غیرسرکاری قائداعظم کی تلاش

حامد میر

سوال بڑا سادہ لیکن مشکل تھا۔ کیا آج کا پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستان ہے؟ سینکڑوں طلبا و طالبات نے فوری طور پر جواب میں کہا کہ نہیں نہیں نہیں۔
یہ وہ نوجوان تھے، جنہوں نے بچپن سے یہی سنا ہے کہ پاکستان قائداعظم نے بنایا تھا۔ یہ نوجوان اسکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی آف لاہور کے گجرات کیمپس میں پہنچ چکے ہیں۔ انہیں کسی استاد نے یہ نہیں بتایا کہ آج کا پاکستان وہ پاکستان نہیں ہے، جو جناح نے 1947ء میں بنایا تھا لیکن زمانہ سب سے بڑا استاد ہے۔ زمانے نے نوجوانوں کو بتا بھی دیا اور سمجھا بھی دیا کہ یہ وہ پاکستان نہیں، جو قائداعظم نے بنایا تھا۔

یونیورسٹی آف لاہور کے گجرات کیمپس میں جناح یوتھ سمٹ کے دوران نوجوانوں کی زوردار ”نہیں‘‘ سن کر میں خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گیا۔ نوجوان ان سرکاری دعوؤں کو نہیں مانتے کہ حکومت آج کے پاکستان کو بابائے قوم کی تعلیمات کی روشنی میں ازسرنو تعمیر کر رہی ہے۔ جب میں نے نئی نسل کی زبان سے سرکاری سچ کی تردید سنی تو فیصلہ کیا کہ ان نوجوانوں کے سامنے غیرسرکاری قائداعظم محمد علی جناح کو پیش کیا جائے۔

میں نے ان نوجوانوں کو بتایا کہ قائداعظم نے پاکستان تو مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا تھا لیکن ان کی حکومت کا پہلا وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل ایک ہندو دلت تھا۔ اس ہندو دلت کو حکومت میں شامل کر کے قائداعظم نے یہ پیغام دیا کہ پاکستان میں کوئی مذہبی تفریق نہیں ہو گی اور تمام شہری برابر ہوں گے۔

یہ سن کر نوجوانوں نے تالیاں بجائیں۔ تالیوں نے میرا حوصلہ بڑھایا۔ میں نے نوجوانوں کو بتایا کہ علامہ اقبال ایک سنی گھرانے میں پیدا ہوئے، قائداعظم شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن عملی زندگی میں ہمارے یہ بزرگ نہ سنی تھے، نہ شیعہ تھے بلکہ سادہ سے مسلمان تھے۔

قائداعظم کو جب بھی پوچھا گیا کہ آپ شیعہ ہیں یا سنی؟ وہ جواب میں کہتے میں نہ شیعہ ہوں نہ سنی بلکہ صرف ایک مسلمان ہوں کیوں کہ میرے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ بھی صرف ایک مسلمان تھے۔ نوجوانوں نے پھر تالیاں بجا دیں۔

انہیں یہ کسی نے نہیں بتایا تھا کہ قائداعظم کی اہلیہ رتی جناح کا قبول اسلام سنی مسلک کے تحت ہوا اور اگلے روز ان کا نکاح شیعہ روایت کے مطابق ہوا۔ ان کی ایک بہن کی شادی سنی خاندان میں اور دوسری بہن کی شادی شیعہ خاندان میں ہوئی۔

قائداعظم کی نماز جنازہ سنی مسلک کے مطابق ادا کی گئی لیکن ان کی وصیت اسماعیلی روایت کے مطابق تھی۔ ان کی بیٹی نے ایک غیرمسلم سے شادی کی، جس پر وہ خوش نہ تھے اور بیٹی سے قطع تعلق کر لیا لیکن اپنی جائیداد سے بیٹی کو حصہ بھی دیا۔

آج پاکستان کے ہر سرکاری دفتر میں قائداعظم کی تصویر آویزاں ہے اور کرنسی نوٹوں پر بھی قائداعظم کی تصویر نظر آتی ہے۔ 25 دسمبر کو بانی پاکستان کا یوم پیدائش اور گیارہ ستمبر کو یوم وفات بھی منایا جاتا ہے لیکن ریاست پاکستان قائداعظم کی تعلیمات سے کوسوں دور نظر آتی ہے۔

وہ قائداعظم، جنہوں نے 1919ء میں رولٹ ایکٹ کے خلاف اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا، آج اسی قائداعظم کے پاکستان میں اراکین اسمبلی پر انگریزوں کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت بغاوت کے مقدمے بنائے جاتے ہیں۔

وہ قائداعظم، جنہوں نے 1929ء میں اسمبلی کے فلور پر بھگت سنگھ جیسے انقلابی کے حق میں تقریر کی، اسی قائداعظم کے پاکستان میں بھگت سنگھ کو سرکاری طور پر تحریک آزادی کا ہیرو تسلیم نہیں کیا جاتا۔

آج پاکستانی قوم کو یہ سرکاری سچ تو بتایا جاتا ہے کہ حکومت نے ایک بل پاس کر کے جائیداد میں خواتین کے حق کو تحفظ دے دیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ قائداعظم نے 16 ستمبر 1937ء کو سینٹرل لیجِسلیٹیو اسمبلی آف انڈیا سے ایک شریعت بل منظور کروایا تھا، جس کے تحت جائیداد میں مسلمان خواتین کے حقوق کو تحفظ دیا گیا تھا۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ کچھ مسلمان جاگیرداروں نے قائداعظم کو شیعہ سنی کی بحث میں الجھانے کی کوشش کی لیکن آخر میں اسمبلی کے تمام شیعہ اور سنی ارکان نے صرف مسلمان بن کر قائداعظم کی تائید کر دی۔

وہ قائداعظم، جنہوں نے پاکستان بننے سے دس سال قبل خواتین کو جائیداد میں حصہ دلانے کے لیے قانون منظور کرایا، اس قائداعظم کے پاکستان میں آج ایک نیا قانون تو بنا لیا گیا لیکن ابھی تک خواتین کو جائیداد میں حصہ نہیں ملتا کیوں کہ یہ پاکستان دراصل قائداعظم کا پاکستان نہیں۔ یہاں قانون ہر طاقت ور کی لونڈی بن جاتا ہے۔

جن لوگوں نے اپنے سرکاری دفاتر میں قائداعظم کی تصاویر لگا رکھی ہیں، وہ قائداعظم کے پاکستان میں ایک ٹیلی فون کال کے ذریعے میڈیا پر غیراعلانیہ سینسر شپ لگا دیتے ہیں۔ دراصل ان کو کسی نے بتایا ہی نہیں کہ قائداعظم تمام عمر آزادی صحافت کے صرف زبانی کلامی حامی نہیں رہے بلکہ انہوں نے کئی صحافیوں کے لیے خود آواز بلند کی۔

ممبئی کرانیکل کے ایڈیٹر بی جی ہارنی مین کے خلاف ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت کارروائی ہوئی تو قائداعظم نے ان کے حق میں اسمبلی میں تقریر کی۔ 13 مارچ 1947ء کو انہوں نے ممبئی میں صحافیوں کے ایک وفد سے کہا کہ میں توقع رکھتا ہوں کہ آپ کبھی کسی سے نہیں ڈریں گے، اگر میں یا میری پارٹی کبھی کوئی غلطی کریں اور اپنے پروگرام سے ہٹ جائیں تو میں چاہوں گا کہ آپ ایمان داری سے ہم پر تنقید کریں۔

وہ قائداعظم، جو پاکستان بننے سے چند روز قبل صحافیوں کو خود تنقید کی دعوت دے رہے تھے، انہوں نے جب گیارہ اگست 1947ء کو اپنی تقریر میں مذہبی رواداری کی بات کی، تو فون کال کے ذریعے ان کی تقریر سینسر کرنے کی کوشش کی گئی، جو ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین نے ناکام بنا دی۔

قائداعظم نے 14 جون 1948ء کو اسٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے آئین میں موجود ان کے حلف کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور انہیں ان کا حلف پڑھ کر سنایا، جس میں آئین اور مملکت پاکستان سے وفادار رہنے کا وعدہ شامل تھا۔

قائداعظم کی وفات کے بعد جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے بار بار اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔ بار بار آئین توڑا اور اصلی قائداعظم کو پاکستانی قوم سے چھپائے رکھا۔ وہ قائداعظم، جس نے برطانوی سامراج کی طرف سے جج بننے، ممبئی کا گورنر اور وزیر قانون بننے کی پیش کش ٹھکرائی، پھر متحدہ ہندوستان کا وزیراعظم بننے سے انکار کیا، اس قائداعظم کے پاکستان میں فوجی آمروں نے بار بار امریکا کو فوجی اڈے دیے اور جمہوری حکمرانوں نے پاکستان کو آئی ایم ایف کا غلام بنا دیا۔

ایک سامراج دشمن لیڈر قائداعظم کا پاکستان آج عالمی مالیاتی اداروں کا غلام بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان کو پھر سے آزادی دلوانے کے لیے اب کوئی قائداعظم دوبارہ نہیں آئے گا لیکن اگر ہم اپنی نئی نسل کو غیرسرکاری قائداعظم سے روشناس کرا دیں تو شاید وہ پاکستان کو نئی غلامی سے نجات دلا سکتے ہیں۔ صرف حکومت کی تبدیلی سے پاکستان آزاد نہیں ہو گا۔ آزادی کی نئی جنگ جیتنے کے لیے ہمیں غیرسرکاری قائداعظم تلاش کرنا ہو گا۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close