عمر بڑھنے کے باوجود دماغ کو کیسے جوان رکھا جائے؟

ویب ڈیسک

عمر کے ساتھ ہر فرد کے دماغ میں تبدیلیاں آتی ہیں اور دماغی افعال بھی تبدیل ہوتے ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ دماغی تنزلی عام ہے اور اس کا نتیجہ بڑھاپے میں الزائمر اور ڈیمینشیا جیسے امراض کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے۔

دراصل ہماری عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دماغ کے اہم حصے ایٹروفی کا شکار ہو جاتے ہیں- لیکن پھر بھی کچھ 70 سال کے لوگوں کے دماغی اسکین 20 سے 30 سال کی عمر کے لوگوں سے ملتے جلتے ہیں ۔ ابھرتی ہوئی تحقیق ان عادات کی طرف اشارہ کرتی ہے جو عمر بڑھنے کے عمل کے دوران دماغ کو تیز رکھ سکتی ہیں۔

کیا آپ اپنے دماغ کو بڑھاپے تک جوان رکھنا اور اسے بوڑھا ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو آیئے ہم آپ کو پتے کی بات بتاتے ہیں۔ سب سے پہلے ذکر کریں گے ایک تازہ تحقیق کا، اور اس کے بعد ہم ماہرین کی جانب سے اس حوالے سے بتائے گئے دیگر طریقے بیان کریں گے

ایک تازہ تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ دن کے وقت تھوڑی سی نیند، جھپکی یا قیلولہ کرنے سے دماغ کا سائز کم ہونے کی رفتار سست ہو جاتی ہے، جس سے دماغی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے ۔

قبل ازیں کی گئی ریسرچز سے ظاہر ہوا ہے کہ جوں جوں ہماری عمر بڑھتی ہے، ہمارے دماغ کا سائز چھوٹا ہونا شروع ہو جاتا ہے، جس سے ہماری دماغی اور اعصابی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ یہ خرابی آخر کار یاد داشت اور دوسری اعصابی بیماریوں کو جنم دے سکتی ہے

لیکن ایک تازہ ریسرچ سے معلوم ہوا ہےکہ دن کے وقت تھوڑی سی نیند، جھپکی یا قیلولہ کرنے سے دماغ کے سائز میں کمی کی رفتار سست ہو جاتی ہے، جو ہماری دماغی کارکردگی کو بہتر بنانے یا اسے برقرار رکھنے میں مدد دے سکتی ہے۔

یہ ریسرچ یونیورسٹی کالج آف لندن (یو سی ایل) کی زیرِ قیادت یونیورسٹی آف یوروگوائے کے سائنسدانوں نے کی ہے اور حال ہی میں جریدے سلیپ ہیلتھ میں شائع ہوئی۔ اس ریسرچ میں 40 سے 69 سال کی عمر کے لوگوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔

نتائج سے ظاہر ہوا کہ دن کے وقت باقاعدگی سے قیلولہ کرنے کا دماغ کے حجم میں مجموعی اضافے سے ایک براہ راست تعلق تھا۔

جریدے سائی ٹیک ٹیلی کے مطابق ریسرچ کی سینئر مصنفہ اور یو سی ایل میں لائف لانگ ہیلتھ اینڈ ایجنگ یونٹ کی ڈاکٹر وکٹوریہ گارفیلڈ کا کہنا ہے کہ ہماری ریسرچ کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر لوگ دن کے وقت تھوڑی سی نیند لینا شروع کر دیں تو عمر بڑھنے کے ساتھ وہ اپنی دماغی صحت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔

اس سے قبل کی ایک ریسرچ سے بھی ظاہر ہوا تھا کہ دماغی کارکردگی کے ٹیسٹ لینے سے قبل کچھ دیر نیند لینے والے لوگوں کے اسکور ان لوگوں سے بہتر تھے، جنہوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔

واضح رہے کہ دوپہر کے وقت قیلولہ کرنا سنت نبوی ﷺ بھی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جدید سائنسی کی کسی تحقیق سے اس کا دماغی صحت کے حوالے سے فائدہ سامنے آیا ہے بلکہ ماضی میں کی گئی مختلف ریسرچز نے بھی اس کے بے شمار حیران کن فائدے آشکار کیے ہیں

حال ہی میں ریسرچ ٹیم نے اندازہ لگایا کہ باقاعدگی سے نیپ (قیلولہ) لینے والے اور نیپ نہ لینے والے لوگوں کے درمیان دماغ کے سائز میں اوسط فرق لگ بھگ ڈھائی سے ساڑھے چھ سال کے برابر تھا۔ یعنی جو لوگ دن کے وقت باقاعدگی سے قیلولہ یا تھوڑی دیر نیند کر لیتے تھے اور دن کے وقت بھی اپنے دماغ کو کچھ دیر آرام کرنے دیتے تھے ان کی دماغی عمر قیلولہ نہ کرنے والوں سے تقریباً چار گنا کم تھی۔ ان کی توجیہ یہ ہے کہ سوتے وقت کیوں کہ دماغ بہت کم استعمال ہوتا ہے، اس لیے وہ جاگتے وقت کے دماغ سے زیادہ جوان رہتا ہے۔

تاہم ریسرچ کی سربراہ ڈاکٹر گارفیلڈ کا کہنا ہے کہ یہ پہلی ریسرچ ہے، جس میں دن کے وقت باقاعدگی سے نیپ لینے یا جھپکی لینے اور دماغ کے سائز کے درمیان تعلق کو جاننے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن اس سلسلے میں ابھی مزید ریسرچ کی ضرورت ہے

کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ دماغ کے سائز پر پیدائش کے وقت جینز اور رہن سہن کا انداز بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں

ڈاکٹر گارفیلڈ نے مزید کہا کہ مجھے امید ہے کہ ان کی ریسرچ سے دن کے وقت تھوڑی سی نیند لینے کے بارے میں جو غلط تاثرات ابھی تک موجود ہیں، انہیں کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اگرچہ اس ریسرچ سے یہ معلومات نہیں فراہم ہو سکی ہیں کہ کتنی دیر کی جھپکی دماغی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہے، لیکن اس سے قبل کی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ دماغی ٹیسٹوں میں سب سے اچھی کارکردگی اس وقت سامنے آئی، جب ٹیسٹ سے قبل تیس منٹ یا اس سے کم دورانئے کی نیند لی گئی۔

یو کے اور نیدر لینڈز کی ایک سابق تحقیق سے ظاہر ہوا تھا کہ 65 سال سے زیادہ عمر کے ایک تہائی افراد باقاعدگی سے نیپ لیتے تھے

دراصل سوتے وقت ہمارا دماغ معلومات کو یاد کرتا اور ان پر کام کرتا ہے۔ ہمارا جسم نامیاتی مادے کو صاف کرتا اور اپنی مرمت کرتا ہے، جس سے ہم جاگنے کے بعد صحیح طرح سے کام کر سکتے ہیں۔

حتیٰ کہ انتہائی کم عرصے کے لیے بھی نیند سے محرومی ہماری صحت کو متاثر کر سکتی ہے۔ ہم میں سے اکثر کا ایک رات نہ سونے کے باعث برا حال ہو جاتا ہے اور نیند کے بغیر تین راتوں کے بعد ہمارا کام بری طرح سے متاثر ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دوپہر کے وقت نیند لینے سے ڈیمنشیا اور الزائمر جیسی بیماروں سے بچا جا سکتا ہے کیوں کہ تحقیقات سے معلوم ہو چکا ہے کہ نیند کی کمی زیادہ تر ذہنی اور دماغی بیماریوں کی وجہ بنتی ہے ۔

علاوہ ازیں کچھ دیگر عادات بھی دماغی افعال کو بہتر بنا کر عمر بڑھنے کے ساتھ ذہنی تنزلی سے تحفظ فراہم کرتی ہیں، جبکہ کسی ٹاسک کے دوران توجہ مرکوز کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

مندرجہ ذیل چند عام طریقوں کے ذریعے آپ عمر بڑھنے کے باوجود دماغی افعال کو مستحکم رکھنے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

● ذہن متحرک رکھیں:
تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ دماغی سرگرمیاں عصبی خلیات میں نئے کنکشنز کے سلسلے کو متحرک کرتی ہیں اور ممکنہ طور پر نئے دماغی خلیات بھی بنتے ہیں۔ اس سے دماغی لچک بھی پیدا ہوتی ہے اور افعال کو نقصان سے تحفظ ملتا ہے۔

اس حوالے سے ذہن کو متحرک کرنے والی کوئی بھی سرگرمی مددگار ثابت ہو سکتی ہے، جیسے مطالعہ کرنا، نئے کورسز، لفظی پہیلیاں یا معمے وغیرہ۔۔ یہ بھی کرنے کا دل نہ کریں تو ڈرائنگ کرنے سے بھی یہ فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

● سماجی میل جول:
لوگوں سے مضبوط تعلقق ڈیمینشیا کے خطرے کو کم کرتا ہے جبکہ اس سے بلڈ پریشر کی سطح بھی کم ہوتی ہے۔

اے اے آر پی کی سینئر نائب صدر اور دماغ پر گلوبل کونسل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ لینز لاک کہتی ہیں، ”معاشرتی تنہائی بڑی عمر کے بالغوں میں ڈیمنشیا کے خطرے کو 50 فی صد تک بڑھا دیتی ہے۔ لنک غیر واضح ہے۔۔ تاہم، آپ کو دوستوں اور ساتھیوں کا پورا عملہ جمع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چند قریبی دوست کافی ہو سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ دوستوں کو تلاش کرنے کے بجائے، سماجی حلقوں کی تعمیر پر توجہ دیں جو آپ کی انفرادی ضروریات کو پورا کرتے ہیں، جیسے پڑوسیوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا، کمیونٹی سینٹر میں رضاکارانہ طور پر کام کرنا یا پالتو جانور کو گود لینا۔

عمر بڑھنے کا ایک عام مسئلہ، سماعت کی کمی، سماجی میل جول کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی میں نفسیات کی پروفیسر انجلینا سوٹن کہتی ہیں، ”سماعت سے محروم ہونے پر شرمندگی سے نمٹنے اور اسے درست کرنے کے لیے کام کرنے سے سماجی طور پر پیچھے ہٹنا آسان ہو سکتا ہے۔ لیکن سماعت کی کمی کو دور کرنا دماغی صحت کے لیے اہم ہے۔“ 2019 کے ایک مطالعے سے پتا چلا ہے کہ ہر 10-ڈیسیبل سماعت کے نقصان پر علمی کارکردگی میں کمی آئی ہے اور تنہائی کا تناؤ کورٹیسول کی سطح کو بڑھا دیتا ہے، جو وقت کے ساتھ دماغ کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔

اگر ذاتی طور پر سماجی بنانا ممکن نہیں ہے، تو اس سے دوسروں کے ساتھ آن لائن رابطہ قائم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ جرنلز آف جیرونٹولوجی میں 2017 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں، بزرگوں کے فیس بک استعمال کرنا سیکھنے کے بعد، انہوں نے یادداشت کے ٹیسٹ میں ان بوڑھے بالغوں کے مقابلے زیادہ نمبر حاصل کیے، جو فیس بک استعمال نہیں کرتے تھے۔

● جسمانی ورزش:
تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ جسمانی طور پر متحرک رہنا دماغ کے لیے بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔ جانوروں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ جو جانور جسمانی طور پر متحرک ہوتے ہیں، ان کی خون کی ان ننھی شریانوں میں اضافہ ہوتا ہے، جو آکسیجن سے بھرپور دماغی حصوں کو فراہم کرتی ہیں۔

ورزش سے بھی نئے عصبی خلیات بننے کا عمل تیز ہوتا ہے اور دماغی خلیات کے درمیان کنکشنز بڑھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دماغ زیادہ فعال، لچکدار اور مطابقت حاصل کرنے والا بنتا ہے، جبکہ جسمانی سرگرمیوں سے بلڈ پریشر کی سطح میں کمی، کولیسٹرول لیول بہتر، بلڈ شوگر کو متوازن رکھنے میں مدد اور ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے، یہ سب عناصر دماغ کے ساتھ دل کی صحت کے لیے بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

● اچھی غذا کا استعمال:
اچھی غذائیت جسم کے ساتھ ساتھ ذہن کو تیز رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پھلوں، سبزیوں، مچھلی، گریوں، زیتون کے تیل اور نباتاتی پروٹینز پر مشتمل غذا کا زیادہ استعمال دماغی افعال میں تنزلی اور ڈیمینشیا کے خطرے کو کم کرتا ہے۔

●بلڈ پریشر کی سطح بہتر بنائیں:
درمیانی عمر میں ہائی بلڈ پریشر سے بڑھاپے میں دماغی تنزلی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ طرزِ زندگی کے عناصر سے بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جسمانی وزن کو معمول پر رکھنے، ورزش کو معمول بنانا، تناؤ سے بچنے کی کوشش اور اچھی غذا کے ذریعے بلڈ پریشر کی سطح کو معمول پر رکھا جاسکتا ہے۔

● بلڈ شوگر کو کنٹرول کریں:
ذیابیطس دماغی تنزلی کا باعث بننے والے مرض ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھانے والا اہم عنصر ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اچھی غذا، جسمانی طور پر سرگرم رہنے اور جسمانی وزن کو کنٹرول میں رکھ کر ذیابیطس سے بچنا ممکن ہے۔اس کے برعکس بلڈ شوگر کی سطح مسلسل زیادہ رہے تو اسے کنٹرول کرنے کے لیے ادویات کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کیا جانا چاہیے۔

● بلڈ کولیسٹرول کی سطح بہتر بنائیں:
نقصان دہ سمجھے جانے والے ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو بھی ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھانے والا عنصر سمجھا جاتا ہے۔ تاہم غذا، ورزش، جسمانی وزن کو کنٹرول اور تمباکو سے گریز کر کے طویل المعیاد بنیادوں پر کولیسٹرول کی سطح کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

● تمباکو نوشی سے گریز:
تمباکو نوشی کے نقصانات کے بارے میں بتانے کی زیادہ ضرورت نہیں پھیپھڑوں سے ہٹ کر یہ عادت پورے جسم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ دماغ پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور دماغی تنزلی کا سفر تیز ہوجاتا ہے۔

● اپنے جذبات کا خیال رکھیں:
جو لوگ ذہنی طور پر بے چینی، مایوسی، نیند کی کمی یا تھکاوٹ کے شکار ہوتے ہیں، وہ ذہنی افعال کے ٹیسٹوں میں بھی ناقص اسکور حاصل کرتے ہیں۔ یقیناً یہ خراب اسکور عمر بڑھنے کے ساتھ ذہنی تنزلی کے خطرے کو ظاہر نہیں کرتے، مگر اچھی ذہنی صحت اور مناسب نیند سے ان مسائل کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔

● اچھی نیند:
کچھ نیا سیکھنے سے پہلے اور بعد میں مناسب وقت تک نیند کو عادت بنائیں۔ جب آپ تھکاوٹ کا شکار ہوتے ہیں تو چیزوں پر توجہ مرکوز رکھنا مشکل ہوجاتا ہے اور جب کچھ سیکھنے کے بعد نیند کے مزے لیتے ہیں تو اس سے دماغ کو نئی معلومات کو منظم کرنے میں مدد ملتی ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر انہیں یاد کر سکیں۔

رات کی مناسب نیند اچھی یادداشت اور مزاج کے لیے بھی مفید ہے، بالغ افراد ہر رات 7 سے 8 گھنٹے نیند کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے دوران دماغ اپنی صفائی کرکے نقصان دہ اجزا کو نکال باہر کرتا ہے۔

● ایک مقصد کی پیروی کریں:
فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہر نفسیات سوٹن کے 2017 کے مطالعے کے مطابق، زندگی میں کسی مقصد کا ہونا ڈیمنشیا میں 30 فیصد کمی کے ساتھ منسلک ہے، جو کہ فلاح کے دیگر پہلوؤں سے آزاد ہے۔ ”یہ بہت حفاظتی ہے کیونکہ یہ بامعنی مصروفیت کا باعث بنتا ہے۔“ سماجی بنانا دماغ کو مصروف رکھنے کا ایک طریقہ ہے، لیکن مصروفیت بہت سی شکلیں لے سکتی ہے- چاہے وہ ناول لکھنا ہو، کسی ضرورت مند کی دیکھ بھال کرنا ہو، 80 کی دہائی میں اطمینان بخش کام کرنا ہو، واقعی ورزش کرنا ہو یا ایک بھرپور شوق کی مشق کرنا ہو۔ یہ انتہائی انفرادی ہے۔ سوٹن کہتی ہیں، ”جو چیز ایک شخص کے لیے بامقصد ہے، وہ دوسرے کے لیے معمولی ہو سکتی ہے۔“

اپنی ’زندگی کے مقصد‘ کا پیچھا کرنا شاید چند خوش نصیبوں کا اعزاز ہے۔ لیکن سوٹن کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مقصد کا احساس پیدا کرنا آمدنی، دولت یا تعلیم سے قطع نظر دماغی صحت میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ بہت ساری سرگرمیاں اس کے احساس کو بڑھا سکتی ہیں۔ لاک کا کہنا ہے کہ ”وہ کرو، جو آپ کو پسند ہے۔۔ اور اسے زیادہ گہرائی سے کرو۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close