کراچی – پاک۔چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت آنے والے دھابیجی انڈسٹریل زون (ڈی آئی زیڈ) منصوبے کے لیے حال ہی میں دیا جانے والا ٹھیکہ عدالت میں چیلنج کیے جانے کے بعد غیر یقینی کا شکار ہو چکا ہے
اس حوالے سے سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹھیکہ دینے میں اسپیشل اکنامک زونز (ایس ای زیڈ) کے قوانین پر عمل نہیں کیا گیا
صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ چونکہ ڈی آئی زیڈ کو اب تک ایس ای زیڈ کا درجہ نہیں دیا گیا، اس لیے اس پر خصوصی اقتصادی زونز کے قوانین لاگو نہیں ہوتے
سی پیک اتھارٹی نے ہائی کورٹ میں ایک باضابطہ بیان بھی جمع کرایا تھا، جس میں بولی کے عمل پر اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹھیکہ دینے میں کوئی بے ضابطگی نہیں ہوئی ہے
سندھ اکنامک زونز منیجمنٹ کمپنی (ایس ای زیڈ ایم سی) کی ایک دستاویز کے مطابق ڈی آئی زیڈ کو خصوصی اقتصادی زون (ایس ای زیڈ) قرار دیا جائے گا
اربوں مالیت کا ڈی آئی زیڈ منصوبہ جسے ظاہر خان اینڈ برادرز (زیڈ کے بی) اور سندھ حکومت کے ذریعے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت تیار کیا جائے گا، سی پیک کا حصہ ہے اور اسے بعد میں خصوصی اقتصادی زون کا درجہ دیے جانے کا امکان ہے
ڈیڑھ ہزار ایکڑ پر محیط اس منصوبے کو مرکز، حکومت سندھ اور سی پیک اتھارٹی کے ذریعے مشترکہ طور پر عمل میں لایا جارہا ہے، جس کا مقصد اسے صوبے میں بڑی اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بنانا ہے
واضح رہے کہ سندھ حکومت کو رواں برس فروری میں منصوبے کے لیے بولیاں موصول ہوئی تھیں، دو ماہ کی جانچ کے بعد بولی میں سے ایک کو ’تکنیکی طور پر نااہل‘ قرار دیا گیا
اس کے بعد صوبائی حکومت نے دوبارہ بولی لگائی جس میں ’زیڈ کے بی‘ نامی کمپنی کامیاب ہوئی، اس کے بعد حکومت کی جانب سے جیتنے والی فرم کو ایک لیٹر آف ایوارڈ (ایل او اے) جاری کیا گیا، تاہم بعد ازاں ٹھیکہ دینے کو عدالت میں چیلنج کر دیا گیا
جب سندھ حکومت کے ترجمان سعید غنی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس منصوبے کی تفصیلات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں، لیکن ان کا خیال ہے کہ ٹھیکہ دینے میں کوئی غلط بات نہیں ہے
علاوہ ازیں ایس ای زیڈ ایم سی کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے ایوارڈ میں شفافیت اور منصفانہ عمل کو یقینی بنایا ہے کیونکہ کامیاب بولی دینے والے نے 16 ارب روپے کا حوالہ دیا تھا جبکہ دوسری سب سے کم بولی 13 ارب روپے روپے تھی
زیڈ ایم سی کے ذمہ دار کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے کُل آمدنی بتیس ارب روپے ہے اور کامیاب بولی لگانے والے کو پانچ سے سات برس میں صوبائی حکومت کو سولہ ارب روپے ادا کرنے ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ باقی رقم صوبائی حکومت کو اکنامک زون میں پلاٹ بیچ کر ادا کی جائے گی۔
اہلکار کا خیال تھا کہ ملک کے دیگر سترہ صنعتی زونز کی طرح ڈی آئی زیڈ نے اب تک ایس ای زیڈ کا درجہ حاصل نہیں کیا ہے لیکن صوبائی حکومت بعد میں اس کے لیے درخواست دے گی
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی زونز کو فوری طور پر ایس ای زیڈ کا درجہ نہیں ملتا، ساتھ ہی مثال دی کہ ’لاہور میں علامہ اقبال اکنامک زون 2006 میں قائم کیا گیا تھا لیکن اسے 2016 میں ایس ای زیڈ کا درجہ ملا‘۔
عہدیدار نے بتایا کہ بدقسمتی سے عدالت کو درخواست گزار نے گمراہ کیا، جو یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ ڈی آئی زیڈ کو ٹھیکہ دیتے وقت ایس ای زیڈز کے قوانین پر عمل نہیں کیا گیا
دریں اثنا، معلوم ہوا ہے کہ قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے ڈی آئی زیڈ پراجیکٹ تاخیر کا شکار ہو رہا ہے کیونکہ کامیاب بولی دینے والے نے ایل او اے کے اجرا کے ایک ماہ بعد بھی سندھ حکومت کے ساتھ معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں.