حال ہی میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق گلاسگو میں ہونے والی اقوامِ متحدہ کی کانفرنس میں توانائی کے حصول کے آلودہ طریقوں کی جگہ شفاف ذرایع سے ’’گرین انرجی ‘‘ کے حصول کی خاطر جو طریقے زیرِ بحث آئے، ان میں جوہری توانائی کا موزوں نا موزوں ہونا بھی شامل تھا۔ ہر فارمولے کی طرح جوہری توانائی کو فروغ یا فروغ نہ دینے کے حق اور مخالفت میں دلائل دیے گئے
لیکن جس طرح ماحولیاتی ٹائم بم بارہ کے ہندسے پر پہنچنے کے لیے آخری ٹک ٹک کر رہا ہے۔ دنیا کے پاس اپنی پسند و ناپسند کی یکجائی کے لیے وقت بہت مختصر رہ گیا ہے۔ تو کیا جوہری توانائی بھی آلودہ توانائی کے مستقل متبادل کی تلاش تک ایک عبوری حل پیش کر سکتی ہے؟
اس وقت جب بھی عالمی جوہری کلب کا ذکر ہوتا ہے صرف جوہری ہتھیاروں سے مسلح نو ممالک کے نام ذہن میں آتے ہیں۔حالانکہ جوہری طاقت کے استعمال کی صلاحیت محض ہتھیار سازی تک محدود نہیں بلکہ توانائی اور طبی میدان میں اس کے استعمالات بھی اچھے خاصے ہیں۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عالمی جوہری کلب کے نو نہیں چونتیس ارکان ہیں
جیسے اسرائیل اور شمالی کوریا کی تحویل میں صرف جوہری ہتھیار ہیں۔ جب کہ سات ممالک امریکا ، روس ، چین ، برطانیہ ، فرانس ، بھارت اور پاکستان کے پاس نہ صرف جوہری ہتھیار ہیں، بلکہ وہ توانائی سمیت دیگر شعبوں میں بھی جوہری صلاحیت کا استعمال کر رہے ہیں۔پچیس دیگر ممالک جوہر سے توانائی بھی حاصل کر رہے ہیں اور غیر عسکری شعبوں میں بھی ایٹمی صلاحیت سے کام لے رہے ہیں
(ان ممالک میں ارجنٹینا ، آرمینیا ، بیلاروس ، بلغاریہ، بیلجیم ، برازیل ، کینیڈا ، چیک ریپبلک ، فن لینڈ ، جرمنی ، ہنگری ، ایران ، جاپان ، میکسیکو ، نیدرلینڈز، رومانیہ، سلووینیا ، سلواکیہ ، جنوبی افریقہ ، اسپین، جنوبی کوریا، سویڈن ، سوئٹزرلینڈ ، یوکرین اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں)
جوہری ری ایکٹرز سے عالمی پیمانے پر دس فیصد بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ جن بتیس ممالک کے پاس جوہری پلانٹس ہیں، ان میں سے اٹھارہ ممالک کا تعلق یورپ سے ہے۔ فرانس بجلی کی ضروریات کا اکہتر فیصد جوہری توانائی سے پورا کرتا ہے
سلووینیا کی بجلی کی تریپن فیصد پیداوار ، یوکرین کی اکیاون فیصد ، ہنگری کی اڑتالیس فیصد ، بلغاریہ کی اکتالیس فیصد، بیلجیم کی انتالیس فیصد ، سلووینیا کی اڑتیس فیصد ، چیک ری پبلک کی سینتیس فیصد ، آرمینیا کی پینتیس فیصد ، فن لینڈ کی چونتیس فیصد ، سوئٹزرلینڈ کی تینتیس فیصد ، سویڈن کی تیس فیصد ، اسپین کی بائیس فیصد ، روس کی اکیس فیصد ، رومانیہ کی بیس فیصد، برطانیہ اور کینیڈا کی پندرہ فیصد ، جرمنی کی گیارہ فیصد ، ارجنٹینا کی آٹھ فیصد ، پاکستان کی سات فیصد ، جنوبی افریقہ کی چھ فیصد ، میکسیکو اور چین کی پانچ فیصد ، بھارت اور نیدر لینڈز کی تین تین فیصد ، برازیل اور ایران کی دو فیصد ، بیلاروس اور متحدہ عرب امارات کی ایک فیصد بجلی جوہری ذرایع سے حاصل ہوتی ہے
دو ہزار گیارہ تک جاپان اپنی بجلی کی تیس فیصد ضروریات جوہری پلانٹس سے پوری کر رہا تھا۔ تاہم سونامی کے سبب فوکوشیما پلانٹ سے تابکاری خارج ہونے کے بعد تمام جوہری ری ایکٹرز کو کڑے معائنے کے لیے بند کر دیا گیا۔ اس وقت جاپان محض پانچ فیصد بجلی جوہری زرایع سے پیدا کر رہا ہے
ماحولیاتی آلودگی کا ذمہ دار سب سے بڑا ملک امریکا آج بھی توانائی کی ساٹھ فیصد ضروریات روایتی آلودہ ایندھن (تیل ، کوئلہ وغیرہ) کے استعمال سے پوری کر رہا ہے۔ جب کہ بقیہ بیس فیصد بجلی شمسی توانائی ، ہوا اور پانی سے اور بیس فیصد ایٹمی توانائی سے پیدا ہو رہی ہیں
جوہری توانائی کے مثبت استعمال کے بارے میں بدظنی روزِ اول سے ہی پیدا ہو گئی، جب ہیرو شیما اور ناگاساکی پر علی الترتیب چھ اور نو اگست کو ایٹم بم گرا۔ چنانچہ جیسے ہی ذہن میں لفظ ایٹم آتا ہے، تو موت کی چھتری بھی تصور میں کھل جاتی ہے۔ اس تصور کو پینتالیس برس تک جاری رہنے والی سرد جنگ کے دوران غیر روایتی اسلحے کی بے لگام دوڑ نے مزید پختہ کر دیا
اس وقت نو ممالک کے تحویل میں تیرہ ہزار ایک سو پچاس ہتھیار ہیں۔ ان میں سے نوے فیصد ہتھیاروں کے مالک امریکا اور روس ہیں۔ سرد جنگ کے عروج میں انیس سو چھیاسی تک ان ہتھیاروں کی تعداد لگ بھگ پینسٹھ ہزار تھی۔ ذرا سوچئے، انسانی بدظنی اور غلبے کی خواہش نے ایسے مہنگے تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری ، دیکھ بھال اور پھر تلفی پر کس قدر سرمایہ خرچ کروایا۔ مگر جوہری ہتھیاروں میں خاصی کمی کے بعد بھی دنیا کے بنیادی مسائل جوں کے توں بھی نہیں رہے، بلکہ مزید ابتر ہوتے چلے گئے
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امید تھی کہ اب جوہری ہتھیاروں کی ضرورت کم سے کم ہوتی چلی جائے گی۔ ایک جانب جہاں امریکا اور روس نے اپنا دو تہائی ذخیرہ تلف کردیا، تو دیگر ممالک نے اپنے ہتھیاری ذخیرے بڑھانے شروع کر دیے۔ مثلاً امریکی محکمہ دفاع کا اندازہ ہے کہ دو ہزار تیس تک چین کے موجودہ ساڑھے تین سو ایٹمی ہتھیاروں میں تین گنا اضافہ ہو جائے گا اور ان کی تعداد ایک ہزار سے اوپر پہنچ جائے گی
اس وقت اگر دنیا میں موجود جوہری ذخیرے کی جمع تقسیم کی جائے تو روس چار ہزار تین سو دس ، امریکا تین ہزار سات سو پچاس ، فرانس دو سو نوے ، برطانیہ ایک سو پچانوے ، پاکستان ایک سو ساٹھ ، بھارت ڈیڑھ سو، اسرائیل نوے اور شمالی کوریا پینتیس جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ ان میں سے چھ ممالک یعنی روس ، چین ، برطانیہ ، پاکستان ، بھارت اور شمالی کوریا اپنے ذخائر مزید بڑھا رہے ہیں
اب تک کی واحد مثبت مثال جنوبی افریقہ کی ہے۔ جس کی تحویل میں انیس سو نوے کی دہائی تک چھ جوہری ہتھیار تھے۔ نیلسن منڈیلا کے صدر بننے کے بعد جنوبی افریقہ کا عسکری جوہری پروگرام ختم کر دیا گیا اور جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے ( این پی ٹی ) پر دستخط کر دیے گئے
جہاں تک ایک ایسی دنیا کا خواب ہے، جو ایٹمی اسلحے سے تو پاک ہو، مگر ایٹمی صلاحیت کو کرہِ ارض کی آلودگی میں کمی اور ماحولیاتی بہتری کے لیے توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے، تو ایسی کوئی بھی بات منہ سے نکلتے ہی ہم میں سے بہت سوں کی آنکھوں میں انیس سو چھیاسی میں چرنوبل ایٹمی ری ایکٹر کے پھٹنے اور اس کے نتیجے میں تابکاری کے پھیلاؤ کی تصاویر چلنا شروع کر دیتی ہیں۔ اور پھر دو ہزار گیارہ میں جاپان میں فوکوشیما ری ایکٹر کا حادثہ یاد آ جاتا ہے
ایک صدی پہلے انسان نے ہوائی سفر کیا تو شروع شروع میں بہت حادثے ہوتے تھے۔رفتہ رفتہ ٹیکنالوجی کی ترقی سے فضائی حادثات کی شرح کم سے کم ہوتی چلی گئی۔ آج فضائی سفر ریل اور سڑک کے مقابلے میں زیادہ محفوظ سمجھا جاتا ہے۔جوہری توانائی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اب جو ری ایکٹرز بن رہے ہیں، وہ گزشتہ کے مقابلے میں زیادہ محفوظ کہے جاتے ہیں
ایک خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ طیارے کے حادثے میں تو دو ڈھائی سو جانیں جا سکتی ہیں۔ مگر جوہری حادثے کی صورت میں تو لاکھوں جانوں کا زیاں ہو سکتا ہے
عرض یہ ہے کہ اس دنیا میں غیر طبعی موت کا سب سے بڑا سبب آج بھی ٹریفک حادثات ہیں۔ سڑک پر سالانہ جتنے لوگ ہلاک ہوتے ہیں، کسی جوہری ری ایکٹر کے حادثے میں ہلاک نہیں ہوئے۔ حادثات کے باوجود گاڑیاں چلنی بند تو نہیں ہو گئیں، بلکہ انہیں زیادہ محفوظ بنانے کی کوشش جاری رہی
کسی بھی شے کو اپناتے یا مسترد کرتے وقت فائدے اور نقصان کا تناسب دیکھا جاتا ہے۔ ہم نے اب تک ماحولیات کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کے سبب لاکھوں اضافی اموات کا سلسلہ مسلسل ہے۔ اسی زاویے سے جوہری توانائی کے بارے میں کیوں نہیں سوچ جا سکتا… نقص چھری میں ہے یا اسے استعمال کرنے والے میں؟
نوٹ : یہ کالم روزنامہ ایکسپریس کے شکریے کے ساتھ شایع کیا گیا، اس کے مندرجات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں. آپ اس تحریر کو ذیل میں دیے گئے لنکس پر شیئر بھی کر سکتے ہیں.