اسلام آباد – وزیراعظم پاکستان کی جانب سے ”نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبہ“ شروع کیے جانے کے باوجود پاکستان میں گھروں کی قلت کا مسئلہ بدستور سنگین ہے اور گھروں کی تعمیر کے لیے قرضوں کی دستیابی کی شرح دنیا اور خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اب بھی بہت کم ہے
ایک سرکاری تھنک ٹینک نے وزیراعظم کے ”نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام“ کا جائزہ لیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ابھی بھی شہریوں کو گھروں کے لیے قرضوں میں سست روی اور مشکلات کا سامنا ہے اور رہائشی بحران کی وجہ سے بہت سے خاندان غیر صحت مند اور غیر محفوظ گھروں کے ساتھ انتہائی مشکل حالات میں رہنے پر مجبور ہیں
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی ایک تحقیق میں پاکستان میں گھروں کی قلت کے بحران کو سنگین قرار دیا گیا ہے اور اس کے خاتمے کے لیے جدید شہری پلاننگ اور گھروں کے رہن کا نظام وضع کرنے پر زور دیا گیا ہے
پائیڈ کی تحقیق کے مطابق ’ہاؤسنگ فنانس کے معاملے میں پاکستان کی صورت حال بہت خراب ہے۔ پاکستان علاقائی اور عالمی صورتحال کے مقابلے میں جی ڈی پی کے رہن کے تناسب کے لحاظ سے بہت پیچھے ہے۔‘
تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے ’انڈیا میں جی ڈی پی کے تناسب سے گھروں کا رہن 10 فیصد، بنگلہ دیش میں پانچ فیصد جبکہ پاکستان میں یہ صرف ایک فیصد ہے۔ اسی طرح خطے کے دیگر ممالک جیسے کہ ملائیشیا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا میں یہ شرح پاکستان سے بہت بہتر ہے۔‘
تحقیق کے مطابق ملک میں اس وقت 90 لاکھ گھروں کی قلت ہے جبکہ ہر سال اس قلت میں سالانہ تین لاکھ یونٹس کا اضافہ ہو رہا ہے
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے ’میرا گھر میرا پاکستان اسکیم‘ میں ایک سو ارب روپے سے زائد کے قرضوں کی منظوری کو سراہنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے ایک تقریب بھی منعقد کی تھی، جس کے مہمان خصوصی وزیراعظم عمران خان تھے
اس موقع پر گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے بتایا تھا کہ ’ہم نے گھروں کے لیے 109 ارب روپے کی منظوری دی ہے جب کہ اب تک ہمیں اب 260 ارب روپے کی درخواستیں آئی ہیں اور 32 ارب روپے بینک ان لوگوں کو دے چکے ہیں۔‘
پاکستان میں ہاؤسنگ کا سنگین بحران کے حوالے سے پائیڈ کی تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گھروں کی تعمیر کا پروگرام اس وقت تک بڑے پیمانے پر شروع نہیں ہوگا جب تک کہ پاکستان میں مورگیج یا رہن کی صنعت قائم نہ ہو جائے
بہت سے ممالک پہلے ہی رہن کی صنعت بنا کر اور عام لوگوں کو گھر خریدنے یا بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر قرضے فراہم کر کے اپنی رہائش کی کمی پر قابو پا چکے ہیں۔
پاکستان کے قیام کے 74 سال بعد بھی ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن گھروں کی تعمیر کے لیے ملک کی واحد فنانسنگ کمپنی ہے
رپورٹ کے مطابق ’حکومت کو نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے تحت قرضوں کی شرح بڑھانے کے لیے بینکوں کو یقین دلانا ہوگا کہ ان کی رقم انہیں واپس ملے گی۔‘
’اگر حکومت بینکوں کو ممکنہ نقصانات سے بچانے کے لیے رقم کی واپسی کو یقینی بنانے کا نظام سخت نہیں کرتی تو نیا پاکستان ہاؤسنگ کی کامیابی ایک خواب رہے گی۔‘
رپورٹ کے مطابق شہریوں کو ابھی بھی گھروں کی تعمیر کے لیے بینکوں سے قرض حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے
پائیڈ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ’نیا پاکستان اسکیم میں درمیانی آمدنی والے گروپ جیسے کہ ڈاکٹر، کالج/ یونیورسٹی کے اساتذہ، کمپنیوں کے لیے کام کرنے والے پیشہ ور افراد کے لیے تیار گھروں کی سہولت بڑھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ افراد قرض واپس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کو گھروں کی شدت سے ضرورت بھی ہے۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2030ع تک پاکستان کی نصف آبادی شہروں میں منتقل ہو جائے گی جبکہ ابھی یہ شرح 36 فیصد ہے۔‘
پائیڈ کے مطابق اس اہم منصوبے کی کامیابی کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط مالیاتی ماڈل کی ضرورت ہو گی
اس کے علاوہ ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں بہتری لانا ہوگی اور زمین کی مالیت کے حوالے سے اصلاحات بھی کرنا ہوں گی، جن میں زمین کی دوبارہ تقسیم اور زمین کے استعمال کے قوانین شامل ہیں
اس کے علاوہ اس سیکٹر کو دستاویزی شکل دینا ہوگی اور ایک ریئل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی بھی قائم کرنی ضروری ہے.