’میں صفائی والا ہوں چوہڑا نہیں‘ سویپرز آر اور سپر ہیروز!

نیوز ڈیسک

لاہور – ان دنوں ملک میں سوشل میڈیا پر ایک ایسی منفرد مہم جاری ہے، جس میں صفائی ستھرائی سے وابستہ افراد خود سے منسوب اصطلاحات اور تصورات بدلنے کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں

پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور سے شروع ہونے والی مہم میں صفائی کے کام سے وابستہ افراد کی مختلف تصاویر شیئر کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے مطابق معاملے پر آگاہی پیدا کرنے کے لیے خصوصی ہفتہ منایا جا رہا ہے

اپنی نوعیت کی منفرد مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان میں ایسی پہلی ایڈووکیسی مہم ہے جو سینیٹیشن کے شعبے سے وابستہ افراد کی حفاظت ان کے وقار اور سماجی تحفظ سے متعلق آگاہی پیدا کرنا چاہتی ہے

سوشل میڈیا پر فیسبک، ٹوئٹر، لنکڈاِن اور انسٹاگرام پر جاری مہم کے دوران صفائی کے کام سے وابستہ مرد اور خواتین کی ایسی تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں، جن میں وہ اپنے ہاتھوں میں مختلف نعروں پر مشتمل کتبے پکڑے کھڑے دیکھے جا سکتے ہیں

”عزت میرا حق ہے“ ، ”میں صفائی والا ہوں، چوہڑا نہیں“ ، ”آپ کے عزت کے دو بول میرا حوصلہ بڑھاتے ہیں“ ، ”میں اکیسویں صدی میں بھی چوہڑا کیوں؟“ جیسے نعروں پر مبنی بینر اور پوسٹر اٹھائے افراد کی تصاویر پر سوشل میڈیا صارفین انہیں سراہتے دکھائی دیتے ہیں

پاکستان کے مختلف شہروں میں واٹر اور سینیٹیشن سے متعلق سرکاری اداروں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اپنے اپنے اکاؤنٹس سے ان تصاویر کو شیئر کرتے ہوئے صفائی کے کام سے وابستہ افراد سے متعلق رویے بدلنے پر زور دے رہے ہیں

چوہدری فواد نامی صارف نے مہم کے نعروں سے اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ’بالکل ٹھیک بات کہی ہے، چوہڑے تو وہ ہوتے ہیں جو گند ڈالتے ہیں۔‘

رانا عمر منج نامی ہینڈل نے صفائی ستھرائی سے وابستہ افراد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ ’صفائی کرنے والا گند ڈالنے والے سے لاکھ درجے بہتر ہے۔ آپ لوگوں کی وجہ سے ہمارا اردگرد کا ماحول رہنے کے قابل ہے۔‘

پاکستان میں اپنی نوعیت کی اس منفرد مہم کے پس پردہ موجود میری جیمس گل ہیں، وہ 2013 سے 2018 تک خواتین کی مخصوص نشستوں پر رکن پنجاب اسمبلی رہ چکی ہیں

میری جیمس گل

میری جیمس گل پیشے کے لحاظ سے قانون دان اور مقامی بارایسوسی ایشنز کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی فورم کی رکن بھی ہیں

میری جیمس گل کہتی ہیں کہ 2017ع میں عمر کوٹ، سندھ میں صفائی کرنے والے ملازمین کو بچانے کی کوشش میں ان کے سپروائزر عرفان مسیح کی موت ہوئی تھی۔ اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے گٹر میں اترنے والے عرفان مسیح کو نازک حالت میں جب ہسپتال پہنچایا گیا، تو ڈاکٹر نے جسم پر موجود گندگی کی وجہ سے مریض کو دیکھنے سے انکار کر دیا تھا

میری جیمس نے کہا کہ ’اس واقعے کے بعد خیال پیدا ہوا کہ اس معاشرتی رویے کی بہتری پر کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ لوگوں کو احساس دلایا جائے کہ جنہیں ہم چوہڑا کہہ کر پکارتے ہیں، وہ معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔‘

میری جیمس گل کے مطابق تین برس قبل کوئی صفائی ستھرائی سے وابستہ افراد کو ہیرو ماننے پر تیار نہیں تھا، لیکن مسلسل آگاہی مہم کی وجہ سے اب لوگوں نے نہ صرف ان کی جانب توجہ کرنا شروع کی ہے بلکہ مشکل حالات سے متعلق ہمدردی کا احساس بھی نمایاں ہوا ہے

حال ہی میں سرگودھا میں صفائی کے دوران ہلاک ہونے والے دو افراد کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سینیٹیشن کا شعبہ ملک بھر میں مقامی حکومتوں کے پاس ہے، جو کہیں وسائل اور کہیں ترجیحات کی وجہ سے سینیٹیشن ورکرز کو حفاظتی آلات اور مناسب سہولیات نہیں دے سکتے

آئندہ اہداف کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سینیٹیشن ورکرز کو لیبر پالیسی میں خطرناک پیشہ تسلیم نہیں کیا، پوری کوشش ہے کہ پالیسی بنانے والوں کو معاملے کی اہمیت باور کراکے قائل کیا جائے کہ سینیٹیشن ورکز کو بھی کان کنوں اور تعمیراتی شعبے سے وابستہ افراد کی طرح درجہ دیا جائے، تاکہ ان کے لیے بھی حفاظتی معاملات بہتر ہو سکیں


جیمس میری کے مطابق اس وقت لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے پاس نو ہزار سینیٹیشن ورکرز ہیں، سبھی مسیحی ہیں، کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ ہم نے تین سو سرکاری اشتہارات جمع کیے، جن میں ان ملازمتوں کو اقلیتی کوٹہ قرار دیا جاتا ہے۔ کراچی سے گلگلت بلتستان تک رائج اس پالیسی کے حوالے سے سپریم کورٹ گئے ہیں کہ سرکار بتائے کہ کس پالیسی کے تحت پورے ملک میں ان ملازمتوں پر تقرر کے لیے اقلیتی برادریوں سے تعلق ہونا لازم ہے۔‘

میری جیمس گل کا کہنا تھا کہ اٹھارویں صدی کے نصف میں امریکی مشنریز کے کام کے نتیجے میں چوہڑا کہلانے والی پوری برادری نے مسیحت اختیار کر لی تھی، یہ لوگ صفائی ستھرائی سے وابستہ تھے۔ اس سے قبل اس پیشے سے وابستہ افراد کو بھنگی کہا جاتا تھا، تاہم جب بڑی تعداد میں چوہڑوں نے مذہب بدلا تو بھنگی کا لفظ بدل کر چوہڑا اور پھر جب اس کا انگریزی ترجمہ ہوا تو اسے سویپرز کر دیا گیا

سینیٹیشن ورکرز سے متعلق رویوں کی تبدیلی کے لیے کام کرنے والی میری جیمس گل کے مطابق گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ زبانی طور پر نہ سہی لیکن عملی طور پر لفظ چوہڑے کو ایک مخصوص برادری یا پیشے سے خاص کر کے اسے بطور تضحیک استعمال کیا جانے لگا۔ ہماری مہم کا مقصد اس انداز کی اصلاح بھی ہے

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں سینیٹیشن ورکرز، ان کے پس منظر، مسائل اور دیگر امور سے متعلق ایک تحقیق بھی شائع ہو چکی ہے۔ اس کے اعداد و شمار سے واضح ہے کہ پاکستان بھر میں سینیٹیشن کے کام سے وابستہ افراد میں نوے فیصد کرسچن کیمونٹی سے تعلق رکھتے ہیں

جب میری جیمس سے پوچھا گیا کہ کیا مہم سے کوئی فرق پڑا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں خبر آتی کہ فلاں شہر میں صفائی کا کام کرتے ہوئے اتنے افراد بیہوش ہو گئے، یا زہریلی گیس کی وجہ سے دم گُھٹنے سے ہلاک ہو گئے، تو اس معاملے پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جاتی تھی۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران آگاہی کے حوالے سے ہونے والے کام کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگوں نے اب صفائی ستھرائی کے کام سے وابستہ افراد کو ٹیبو سمجھنے یا چوہڑے جیسے لفظوں کو حقارت سے دیکھنے کے بجائے اس پیشے سے وابستہ افراد کو اور ان کے مسائل کو توجہ دینا شروع کی ہے

’رضاکارانہ طور پر ’سویپرز آر سپر ہیروز‘ مہم کا سارا کام سنبھالنے والی میری جیمس گل کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر پہلی پوسٹ سے لے کر آج تک دیکھنے والوں نے جو ردعمل دیا، وہ بہت حوصلہ افزا ہے۔ اس سے ہمت بڑھتی ہے کہ اس مہم کو آگے بڑھایا جائے، مجموعی طور پر پاکستانی صارفین کی جانب سے مہم کے لیے ہمدردی بھرے جذبات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close