لندن – انسانوں اور بیکٹیریا کی لڑائی طویل عرصے سے جاری ہے، کیونکہ بیکٹیریا تیزی سے اپنی صورت تبدیل کر کے مزید سخت جان اور خطرناک ہوتے جا رہے ہیں
اب مٹی میں ایک نئے مرکب کا انکشاف ہوا ہے، جو عموماً اسپتالوں میں پائے جانے والے ایسے ہی سخت جان بیکٹیریا کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
اسپتالوں میں انفیکشن کی وجہ بننے والا سب سے اہم جرثومہ ”ایسینیٹو بیکٹر بومینیائی“ ہے، جو ہر دوا کو بے اثر بنارہا ہے۔ اسپتالوں میں گھومنے والا یہ بیکٹیریا نہ صرف پینسلین اور ٹیٹراسائیکلین جیسی اہم اینٹی بایوٹک ادویہ کو ناکام بنا رہا ہے بلکہ جراثیم کے خلاف ہمارا آخری ہتھیار کولسٹائن بھی اس سے ہار مان رہا ہے۔ اگر یہ دوا ناکام ہوجائے تو مریض مکمل طور پر انفیکشن کی زنجیروں میں قید ہوجاتا ہے
یہی وجہ ہے کہ خود عالمی ادارے خبردار کررہے ہیں کہ ہم خطرناک بیکٹیریا کے خلاف اپنی جنگ ہار رہے ہیں اور اگر یہ رحجان جاری رہا تو چند عشروں بعد ہی ناقابلِ علاج بیکٹیریا کے اثرات سالانہ کروڑوں جانوں کا خراج لینے لگیں گے
وجہ یہ ہے کہ کولسٹائن کے استعمال میں اضافہ ہوا تو بالخصوص ایسینیٹو بیکٹر بومینیائی تیزی سے بدلا اور اب اس دوا کی افادیت کم کر رہا ہے
لیکن، فطرت مہربان ہے.. سو اچھی خبر یہ ہے کہ اب ماہرین نے مٹی میں اسی بیکٹیریا کا ایک رشتے دار ڈھونڈ لیا ہے۔ اس کے لیے دس ہزار بیکٹیریا کے جینوم کو پڑھا گیا تو معلوم ہوا کہ پینتیس جین ایسے ہیں، جو کولسٹائن جیسی ساخت اور مزاج رکھتے ہیں
اس طرح کئی مراحل سے گزر کر تجربہ گاہ میں ایک مرکباتی سالمہ (کمپاؤنڈ مالیکیول) بنایا گیا، جسے ’میکولیسن‘ کا نام دیا گیا
اب اسے تجربہ گاہ میں رکھ کر ایسے بیکٹیریا کا سامنا کرایا گیا، جو اس سے قبل کولسٹائن اینٹی بایوٹک کو بری طرح ناکام بنارہے تھے۔ پھر چوہوں کو ایکس ڈی آر انفیکشن سے بیمار کیا گیا، جس کے سامنے بھی ہماری آخری اینٹی بایوٹکس بے کار ہوتی ہے
حیرت انگیز طور پر سخت جان بیکٹیریا سے متاثر چوہے اس کمپاؤنڈ کے ایک ٹیکے سے ہی مکمل طور پر تندرست ہوگئے، یعنی نیا مرکب انتہائی خطرناک بیکٹیریا کو بھی ناکام بنانے کے قابل ہوچکا تھا
اگلے مرحلے میں اس کی دوا بنا کر، اس کو ایسے مریضوں پر آزمایا جائے گا، جو مکمل طور پر اینٹی بایوٹکس سے مایوس ہوچکے ہیں.