ایک تصویر ایک کہانی – 23

گل حسن کلمتی

کہانی ایک سرکاری لاوارث عمارت کی

 

آج کہانی ہے ایک پرانی پتھر کی عمارت کی، جسے قائم ہوئے 122 سال ہو چکے ہیں اور جو لاوارثی کے باجود آج بھی جاذبِ نظر ہے. تین کمروں پر مشتمل یہ عمارت لیاری میں لیمارکیٹ کے قریب شیدی ولیج روڈ اور فٹبالر علی نواز روڈ کے نکڑ پر واقع ہے. علی نواز روڈ کا پرانا نام غالباً ڈی ڈی چوھدری روڈ تھا۔ عمارت کے مین دروازے کے اوپر لکھا ہوا ہے ۔ Muncipal Vaccination & Registration Office.1912
یہ عمارت 1812ع میں کراچی میونسپلٹی کے جانب سے میونسپل ویکسینیشن اینڈ رجسٹریشن آفیس کے لیے قائم کی گئی تھی.

کراچی میں 1879ع لازمی ٹیکے لگانے کا ایکٹ Compulsory Vaccination act.1879 قائم کیا گیا. 1880ع میں اس پر عمل درآمد شروع کیا گیا۔جس کے لیے ایک الگ ادارہ قائم کیا گیا. ادارے میں ایک سپرنٹنڈنٹ ، ویکسی نیٹر، ایک کلرک، دو کمپاؤنڈر اور ایک سپاہی بھرتی کیا گیا. اس عملے کی جانب سے گھر گھر جاکر خصوصاً چیچک اور خسرہ کے ٹیکے لگائے جاتے تھے۔ جب لوگوں نے دلچسپی نہیں لی تھی، تو ایکٹ کو مزید سخت کیا گیا. ٹیکے نہ لگوانے والوں پر جرمانہ عائد کیا جاتا تھا۔ دس سال تک سزا کا یہ قانون نافذ رہا، بعد میں جب لوگ عادی ہوگئے، تو اسے ختم کر دیا گیا. اس ادارے کے قائم ہونے سے بیماریوں میں کمی آئی ۔ یہ آفس لیاری کوارٹرز کے لیے 1812ع میں قائم کی گئی تھی۔

الیگزینڈر اے ایف بیلی اپنے کتاب Kurrachee:Past Present and Future میں ادارے کی رپورٹ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”84-1883 میں خسرہ کے بیماری میں 434 لوگ مبتلا ہوئے، 108 لوگ وفات پاگئے، ديگر کا علاج کیا گیا۔ 85-1884 میں خسرہ کے کل چار کیسز ہوئے، یہ علاج سے صحت یاب ہوئے۔86-1885 میں خسرہ کے سترہ کیسز ہوئے،جن میں تین فوت ہوئے ۔ 87-1886 میں شہر میں خسرہ کے دس کیسز ہوئے، جن میں تین فوت ہوئے“

لگتا ہے ایک عرصے سے یہ عمارت بند ہے. اس پر قبضے کی تیاری ہو رہی ہے. جس کے لیے شیدی ولیج روڈ کے جانب اور عمارت کے مین دروازے پر ”لیاری لائرز فورم“ کے پینا فلیکس لگے ہوئے ہیں. ایک کمرہ ان کے استعمال میں ہے۔

میں جب کامریڈ واحد بلوچ کے ساتھ یہاں پہنچا اور تصاویر بنانے لگا، تو ایک بندہ، جو وکیلوں کے ڈریس میں تھا، کامریڈ واحد سے میرے بارے میں پوچھتا رہا کہ یہ بندہ کون ہے ، کامریڈ واحد نے کہا یہ کسی میڈیا کی طرف سے ہے، یہ سن کر اس کو مزید ہمت نہ ہوئی۔ کونے پر رینجرز نے اپنی چوکی قائم کی ہے۔

اس آفس کے سامنے پیپل کا پرانا درخت بھی ہے ، جو لگتا ہے اس وقت جب یہ عمارت بنی تھی لگایا گیا تھا۔ کمرے کے سامنے درخت کے نیچے چائے کا ڈابہ قائم ہے، سامنے ٹرانسپورٹ والوں کا قبضہ تھا، عمارت کے کمروں میں باہر کا کچرہ رکھا جاتا ہے. عمارت کی لکڑی کی کھڑکیاں اور دروازے کسی حد تک سلامت ہیں۔

میں نے دو بار اس کا دورہ کیا تھا. مجھے میونسپلٹی والے کہیں نظر نہیں آئے۔ لگتا ہے وہ اس سے یا تو بے خبر یا وہ خود اس پر قبضے کے لیے پلان میں شامل ہوں. کسی دن یہ تاریخی عمارت مسمار کی جائے گی، اس کو قبضہ مافیا کے حوالے کیا جائے گا اور یہاں پر ایک چار منزلہ عمارت بن جائے گی۔
پھر کورٹ سے ایک آرڈر آئے گا کہ یہ عمارت سرکاری پلاٹ پر بنی ہے اور غیر قانونی ہے اس کو گرایا جائے۔

اس عمارت کو بچانے کا یہ مناسب وقت ہے. کے۔ ایم ۔ سی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وھاب کو چاہئے کہ اس عمارت کو بچائے، اس کی ضروری مرمت کرکے اس کو استعمال میں لایا جائے، اس کو قومی ورثہ قرار دے کر اس کو محفوظ کیا جائے.

لیاری کی سول سوسائٹی کو بھی اس تاریخی عمارت کو بچانے کے لیے آواز اٹھانا چاہیے۔یہ ہم سب کی تاریخ ہے ، اس کو بچانا ہم سب کا فرض ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close