کی طرح چمک رہا تھا، خاکروب ہئیلو اور بھنگی کے آگے سے آہستہ آہستہ گزرتے ہوئے اس نے سر ہلا کر انہیں سلام کیا، مگر کچھ پوچھنے کی زحمت نہ کی۔ ہئیلو ہکا بکا ہو کر وکیل کو پیچھے سے دیکھتا رہ گیا..
بھنگی بولا: ”کم از کم اس کے جوتوں کی چرچراہٹ تو سنائی دینی چاہیے تھی..“
ہئیلو نے کوئی جواب نہ دیا۔ آخر محلہ صرف ایک اس وکیل پر ہی تو مشتمل نہیں تھا… عین اس وقت ایک اور گھر کا دروازہ کھلا۔ ہئیلو اس گھر سے نکل کر باہر آنے والے روئی کے موٹے تازے تاجر کا بھی امید باندھے انتظار کر رہا تھا۔ وہ پھر فٹ پاتھ کے سامنے ایک اونچی جگہ پر جا پہنچا اور ٹوپی اتار کر کھڑا ہو گیا۔ یہ شخص بھی وکیل کی طرح ان دونوں کے سامنے سے گزر گیا۔ اس نے بھی ان سے حال احوال نہ پوچھا، بلکہ ان کی طرف دیکھا تک نہیں..
دروازے کھلتے بند ہوتے رہے، کام کاج پر جانے والے اور طلباء وہاں سے گزرتے رہے، مگر کسی نے اس میں دلچسپی کا اظہار نہ کیا
بھنگی نے ہئیلو سے کہا: ”اپنی جان نہ جلاؤ۔ انشاءاللہ سب ٹھیک ہوجائے گا“
جب وہ یہ کہہ کر وہاں سے روانہ ہو رہا تھا، تب ہئیلو کی تمام امیدوں پر پانی پھر چکا تھا۔ اپنی خالی خالی آنکھوں سے دیر تک محلے کی طرف دیکھتا رہا اور پھر فٹ پاتھ پر جا نکلا۔ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کربیٹھ گیا..
سورج اچھی خاصی بلندی پر پہنچ چکا تھا۔ محلے کی مشرقی جانب والی کھڑکیاں تپ کر سرخ ہو رہی تھیں۔ تنگ گلیوں میں سے ایک گلی کے اندر سے ایک کُبڑی بڑھیا نکلی۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑی سی ٹوکری تھی۔ وہ اپنے آپ سے باتیں کرتی آ رہی تھی کہ اس کی نظر ہئیلو پر جا پڑی، بولی:
”ہیں… یہ کیا!؟ اس شریف آدمی کی گاڑی کہاں گئی؟“
پھر وہ اس کے قریب گئی اور پوچھا: ”تمہاری گاڑی کہاں ہے؟“
ہئیلو نے سر اٹھایا اور بڑھیا کی طرف دیکھا۔ پھر کہنے لگا: ”کوئی نہیں اماں، کوئی نہیں.. اب میرے پاس گاڑی کوئی نہیں ہے..“
”کیوں…؟ کہاں گئی تمہاری گاڑی؟“
”انہوں نے لے لی ہے.. انہوں نے مجھے کام سے نکال دیا ہے..“
”کیوں نکال دیا ہے؟“
”میری جگہ انہوں نے صفائی کے ڈائریکٹر کے ایک آدمی کو رکھ لیا ہے۔“
اس نے بڑھیا کی طرف آخری امید کے ساتھ دیکھا۔ اس کے سامنے آلتی پالتی مارے بیٹھی بڑھیا بولی: ”ٹھیک کہتے ہو! کیا یہ بے جا جانبداری نہیں ہے؟ کیا انہوں نے میرے سادات کو بھی اس کے معمولی سے کام سے نکال کر اس کی جگہ اس سرخ ہونٹوں والی عورت کو نہیں رکھ لیا تھا؟ یہ میں اس لئے نہیں کہہ رہی کہ وہ میرا پوتا ہے.. سادات کی طرح کا شریف اور لائق بچہ کہاں ملتا ہے اس زمانے میں؟ نہ وہ عیش و عشرت کرتا ہے، نہ سگریٹ پیتا ہے، اور نہ ہی اسے کسی بری جگہ سے واقفیت ہے۔ ہمارا یہ معصوم بچہ اپنی تنخواہ میں اضافے کی امید کر رہا تھا۔ اور میں کہتی تھی کہ اس کی اضافے کے ساتھ ملنے والی تنخواہ سے دو بوری کوئلہ لے کر ایک گوشے میں ڈال لیں گے۔ کیونکہ یوں لگتا ہے اس سال غضب کی سردی پڑنے والی ہے۔ کیا تمہیں پتہ ہے غضب کی سردی کیسی ہوتی ہے؟ جب وہ شروع ہوتی ہے تو انسان کی چیخیں نکل جاتی ہیں!“
”کیسے نہیں جانتا میں؟ میری یومش ایسی ہی سخت سردیوں میں پیدا ہوئی تھی۔ اسی سال تو کہتے تھے ناں کہ ٹیلی فون کے تار بھی ٹوٹ گئے تھے۔ زمین پھٹ گئی تھی۔ لیکن اصطبل خوب گرم تھا۔ کیوں بھلا؟ اس لئے کہ میں بیلچے سے گوبر کو ہٹاتا نہیں۔ میں کہتا ہوں اسے یہیں رہنے دو۔ اس سے اصطبل خوب گرم رہتا ہے۔ ایک روز آدھی رات کا وقت تھا کہ اس کی ماں، یہ جو میری یومش ہے ناں.. اس کی ماں کی بات کر رہا ہوں بونجک نام تھا اس کا.. خدا کی حکمت دیکھو.. یہ گھوڑوں کی ذات بھی حاملہ عورتوں کی طرح کراہتی ہے۔ اس رات باہر گھٹنوں تک برف پڑی ہوئی تھی۔ طوفان اتنا شدید کہ یوں لگتا تھا جیسے ابھی اصطبل کو بھی اڑا کر لے جائے گا۔ مگر اصطبل اندر سے خوب گرم تھا! میں ماں کو بتانا چاہتا تھا کہ یہ جو دکھائی دے رہا ہے یہ یومش کا سر ہے۔ مگر تم بیچاری بونجک سے پوچھتی تو پتہ چلتا کہ کس حال میں ہے! اس کی آنکھوں سے آنسو ہی آنسو ٹپک رہے تھے۔ کس طرح دیکھ رہی تھی! پریشان پریشان، مایوس مایوس!“
اس نے پھر اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ وہ اپنے کھلے کھلے کپڑوں میں بالکل ہی چھوٹا سا نظر آرہا تھا
”یومش بلکل انسانوں کی طرح تھی“ یہ کہتے ہوئے اس نے سر ہلایا ”میں اسے کہتا تھا رُک جاؤ، تو وہ رک جاتی تھی، واہ کہتا تھا تو چل پڑتی تھی.. یومش بالکل انسانوں کی طرح تھی.. بات سمجھتی تھی.. نام پکارو تو پلٹ کر دیکھتی تھی۔ یومش روتی بھی تھی، کراہتی بھی تھی، اور ہنستی بھی تھی.. بالکل انسانوں جیسی تھی.. واہ میری بچی واہ!“
اُسے احساس بھی نہ ہوا کہ بڑھیا تو کب کی وہاں سے جا چکی تھی. وہ فٹ پاتھ کا سہارا لے کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ جھریوں سے بھرا، چھوٹا سا بے حال ہئیلو آہستہ آہستہ محلے سے نکل کر چلا گیا…
اورحان کمال
اورحان کمال ترکی کے عظیم مصنفوں میں سے ایک اور جدید ترک ناول کے رحجان ساز ادیب ہیں۔ اُن کا اصل نام محمد رشید اوغتچو تھا۔ وہ 1914ء میں ادانہ ترکی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ترکی کی قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کے رکن منتخب ہوئے۔ 1930ء میں سیاسی سرگرمیوں کے نتیجے میں اُن کے خاندان کو ہجرت کر کے شام جانا پڑا ۔ جس کی وجہ سے ان کے بڑے بیٹے (اورحان کمال) سکینڈری اسکول کی تعلیم مکمل نہ کرسکے۔ اورحان 1930 کی دہائی میں شام میں محنت مزدوری کرتے رہے۔ بعد میں وہ اپنے آبائی قصبے واپس چلے گئے، جہاں انہوں نے کپاس کے کارخانوں میں مختلف نوعیت کی ملازمتیں کیں اور ‘‘فائٹ اگینسٹ ٹیوبر کلاسس فاؤنڈیشن ’’ میں بطور کلرک کام کیا۔ زندگی کا یہ دور ان کی شخصیت سازی میں ان مٹ اثرات چھوڑ گیا۔ انہوں نے 1937ء میں ایک یوگو سلاوین تارکِ وطن کی بیٹی سے شادی کی، فوجی ملازمت کے دوران 1939ء میں انہیں اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے پانچ سال قید کی سزا ہوئی ۔ بُرصہ کی جیل میں ان کی ملاقات ناظم حکمت کے ساتھ ہوئی اور اُن کے نظریات، اورحان کمال کی شخصیت پر اثر انداز ہوئے۔ 1943 میں رہا ہونے کے بعد وہ آدانا میں مختلف کاموں میں مصروف رہے اور اس کے بعد 1951ء میں وہ استنبول منتقل ہوگئے، جہاں انہوں نے قلم کو زندگی کا وسیلہ بنالیا۔ ان کی اہم ترین تصانیف میں روٹی کا جھگڑا، سیل نمبر 72 کے قیدی ، بیکار کے مہ وسال، ہڑتال، بابل کا ٹاور، بے روزگار، باپ کا گھر، جمیلہ اور خانم کا فارم ہاؤس شامل ہیں۔
اورحان کمال ان اوّلین ادیبوں میں سے ہیں، جنہوں نے محنت کش طبقات، بڑے پیمانے پر اربنائزیشن اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد ترکی کے بدلتے ہوئے سماجی ڈھانچے پر لکھنے کا آغاز کیا۔ اورحان کمال کی کہانیوں، ناولوں اور ڈراموں میں جدید ترک ادب میں غالباً پہلی بار کام کرنے والی خواتین کے لیے بھی آواز اٹھائی گئی۔
اُن کی تحریریں عموماً زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگوں کی زندگیوں کا احاطہ کرتی ہیں. اُنہوں نے اپنے تصنیفی دو رمیں 28 ناول اور 19 افسانوی مجموعے تحریرکیے اور اِن میں سے کچھ پر فلمیں اور ڈرامے بھی بن چکے ہیں۔ 2 جون 1970ء کو 55 برس کی عمر میں صوفیہ (بلغاریہ ) میں اُن کا انتقال ہوا، وہ استنبول میں مدفون ہیں.