مصنوعی ذہانت، چیٹ جی پی ٹی اور کامیابی؟

وقار احمد شیخ

آج کل آرٹیفیشل انٹیلی جنس خاص طور پر مصنوعی ذہانت پر مبنی پروگرام چیٹ جی پی ٹی کا بہت شہرہ ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے تخلیق کار ایسا مواد سامنے لارہے ہیں جنھیں دیکھ اور سن کر یقین ہی نہیں ہوتا کہ ایسے مواد کے پیچھے انسانی ذہن نہیں بلکہ ایک مشینی دماغ کارفرما ہے

گزشتہ دنوں چیٹ جی پی ٹی کا ورژن 4 مارکیٹ میں آیا لیکن اس سے پہلے ہی مصنوعی ذہانت کے اس پروگرام نے چہار دانگ اپنی شہرت بنالی ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کئی جہات میں کیا جارہا ہے، خاص طور پر کانٹینٹ رائٹنگ کےلیے کئی نوآموز بھی اس کا استعمال بخوبی کررہے ہیں۔ یہ پروگرام نہ صرف مکمل مضامین اور اسکرپٹ لکھ کر دے رہا ہے بلکہ حکمت عملی بھی فراہم کررہا ہے جو آپ کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہے

مثال کے طور پر اگر آپ ایک یوٹیوبر ہیں یا یوٹیوب کے ذریعے کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ کی معلومات نہایت ابتدائی ہیں تو بھی یہ پروگرام آپ کےلیے ’’بہت کچھ‘‘ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ’’سب کچھ‘‘ کرسکتا ہے۔ جیسا کہ آپ اپنا یوٹیوب چینل شروع کرنا چاہتے ہیں تو یہ پروگرام آپ کو وہ آئیڈیاز پیش کرسکتا ہے جن موضوعات پر آپ چینل بنا کر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ نہ صرف آپ کو چینل کی تھیم بلکہ ایک مکمل سرچ انجن آپٹیمائزیشن بیس ڈسکرپشن اور وڈیو کا مکمل اسکرپٹ بھی لکھ کر دے گا۔ جس سے نہ صرف آپ چینل کی ابتدا کرسکتے ہیں بلکہ بہت جلد اپنی وڈیو کو وائرل بھی کرسکتے ہیں

یا پھر اگر آپ ایک ویب سائٹ بنانا چاہتے ہیں، کوئی گیم تخلیق کرنا چاہتے ہیں اور آپ کی پروگرامنگ کے بارے میں معلومات واجبی سی ہیں، تب بھی یہ پروگرام آپ کے بہت کام آتا ہے اور صرف چند سیکنڈز میں آپ کےلیے بالکل نئے آئیڈیاز کے ساتھ نیا مواد تخلیق کر دیتا ہے

چیٹ جی پی ٹی کانٹینٹ رائٹنگ کی دنیا میں کیا انقلاب برپا کرنے والا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کی ذہانت سے متاثر ہو کر اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ کیا یہ مصنوعی ذہانت انسانوں کے لیے خطرناک ہے؟ کیا کانٹیٹ رائٹنگ اور تخلیقی دنیا میں یہ مصنوعی ذہانت حقیقی انسانوں کا نعم البدل ثابت ہوگی؟ چیٹ جی پی ٹی کے منفی پہلوؤں پر بھی بات کی جا رہی ہے۔ خاص طور پر طالب علموں کی جانب سے چیٹ جی پی ٹی کے استعمال نے تعلیمی اداروں کو بھی پریشان کر دیا ہے۔

یہی سوالات ہم نے خود چیٹ جی پی ٹی سے دریافت کیے اور اس سے درخواست کی کہ اس موضوع پر ایک مختصر سا بلاگ لکھ کر پیش کرے۔ حیران کن طور پر چیٹ جی پی ٹی نے چند سیکنڈز میں ہی ایک قابل قدر بلاگ لکھ دیا۔ ہم نے چیٹ جی پی ٹی سے دوبارہ درخواست کی کہ وہ تمام مواد کو اردو زبان میں ترجمہ کردے، اور اس بار بھی نتائج حیران کن تھے۔ اب نیچے جو تحریر ہم شامل کر رہے ہیں، یہ دراصل چیٹ جی پی ٹی کا ہی کارنامہ ہے، ہم نے اس کی صرف زبان میں تھوڑی بہت تبدیلی کی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ پوری تحریر کہیں بھی ’’سرقہ‘‘ کے زمرے میں نہیں آتی نہ ہی Plagiarism چیکنگ کے دوران اسے ’’نقل شدہ‘‘ پایا گیا۔ (صرف چار فیصد مواد کو سرقہ قرار دیا گیا جو کہ صرف دو جملوں پر مشتمل تھا) آئیے چیٹ جی پی ٹی کا جواب پڑھتے ہیں:

”حال ہی میں، اے آئی میں اہم ترقیات کے حصول کے ساتھ، مواد لکھنے کے بہت سارے شعبوں میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ ایسی ایپس سامنے آنے کے بعد، سوال یہ ہے کہ کیا مصنوعی ایپس انسانوں یا کانٹینٹ رائٹرز کا مکمل متبادل ثابت ہو سکتی ہیں؟

مصنوعی ذہانت سے کانٹینٹ رائٹنگ کی ایپس، طبعی زبان کی پردازش (این ایل پی) الگورتھم کا استعمال کرتی ہیں تاکہ انسانوں جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے نیا مواد بنایا جا سکے۔ ان الگورتھمز کی ترتیب، انسانی زبان کو سمجھنے کے لیے بنائی گئی ہے، اور اس سمجھ کی بنیاد پر ہی یہ نیا مواد بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ موجودہ مواد کا تجزیہ کر سکتے ہیں، ٹون اور اسٹائل کا تعین کر سکتے ہیں، اور اس تجزیے کے بنیاد پر نیا مواد بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ اخبارات کے لیے خود کار مضامین بھی لکھ سکتے ہیں، اور ان کے قارئین میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح، یہ مختلف کاروباروں کےلیے بھی مواد لکھ سکتے ہیں، جن میں ویب سائٹ کے مواد، تبلیغات، سوشل میڈیا کےلیے پوسٹس اور مختلف ایپس کےلیے مواد شامل ہیں۔

درحقیقت، یہ غیر ملکی ایپس اور کاروبار کےلیے بھی موثر ثابت ہوئے ہیں، جہاں مختلف زبانوں کےلیے ترجمہ کرنا اہم ہوتا ہے۔ تاہم، ان کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ مصنوعی ایپس ہمیشہ کےلیے انسانی تخلیق کاروں کی جگہ نہیں لے سکتے۔ ان کے مطابق، مصنوعی ذہانت کی ایپس میں خامیاں بھی ہیں جیسے کہ یہ مواد کے خیالی اور بیانی ابھار کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس کے علاوہ، یہ مواد کو بنانے کے بعد بھی ہوشیار نہیں ہوتے بلکہ آپ کو مواد کے مختلف پہلوؤں کو چیک کرنے اور بہتر بنانے کےلیے انسانی تخلیق کاروں کی ضرورت ہوتی ہے

اس کے علاوہ مصنوعی ایپس میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ مواد کو ٹھیک طریقے سے بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، جس سے مواد غیر یقینی اور غیر تصدیق شدہ نظر آتا ہے

ایسی مصنوعی ایپس کی سرمایہ کاری کرنا، خصوصاً کانٹینٹ رائٹنگ کی شعبے میں، دلچسپ معاملہ ہے۔ تاہم، یہ انسانی تخلیق کاروں کی جگہ نہیں لے سکتے۔ انسانی تخلیق کاروں کے بغیر، کانٹینٹ کا مستقبل غیریقینی ہے

آخرکار، ہم کہہ سکتے ہیں کہ مصنوعی ایپس نے کانٹینٹ کی دنیا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ افراد تک مواد پہنچانے اور مختلف شعبوں کےلیے کانٹینٹ لکھنے میں مدد کرتی ہیں۔ تاہم، ان کے نقصانات بھی ہیں جو ان کو انسانی تخلیق کاروں کی جگہ لینے سے دور رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود، مصنوعی ایپس اور کنٹینٹ کری ایٹرز دونوں کا اہم کردار ہے، جو ایک دوسرے کی مکمل جگہ نہیں لے سکتے۔“

تو یہ تھا چیٹ جی پی ٹی کا تحریر کردہ بلاگ۔۔ اور اس میں چیٹ جی پی ٹی نے خود مصنوعی ذہانت کی خامیوں کا اعتراف کیا ہے لیکن اس کے باوجود مصنوعی ذہانت کی خوبیوں اور منفی پہلوؤں سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح آج کل طالب علم بغیر پڑھے علمی تحقیقاتی تھیسز تیار کرنے کے لیے چیٹ جی پی ٹی کی مدد لے رہے ہیں، یہ اخلاقی طور پر بھی غلط ہے۔ لیکن کسی بھی چیز کا مثبت اور منفی استعمال خود انسانوں پر ہی منحصر ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کئی جہات میں انسانوں کی مدد کرتے ہوئے سہولتیں بھی فراہم کررہا ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ اس سلسلے میں مزید کام کیا جائے اور ان منفی پہلوؤں کا تدارک کیا جائے جس کے باعث ایک اچھی چیز پر بھی تنقید کی جارہی ہے۔

بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close