اکتیس برس کی طویل قانونی جنگ کے بعد اپنا حق حاصل کرنے والے استاد کی کہانی

ویب ڈیسک

اترکھنڈ – بھارتی ریاست اترکھنڈ سے تعلق رکھنے والے پچپن سالہ جیرلڈ جان اکتیس برس کی طویل قانونی جنگ کے بعد وہ نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، جس سے تیس برس قبل انہیں محروم رکھا گیا تھا

تفصیلات کے مطابق کئی سال قبل جب وہ مقابلے کے ایک امتحان میں اول نمبر پر آنے کے باوجود بھی نوکری حاصل نہ کر سکے تو انہوں نے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا تھا، اب وہ آخر کار وہ اپنا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں

ان کی بپتا روسی مصنف انتون چیخوف کی کہانی ”دی بیٹ“ کے نوجوان وکیل کے مرکزی کردار کی یاد دلاتی ہے، جو پندرہ سال کی قید تنہائی کے بعد دنیا سے بیزار ہو جاتا ہے۔ اکتیس برس پر محیط طویل جدوجہد کے بعد بھی جیرلڈ جان کو کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے، یا شاید اس طویل قانونی جدوجہد نے ان کے غصے، بے چینی اور خوشی جیسے جذبات کو ہی ختم کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب وہ کسی کو کچھ کہنا ہی نہیں چاہتے

یہ سنہ 1989ع کی بات ہے، جب میں انڈیا کے ضلع دہرادون کے سی این آئی لڑکوں کے کالج میں کامرس مضمون کے استاد کے لیے ایک نوکری نکلی تھی۔ اس وقت چوبیس برس کے جیرلڈ جان نے بھی اس نوکری کے لیے درخواست دی اور داخلہ ٹیسٹ کے بعد میرٹ لسٹ میں پہلے نمبر پر آئے تھے

لیکن محکمہ تعلیم کے حکام نے شارٹ ہینڈ نہیں آنے جواز بتاتے ہوئے  انہیں نوکری دینے سے انکار کر دیا، لہٰذا یہ نوکری اس شخص کو دے دی گئی جو جیرلڈ کے بعد دوسرے نمبر پر آیا تھا

حالانکہ اس نوکری کے حصول کے لیے شارٹ ہینڈ جاننے کی کوئی شرط سرے سے تھی ہی نہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے اس انصافی پر سنہ 1990ع میں الہ آباد کی ہائی کورٹ میں اس کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا

ریاست اترکھنڈ بننے کے بعد یہ مقدمہ نینیتال میں اترکھنڈ ہائی کورٹ میں منتقل ہو گیا۔ سنہ 2007ع میں اترکھنڈ ہائی کورٹ نے اس مقدمے کا فیصلہ جیرلڈ کے خلاف دے دیا، لیکن انہوں نے شکست نہ ماننے کی ٹھانی اور اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر دی

بلاآخر دسمبر 2020ع میں بھارت کی سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ جنوری 2021ع سے انہیں سی این آئی بوائز کالج کے گیارہویں اور بارہویں جماعت کے لیے سب سے سینیئر استاد کے طور پر تعینات کیا جائے

اس کے بعد سے جان اب اس کالج میں رواں برس اپریل سے پرنسپل کے ریٹائر ہو جانے کے بعد سے قائم مقام پرنسپل کے طور پر کام کر رہے ہیں

جب جیرلڈ جان سے اس معاملے پر بات کرنے کا کہا گیا، تو انہوں نے کہا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اخبارات نے پہلے ہی بہت کچھ بڑھا چڑھا کر شائع کیا ہے

درحقیقت وہ اس بات پر نالاں ہیں کہ مقامی میڈیا نے ایسی رپورٹس شائع کی تھیں، جن کے مطابق عدالتی حکم کے بعد اترکھنڈ کے محکمہ تعلیم نے جان کو بیس برس کے واجبات ادا کیے ہیں اور اب کے دس برس کے واجبات اترپردیش کی جانب سے ملے ہیں، لیکن حقیقت میں انہیں اب تک کوئی رقم نہیں ملی ہے

وہ اپنے متعلق اخبارات میں غلط معلومات شائع کرنے پر دکھی اور رنجیدہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک کچھ نہیں ملا ہے اور جو ابھی ملنا ہے وہ بھی محض ساٹھ فیصد ہے۔ جان کو بتایا گیا ہے کہ محکمہ تعلیم کا اپنا ایک طریقہ کار ہے جو چل رہا ہے۔ انہیں جلد آج کل میں رقم مل جائے گی۔ وہ اترپردیش کی جانب سے ملنے والے واجبات پر بھی پریشان نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ انہیں رقم دے، جو اس کا حق ہے

جان کے ساتھ سی این آئی کالج میں پڑھانے والے ایک لیکچرر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اتنی طویل جدوجہد کرنے کے لیے بہت ہمت درکار ہوتی ہے اس لیے ہم سب جان کی اتنی عزت کرتے ہیں. اس صورتحال میں سب سے مشکل غیر یقینی کی صورتحال ہوتی ہے آپ کچھ اور کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جلد فیصلہ آ جائے گا اور انصاف مل جائے گا، لیکن کسی کو کیا پتا کہ یہ جدوجہد کتنا عرصہ چلے۔ میرے نزدیک انسان بہت اکیلا ہے اور اسے اکیلے ہی یہ جنگ لڑنی ہوتی ہے

لیکن جان اس سے بھی زیادہ لاتعلق نظر آتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اتنی طویل جدوجہد کے دوران انہیں کبھی کوئی اور کام کرنے کا خیال نہیں آیا، تو انہوں نے کہا کہ آپ کیا کر سکتے ہیں۔ مجھے پڑھانا ہی آتا تھا اور میں پڑھاتا رہا ہوں ۔ زندگی گزارنے کے لیے کچھ تو کرنا تھا اس لیے اپنی گزر بسر ٹیوشن پڑھا کر کرتا رہا

اس سب کے دوران، وہ شخص جسے جان کی جگہ نوکری ملی تھی اپنی ملازمت کی مدت مکمل کر کے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ جب کہ محکمے کے اس افسر کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی، جس نے جان کی جگہ دوسرے امیدوار کو نوکری دینے کا فیصلہ کیا تھا

جان کے ساتھی لیکچرر نے کہا کہ اگر جیرلڈ جان چاہتے، تو ان افراد کے ساتھ مل سکتے تھے اور بہت کچھ ہو سکتا تھا لیکن وہ صرف اپنی عزت کے لیے لڑے

جیرلڈ جان جنہیں چوبیس برس کی عمر میں جان بوجھ کر یا اتفاقیہ طور پر نوکری سے محروم کر دیا گیا تھا، انہوں نے اب تک شادی نہیں کی۔ وہ اس پر قہقہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ پہلے انہوں نے اپنی والدہ کی بات نہیں سنی اور بعد میں یہ کبھی ہوئی نہیں

ان کے ساتھی لیکچرار کہتے ہیں کہ سر (جیرلڈ جان) کی عزت نفس بہت زیادہ ہے اور انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ انصاف ہونے تک شادی نہیں کریں گے۔ اس متعلق جان کہتے ہیں کہ اگر وہ شادی کر لیتے تو وہ یہ جنگ لڑنے کے قابل نہیں رہتے۔ اتنی طویل جدوجہد کے دوران ان کے رشتہ داروں تک نے یہ یقین کرنا چھوڑ دیا تھا کہ وہ یہ مقدمہ جیت پائیں گے

قدیم ترین کالجوں میں سے ایک
سی این آئی انٹر بوائز کالج سنہ 1854ع میں قائم ہوا تھا اور یہ دہرہ دون کا سب سے پرانا تعلیمی ادارہ ہے۔ یہ اس وقت آگرہ صوبے کے چرج آف شمالی انڈیا کے زیر انتظام تھا. لال اینٹوں سے بنی اس عمارت کی دیواروں پر اب گھاس اگنا شروع ہو گئی ہے۔ یہ عمارت 167 برس پرانی ہے.

جب جان سے اتنے قدیم اور تاریخی کالج کا حصہ بننے پر فخر محسوس کرنے کا پوچھا گیا تو ان کے چہرے پر کوئی تاثرات نہیں تھے

جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں کس چیز پر افسوس ہے اور کس چیز کے حاصل کرنے پر خوشی ہے، تو جیرلڈ جان کا کہنا تھا کہ مجھے کسی سے کوئی شکوہ یا گلہ نہیں ہے۔ جہاں تک پیسے کا تعلق ہے وہ انہیں مل جائے گا

جیرالڈ جان کہتے ہیں ”اب ایسا لگتا ہے کہ مجھے پینشن کی رقم کے لیے جدوجہد کرنا پڑے گی.“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close