”فیودور سلوگب Fyodor Sologub (یکم مارچ1863 – 5 دسمبر 1927) کا اصل نام فیڈور کُزمک تیترنیکوف تھا. فیودور سلوگب روس کے جانے مانے شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار، ڈرامہ نگار اور مضمون نگار تھے۔ 1895ع میں ان نظموں کا مجموعہ شائع ہوا۔ 1905ع میں ان کی مشہور کتاب The Petty Demon شائع ہوئی، جس نے فیڈور کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یوں تو سلوگب کا اصل میدان شاعری تھا، لیکن وہ اپنے ہم عصر روسی ادیبوں اور شاعروں سے ایک الگ پہچان اور منفرد مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی کہانیوں میں نہ تو چیخوف کی طرح لوگوں کی زندگیوں پر تبصرے کیے، نہ ہی ٹالسٹائی کی طرح صفحات کے ڈھیر لگائے اور نہ ہی میکسم گورکی کی طرح مایوسی یا انقلاب کی تحریک چلائی۔ انہوں نے اپنے خیالات کو پیش کرنے کے لیے ایک نیا انداز اپنایا اور صرف چند پیراگراف میں اپنی بات مکمل کرکے روسی ادب میں مختصر افسانہ نویسی، حکایات نگاری کی روایت ڈال کر اپنے ہم عصروں میں سب سے ممتاز ہوگئے۔ یہاں ہم سنگت میگ کے قارئین کے لیے ان کی سات مختصر کہانیوں کا انتخاب پیش کر رہے ہیں، جو سلوگب کی کتاب The Sweet-Scented Name میں شامل ہیں.“
ایک پتھر کی سرگزشت
شہر میں پتھر کی ایک سڑک تھی.
وہاں سے گزرتی ہوئی ایک گاڑی کے پہیے نے ایک پتھر کو دوسرے پتھروں سے جُدا کر دیا
اُس پتھر نے دل میں سوچا ”مجھے اپنے ہم جنسوں کے ساتھ موجودہ حالت میں نہیں رہنا چاہیے، بہتر یہی ہے کہ میں کسی اور جگہ جاکر رہوں“
اتنے میں ایک لڑکا آیا اور اس پتھر کو اُٹھا کر لے گیا
پتھر نے دل میں خیال کیا ”میں نے سفر کرنا چاہا تو سفر بھی نصیب ہوگیا… صرف مضبوط ارادوں کی ضرورت تھی۔“
لڑکے نے پتھر کو ایک گھر کی جانب پھینک دیا۔
پتھر نے خیال کیا کہ ”میں نے ہواؤں میں اُڑنا چاہا تھا، یہ خواہش بھی پوری ہوگئی… صرف ارادے کی دیر تھی“
پتھر کھٹ سے کھڑکی کے شیشے پر لگا۔
شیشہ یہ کہہ کر چکنا چُور ہوگیا کہ
”بدمعاش!…. ایسا کرنے سے تمہیں کیا حاصل ہوا…“
پتھر نے جواب دیا:
”تم نے بہت اچھا کیا جو میرے راستے سے ہٹ گئے۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی میرے راستے میں حائل ہو… ہر ایک چیز میری مرضی کے مطابق ہونی چاہیے… یہ میرا اصول ہے۔“
یہ کہہ کر پتھر ایک نرم بستر پر جا پڑا…
پتھر نے بستر پر پڑے ہوئے خیال کیا ”میں نے کافی سفر کیا ہے، اب ذرا دو گھڑی آرام تو کرلوں…“
ایک نوکر آیا اور اس نے پتھر کو بستر پر سے اُٹھا کر باہر سڑک پر پھینک دیا
اب پتھر بہت شرمندہ ہوا. اس نے سوچا کہ دوسرے پتھروں کو بلندی سے پستی کے اس سفر کی کیا توجیہہ دوں؟
اس نے اپنے ہم جنسوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا
”بھائیو! خدا تمہیں سلامت رکھے… میں ابھی ابھی ایک عالیشان عمارت سے ہو کر آ رہا ہوں.. لیکن سچ پوچھو تو اِس کی شان و شوکت مجھے بالکل متاثر نہ کر سکی.. میرا دل عام پتھروں سے ملاقات کے لیے بے تاب تھا، چنانچہ اب میں آپ سب کے درمیان واپس آگیا ہوں…“
سڑک اور روشنی
ایک لمبی سڑک پر لوگ گھوڑوں اور بگھیوں کے ذریعے سفر کرتے تھے، اور ان سڑکوں کو صرف ستارے ہی روشنی بخشتے تھے
راتیں لمبی ہوتی تھیں، لیکن ان گھوڑوں کی آنکھیں اس اندھیرے کی عادی تھیں، سڑک کے تمام راستوں کی ناہمواریوں اور ہواؤں سے وہ واقف تھے
لیکن کچھ عرصے بعد ہی انسانوں نے محسوس کیا کہ رات میں سفر کرتے کرتے گھوڑوں کی رفتار کچھ سست ہوگئی ہے
اس پر انہوں نے آپس میں کہا
”کیا ہی بہتر ہو کہ ہم لالٹین کی روشنیاں ساتھ لیں، تاکہ راستے دیکھنے میں آسانی ہو.. اس کے بعد گھوڑے زیادہ تیزی سے آگے بڑھ سکتے ہیں اور ہم جلد ہی اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے“
دوسروں نے اس پر اتفاق کیا اور لالٹین کو جلادیا، لیکن گھوڑوں کی رفتار سے اب بھی وہ مطمئن نہ تھے
”کوئی بات نہیں،“ لوگوں نے کہا ”ہم اور روشنی کریں گے۔“
انہوں نے لالٹین پر اکتفا نہ کیا، اس کے ساتھ انہوں نے درختوں کی شاخوں کو توڑا اور ان سے مشعلیں بنائیں، اور سڑکوں پر جگہ جگہ الاؤ بھی سلگا دئیے.. سڑک پر روشنی اتنی بڑھی کہ ستاروں کی روشنی دھندلانے لگی…
لیکن راستے کی زیادہ روشنی مصیبت بن گئی.. مسافروں نے دیکھا کہ صرف ایک ہی راستہ نہیں تھا، جہاں جہاں روشنی پھیل رہی تھی، وہ ایک الگ راستے کا گمان پیدا کر رہی تھی
مسافر آپس میں جھگڑ پڑے کہ درست راستہ کون سا ہے اور پھر سب اپنے اپنے حساب سے الگ ہو گئے۔ صبح کی روشنی ہوئی تو ہر ایک نے دیکھا کہ ہر کوئی اپنی منزل سے کوسوں دور ایک الگ راستے پر جا نکلا تھا..
مساوات
ایک بڑی مچھلی نے ایک ننھی سی مچھلی کو پکڑ لیا اور اسے نگل جانا چاہا
ننھی مچھلی نے چلا کر کہا ”یہ سراسر نا انصافی ہے.. میں تمہاری طرح زندہ رہنا چاہتی ہوں.. قانون کی نظر میں ہم سب مچھلیاں یکساں ہیں۔“
بڑی مچھلی نے جواب دیا ”میں تم سے اس بات پر ہرگز بحث کرنے کے لئے تیار نہیں کہ ہم سب ایک جیسے ہیں۔ اگر تم میرا شکار ہونا پسند نہیں کرتیں، تو آؤ مجھے اپنا شکار بنالو“
”….آؤ نا! مجھے نِگل لو… ڈرتی کاہے کو ہو۔“
چھوٹی مچھلی نے بڑی مچھلی کو نگلنے کے لئے منہ کھولا… مگر بے سود…
آخر کار تنگ آ کر کہنے لگی ”بہن! تم مجھے نِگل لو“
جادو کی چھڑی
کسی زمانے میں زمین پر ایک بہت حیرت انگیز چھوٹی سی چھڑی تھی، ایک جادو کی چھڑی… یہ چھڑی چیزوں کو غائب کر سکتی تھی!
اگر آپ کو کوئی چیز پسند نہیں، تو اُس چیز کو اِس چھڑی کے ساتھ چھونے سے وہ چیز غائب ہوجائے گی۔ اگر آپ کو اپنی پرانی زندگی پسند نہیں، تو صرف چھڑی کو ہلاؤ اور اپنی زندگی کی ہر وہ چیز، جو تمہیں پسند نہیں، اسے غائب کردو.. آپ کی ہر ناپسندیدہ چیز ایک خواب بن جائے گی اور آپ بالکل نئی زندگی شروع کر سکیں گے
چھڑی کی اس تاثیر کا نتیجہ آخر کار یہ نکلا کہ پھر دنیا کی ہر شے غائب ہوتی گئی اور زمین پر صرف یہی حیرت انگیز چھوٹی سی چھڑی باقی بچی.
پتوں کی آزادی
کچھ پتّے ایک مضبوط ڈنٹھل کے ساتھ ایک شاخ سے جڑے ہوئے تھے، انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی زندگی بہت سست ہے، انہیں یہ بات پسند نہیں تھی
وہ اپنے ارد گرد پرندوں کو پرواز کرتے اور بلی کے بچوں کو اچھل کود کرتے دیکھتے، اور ان بادلوں کو بھی، جو ہوا کے ساتھ اڑتے چلے جاتے تھے.. لیکن وہ شاخ سے جڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے خود کو ہلا جلا کر اس مضبوط ڈنٹھل کو توڑنے کی کوشش کی، تاکہ وہ آزاد ہو سکیں..
ایک دن انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: ”ہم آزاد زندگی گزار سکتے ہیں، اب ہم بہت بڑے ہوچکے ہیں، لیکن ہمیں ابھی بھی ان شاخوں اپنے ساتھ جکڑ کر اپنی نگرانی میں رکھا ہوا ہے۔ ان قدیم اور پرانی دقیانوسی شاخوں میں ہم قید سے ہو کر رہ گئے ہیں“
انہوں نے خود کو جھٹپٹایا.. یہاں تک کہ آخرکار وہ شاخ سے آزاد ہوگئے اور کچھ ہی دیر میں زمین پر آگرے..
پتوں کو درخت سے آزادی ملے کچھ ہی دیر گزری تھی، کہ باغبان آیا اور ان سب پتوں کو سمیٹ کر کچرے دان میں پھینک دیا!
چابیاں
ایک ماسٹر چابی (Skeleton Key) نے اپنی پڑوسی چابی سے کہا:
”میں ہر جگہ جاتی ہوں، لیکن تم یہیں پڑی رہتی ہو، میں کہاں کہاں نہیں گئی… لیکن تم ہمیشہ گھر میں ہی قید رہی ہو۔ تم اس بارے میں کیا سوچتی ہو؟“
پرانی چابی جواب دینا نہیں چاہتی تھی، لیکن پھر بھی اس نے کہا ”گھر کے اسٹور میں ایک مضبوط لکڑی کا دروازہ ہے، جسے میں ہی بند کرتی ہوں اور جب وقت آتا ہے تو میں ہی اسے دوبارہ کھول دیتی ہوں۔“
ماسٹر چابی بولی ”وہ تو ٹھیک ہے، لیکن اس دنیا میں اور بھی تو بہت سے دروازے موجود ہیں؟“
”مجھے کسی دوسرے دروازے کے بارے میں جاننے کی ضرورت نہیں ہے“ پرانی چابی نے کہا ”میں انہیں کھول نہیں سکتی“
” وہی تو… تم نہیں کھول سکتی ہو، لیکن میں ہر قفل کی چابی ہوں.. میں ہر دروازہ کھول سکتی ہوں!“
یہ کہہ کر ماسٹر چابی سوچنے لگی ”بے شک یہ بوڑھی چابی تو بڑی ہی بے وقوف ہے.. صرف ایک ہی طرح کا تالا کھولنا جاتی ہے۔“
لیکن بوڑھی چابی نے اس سے کہا ”تم ایک چور چابی ہو، لیکن میں ایک سچی اور ایمان دار چابی ہوں“
اس ماسٹر چابی کو سمجھ نہیں آیا، وہ نہیں جانتی تھی کہ سچائی اور ایمانداری کیا ہوتی ہے، اس نے سوچا کہ پرانی چابی بہت بوڑھی ہوگئی ہے، اسی لیے اس کا دماغ چل گیا ہے.
مٹھائی کی تقسیم
ایک چھوٹی لڑکی کے ہاتھ میں کاغذ کے تھیلے میں کچھ مٹھائی تھی۔ ایک ایک کرکے وہ مٹھائیاں کھانے لگی، یہاں تک کہ صرف ایک ہی مٹھائی باقی بچی
اب اس نے اپنے آپ سے پوچھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے…؟ آیا وہ اس مٹھائی کو کھالے یا اسے غریبوں کو دینا چاہئے…؟
اس نے ارادہ کیا کہ میں اسے کسی غریب لڑکی کو دوں گی، لیکن تھوڑی دیر کے بعد اس نے سوچا ”بہتر یہ ہوگا کہ مٹھائی کو آدھا تقسیم کرلوں اور آدھا خود کھالوں اور آدھا کسی غریب کو دے دوں..“ اس نے آدھی مٹھائی کھالی
پھر اس نے سوچا کہ ”مٹھائی کا ٹکڑا ابھی بھی بہت بڑا ہے، کیوں نہ اسے دوبارہ دو حصوں میں توڑ دوں اور آدھی کسی غریب کو دے دوں۔“
آخر تھوڑی دیر میں مٹھائی کا ایک چھوٹا سے ٹکڑا رہ گیا ،جو کسی غریب کو دینے کے قابل نہیں تھا.. لہٰذا اس نے وہ بھی خود ہی کھا لیا…