اور پاکستان کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا؟

شمس مومند

تقریباً آٹھ ماں پہلے میرے ایک کالم کا عنوان تھا کیا گھیرا تنگ ہو رہا ہے؟ آج آٹھ ماں بعد میں سمجھتا ہوں کہ گھیرا تنگ ہو گیا۔ پی ٹی آئی کے حامی بلکہ شاید کچھ اور خوش فہم قارئین اب بھی میرے خیالات سے متفق نہیں ہوں گے کیونکہ ہم پشتون اس جملے کا کچھ زیادہ ہی بے جا استعمال کرتے ہیں کہ ہیس نشتہ مڑہ۔ اللہ بہ خیر کی (یعنی کچھ بھی نہیں ہے اللہ خیر کرے گا) ۔ اللہ خیر کرے یہ ایک دعا ہے اور دعا ہر وقت مانگنا چاہیے کیونکہ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ دعا کی قبولیت قسمت کا لکھا بھی ٹال سکتا ہے مگر کچھ بھی نہیں سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا ہے، کیونکہ بہت کچھ ہو گیا اور بہت کچھ ہونے والا ہے۔ آج دو اہم واقعات کا ذکر کرتا ہوں جس نے مجھے انتہائی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ ان دونوں کو اگر مخالفین نے جوڑ کر استعمال کیا تو خدانخواستہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سمیت اس کی سالمیت خطرے سے دوچار ہو جائے گی۔

چند دن پہلے عمران خان حکومت نے بڑے فخر کے ساتھ یکمشت 33 قوانین کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک ساتھ منظور کر کے خوشی کے شادیانے بجا دیے کہ ہم نے بہت بڑا تیر مار لیا۔ اس میں اگر چہ سب سے زیادہ متنازع قانون الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا تھا مگر میری نظر میں سب سے خطرناک سٹیٹ بنک آف پاکستان کی خود مختاری کا قانون تھا۔ یہ ایک ایسا زہر تھا جسے خودمختاری کے شوگر میں کوٹڈ کر کے طاقت کے زور پر منظور کیا گیا۔ ایک ایسا قانون جس میں پاکستان کا ریاستی بنک پاکستان کی ریاست سے آزاد ہو گیا۔

جس کے مطابق پاکستان اپنے ہی اسٹیٹ بنک سے ادھار پیسے بھی آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر نہیں لے سکے گا۔ جس کے مطابق حکومت پاکستان صرف سٹیٹ بنک کے گورنر کو تعینات کرنے کا اختیار رکھتا ہے اس کے بعد وہی گورنر پھر حکومت کو جوابدہ نہیں۔ وہ ایک طرح سے مطلق العنان بادشاہ ہو گا اور اپنے سٹیٹ (سٹیٹ بنک) میں مختار کل۔ سادہ الفاظ میں پاکستان کا بنکنگ نظام اور معیشت اب پاکستان کی بجائے براہ راست آئی ایم ایف کے کنٹرول میں دے دیا گیا۔

اور جس طرح امریکہ نے طالبان حکومت آنے کے بعد افغان بنک کے ریزرو کو منجمد کر دیا۔ وہ اپنے ہی بنک میں پڑے ساڑھے نو ارب ڈالر استعمال نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر امریکہ چاہے تو پاکستان کے ساتھ بھی یہی کچھ کر سکتا ہے۔ امریکہ ایسا کیوں کرے گا۔ اس کی دو تین وجوہات پہلے ہی موجود ہیں مگر اس میں آئے روز ہم خود بھی مزید وجوہات کا اضافہ کرتے رہے ہیں۔ مثلاً چائنا کے ساتھ مل کر سی پیک پراجیکٹ، مثلاً افغانستان میں امریکہ مخالف پالیسیاں اور طالبان کی مدد، مثلاً امریکہ کے دشمن نمبر ایک اسامہ بن لادن کو چھپانا، مثلاً ملک میں فرانسیسی سفیر کے خلاف بار بار پر تشدد احتجاج اور اب اس میں آخری کیل کے طور پر توہین رسالت کے نام پر ہجوم کے انصاف کے ذریعے غیر ملکی منیجر کا سفاکانہ قتل۔

قارئین کرام۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مبینہ طور پر توہین قرآن و توہین رسالت کے دو واقعات میں ہزاروں افراد کی طرف سے انتہائی پر تشدد اور انتہا پسندانہ رویہ اپنایا گیا۔ پہلا واقعہ پختونخوا کے ضلع چارسدہ کے علاقہ مندنی میں رونماء ہوا۔ جس میں ایک نیم پاگل شخص پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے نعوذ باللہ قرآن پاک کی توہین کی ہے۔ اس شخص کو اگرچہ پولیس نے بروقت گرفتار بھی کیا مگر عوام کا مطالبہ تھا کہ مذکورہ شخص کو عدالت لے جانے کی بجائے ان کے حوالے کیا جائے۔

پولیس کے انکار پر مشتعل ہجوم تشدد پر اتر آیا اور انھوں نے ایک پولیس سٹیشن اور متعدد چوکیوں سمیت درجن بھر گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ اس کیس میں گرفتاریوں اور کیسز کے اندراج کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ گزشتہ روز سیالکوٹ میں انتہائی افسوسناک اور شرمناک واقعہ رونما ہوا۔ کہ سپوٹ فیکٹری میں کام کرنے والے ایک سری لنکن منیجر کو اس وقت پرتشدد ہجوم نے مار مار کر ہلاک کر دیا جب اس پر فیکٹری میں کام کرنے والے دو مزدوروں نے الزام لگایا کہ مذکورہ منیجر نے فیکٹری کے دیوار پر لگے ایک ایسے پوسٹر کو اکھاڑ پھینکا ہے جس پر یا حسین اور درود پاک لکھا ہوا تھا۔

اگرچہ بعض لوگ دعوی کر رہے ہیں کہ ان مزدوروں کا منیجر کے ساتھ پہلے سے اختلاف موجود تھا اور یہ سارا واقعہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ لیکن اگر ایسا نہ بھی ہو۔ تو تصور کیجئے کہ دس سال سے پاکستان اور اسی فیکٹری میں کام کرنے والے غیر ملکی منیجر کو صرف اس لئے قتل کیا جا رہا ہے کہ انھوں نے اس پوسٹر کو پھاڑ دیا ہے۔ یہ جہالت درندگی وحشی پن کا کون سا مقام ہے۔ اس کو قتل کرنے پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے لاش کی بے حرمتی کر کے اس کو برہنہ کر کے گھسیٹا گیا اس کو آگ لگا دی گئی۔

اور سینکڑوں لوگ اپنی اس وحشی پن کو اسلام کا جامہ پہنانے بلکہ اسلام کو بدنام کرنے کے لئے یا رسول اللہ کے نعرے لگاتے اور سیلفیاں بناتے رہے۔ ایک ہزار سے زیادہ کے ہجوم میں کوئی ایسا جرات مند مسلمان نہیں تھا جو اس پاگل ہجوم کو منع کرنے کی کوشش ہی کر دیتا۔ پولیس والے تماشا دیکھتے رہے۔ میڈیا والے ویڈیوز بناتے رہے، دونوں مرکزی ملزم اور قاتل فخریہ انداز میں میڈیا ٹاک کرتے رہے اور سامنے پڑی لاش آگ میں جلتی رہی۔ واہ میرے پاکستانیوں واہ۔ آپ لوگوں کی جرات اور اسلام کو سلام ہو۔

ایک طرف ہم سب مل کر اسلام کی یہی شکل دنیا کو دکھاتے ہیں پھر جب مخالفین اسلام کو متشدد اور پیغمبر اقدس کو تشدد پسندوں کا نبی کہتے ہیں تو ہم دوبارہ اپنے ہی ملک میں مزید تشدد پر اتر آتے ہیں۔ عوام کے ہجوم کا تشدد کرنا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ ہجوم کو جب اکثریت اور طاقت کا احساس ہوتا ہے اس کی اپنی نفسیات ہوتی ہے۔ مگر جگہ جگہ پولیس کی تماش بین کی حیثیت سے ناکامی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یا تو یہ ہماری پالیسیوں کا ثمر ہے جس میں بعض ادارے لوگوں کو احتجاج پر اکساتے ہیں بعض انہیں ڈھیل دیتے ہیں بعض اس میں پیسے تقسیم کرتے ہیں اور بعض ان شرپسندوں پر سختی کو عوام پر سختی کہہ کر انہیں مراعات دینے کی سفارش کرتے ہیں۔ اور کمزور جمہوری حکومت عدالتوں سے سزا یافتہ مجرم کو نام نہاد سرکولیشن سمریز کی منظوری کے ذریعے جیلوں سے چھڑاتے ہیں۔

جب ہم سب مل کر یہ صورتحال بناتے ہیں پھر دنیا ہمیں جاہل پکاریں دہشت گرد کہے یا انتہا پسند کے نام سے یاد کرے۔ ان سے کیا گلہ، وہ پابندیاں لگائے یا ہم سے اپنی مرضی کے قوانین منظور کرائیں اس میں پھر کیا غلط ہے۔ کیونکہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے اور گاؤں میں کسی بھی بد معاش اور بدکردار شخص کو کھلی چھوٹ نہیں دی جا سکتی ہے۔

اس لئے خبردار رہیں اور اپنے اس کردار کے نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہیں۔ اب پاکستان کو راہ راست پر لانے اور حقیقی غلام بنانے کے لئے گھیرا مکمل ہو چکا ہے۔ صرف کچھ پابندیوں کا رسمی سا اعلان باقی ہے۔ پاکستان اپنی دوغلی پالیسیوں، کمزور معیشت، ناکام خارجہ پالیسی، عالمی تنہائی اور اندرونی سیاسی عدم استحکام کی بدولت پہلے ہی اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔ اب انہیں عالمی مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ انتظار کیجئے اور ڈرو اس وقت سے جب امریکہ افغانستان کی طرح آپ کے سٹیٹ بنک ریزرو بھی منجمد کردے۔ اللہ ہی ہمارا حامی و ناصر ہو۔ کیونکہ حکومت اور اس کے اداروں سے تو جو بھی ہوسکا تباہی کی طرف سفر کو تیز سے تیز تر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس لئے اس ذہنیت کی کامیاب آبیاری پالیسی سازوں کو مبارک ہو!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close