لنڈی کوتل – لنڈی کوتل صوبہ خیبر پختونخوا کا خیبر ایجنسی میں واقع سرحدی شہر ہے۔ یہ سطح سمندر سے 1072 میٹر بلند ہے اور درہ خیبر میں بلند ترین مقام تصور کیا جاتا ہے
لنڈی کوتل پاک افغان سرحد پر واقع ایک سیاحتی مقام کی حیثیت سے مشہور ہے جہاں سڑک اور ریل کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے، انگریز دور حکومت میں بچھائی گئی ریل کی پٹڑی جو متروک ہو چکی تھی اب پھر سے فعال کر کے اس پر “خیبر سفاری ٹرین“ کے نام سے سیاحتی ریل چلائی جاتی ہے، جس کی منزل لنڈی کوتل ہے
پاک افغان سرحد، جسے ڈیورنڈ لائن بھی کہا جاتا ہے، یہاں سے تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ لنڈی کوتل نہ صرف سیاحتی مقام بلکہ یہاں آباد آفریدی اور شنواری قبائل کے لیے تجارتی مرکز کی حیثیت بھی رکھتا ہے
لنڈی کوتل درہ خیبر کے انتہائی مغرب میں واقع مقام ہے جو برطانوی دور حکومت میں سرحدی چوکی کی حیثیت سے مشہور تھا۔ 1897ء میں آفریدی قبائل نے اس قصبے پر حملہ کر کے یہاں واقع سرکاری املاک اور چوکی پر قبضہ کر لیا۔ گو اس وقت حفاظت پر مامور خیبر رائفلز نے مزاحمت کی مگر لنڈی کوتل سرکاری تحویل سے نکل گیا۔ برطانوی فوج نے سر ولیم لاک ہارٹ کی سربراہی میں چونتیس ہزار فوجیوں کی مدد سے جوابی حملے میں آفریدی قبائل کو شکست سے دوچار کیا۔ آفریدی قبائل نے بعد ازاں ایک معائدے کے تحت عام معافی حاصل کی
یہاں ایک قلعہ بھی قائم ہے جو برطانوی دور حکومت میں عام حیثیت سے مشہور تھا، اس وقت یہاں 5 برطانوی فوجی افسر اور 500 مقامی فوجی مستقل موجود رہتے تھے۔ 1899ء کے بعد خیبر کی دوسری چوکیوں کی مانند یہ قلعہ بھی خیبر رائفلز کے حوالے کر دیا گیا، جس میں مقامی آبادی کو بھرتی کر کے ایک معاہدے کے تحت سرحدی حفاظت طے کی گئی۔ 1925ء میں یہاں پہلی بار ریلوے لائن بچھائی جس سے برصغیر پاک و ہند کا رابطہ خیبر پختونخوا تک ممکن ہو گیا، یہ ریلوے لائن جمرود سے لنڈی کوتل تک بچھائی گئی
لنڈی کوتل میں اسی دور کی ایک اہم یادگار لنڈی کوتل کا ڈاک خانہ بھی ہے، قیام پاکستان سے پہلے برطانیہ دور کا یہ قدیم ڈاک خانہ لنڈی کوتل اب بھی اسی پرانی عمارت میں فعال ہے
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ڈاک خانے کی قدیم عمارت کے ساتھ ساتھ ڈاک خانے میں زیر استعمال اسٹمپس (مہریں) اب بھی وہی ہیں، جو انگریز دور میں استعمال کی جاتی تھیں
ڈاک خانے کے پوسٹ ماسٹر آفتاب احمد آفریدی کہتے ہیں کہ وہ گذشتہ بتیس سالوں سے پاکستان پوسٹ میں ملازمت کر رہے ہیں۔ وہ اب اسی بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ وہ اس تاریخی ڈاک خانے لنڈی کوتل کے پوسٹ ماسٹر بن گئے ہیں
اس ڈاک خانے کی خاص بات اس کی مہریں ہیں جو ایک صدی سے زائد عرصے سے زیر استعمال ہیں۔ل
آفتاب احمد آفریدی کہتے ہیں کہ وہ ان تاریخی اسٹمپس یعنی مہروں کا خاص خیال رکھتے ہیں، کیونکہ یہ اب محض کام کی چیز نہیں بلکہ تاریخی ورثہ بھی شمار کی جاتی ہیں
ان کے مطابق یہ وہی مہریں ہیں جو قیام پاکستان سے پہلے لنڈی کوتل میں انگریز دور میں استعمال ہوتی تھیں
پوسٹ ماسٹر آفتاب آفریدی کہتے ہیں کہ ان مہریں کو ہر ہفتے مٹی کے تیل سے صاف کیا جاتا ہے اور ان کا بہت خیال رکھا جاتا ہے اور اگر ان کا دستہ ٹوٹ جائے تو ترکھان سے فوراً اسی ماڈل کا دستہ تیار کر کے دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا ہے
آفتاب آفریدی نے بتایا کہ ان مہروں میں سے ایک دو مہروں کے دستے ٹوٹ چکے تھے جن کو دوبارہ اسی طرح تیار کیا گیا ہے
یہ مہریں لوہے کی بنی ہیں اور ان کو مینول طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ ڈبوں میں لوہے کے ہندسے اور مہینوں کے نام ہیں، جنہیں تبدیل کر کے قابل استعمال بنایا جاتا ہے
پوسٹ ماسٹر آفتاب احمد آفریدی کے بقول ڈاک خانے میں ان مہروں سے زیادہ کوئی چیز قیمتی نہیں۔ اس لیے وہ ان کی سخت حفاظت کرتے ہیں اور استعمال کے بعد ان کو تالا لگا کر رکھ دیتے ہیں
یاد رہے کہ لنڈی کوتل کا یہ ڈاک خانہ پاکستان کے قدیم ڈاک خانوں میں شمار کیا جاتا ہے، جو قیام پاکستان سے پہلے سے فعال ہے.