کراچی – گزشتہ دنوں ای سی سی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں کئی اہم فیصلے کیے گئے۔ اس ضمن میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے چین سے حکومتی سطح پر 50 ہزار ٹن یوریا کھاد کی درآمد کا فیصلہ کیا
واضح رہے کہ ماہ نومبر کے وسط سے ہی ملک بھر میں گندم کی بوائی شروع ہو جاتی ہے۔ اس دوران ملک بھر میں کھاد کی طلب میں بے تحاشا اضافہ ہو جاتا ہے۔ گزشتہ مالی سال یعنی 2020-21 کے دوران پاکستان نے 36 لاکھ 12 ہزار میٹرک ٹن گندم درآمد کرتے ہوئے 98 کروڑ ڈالر سے زائد صرف کیے تھے
البتہ 2021 کے وسط تک ملک میں گندم اسٹاک کی صورتحال میں بہتری واقع ہوئی کیونکہ پاکستان میں گندم کی اچھی فصل پیدا ہوئی تھی۔ لیکن رواں مالی سال جیسے ہی گندم کی بوائی کا عمل شروع ہوا۔ ملک بھر سے اس قسم کی اطلاعات موصول ہونے لگی کہ کھاد کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ حکومتی ریٹ پر کہیں کھاد دستیاب نہیں ہے. جب کہ بعض علاقوں سے یہ اطلاعات بھی موصول ہوئیں کہ وہاں سرے سے یوریا دستیاب ہی نہیں
حکومت کی نااہلی
اطلاعات کے مطابق کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں جب چند وزیروں نے کھاد کی بلیک میں فروخت اور بحران کا معاملہ وزیراعظم کے سامنے اٹھایا، تو انڈسٹری کے وزیر خسرو بختیار نے کہا تھا کہ ملک میں تو وافر کھاد موجود ہے، بلکہ پچھلے سال تیس لاکھ ٹن پیدا کی تھی تو اس سال تینتیس لاکھ ٹن پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے ملک میں کھاد کی کمی کی بات کو جھوٹ قرار دیا
لیکن اب بدھ کے روز وزیر خزانہ شوکت ترین نے ای سی سی اجلاس کی صدارت کی اور فیصلہ کیا گیا کہ ہنگامی طور پر پچاس ہزار ٹن یوریا کھاد چین سے منگوائی جائے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پچھلے ہفتے کے اُس کابینہ اجلاس میں شوکت ترین بھی موجود تھے، جس میں خسرو بختیار نے دعویٰ کیا تھا کہ کوئی کمی نہیں، وافر کھاد موجود ہے
اتنے بڑے فورم پر فیصلہ سازی کی اس حالت سے حکومت کی نااہلی کھل کر سامنے آ گئی ہے. یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہو رہا کہ اس فورم پر غلط بیانی کر کے فیصلے کرائے گئے، جن کے نتائج پوری قوم کو بھگتنے پڑے
واضح رہے کہ دو سال پہلے بھی بتایا گیا کہ ملک میں وافر گندم اور چینی موجود ہے۔ وزیراعظم کے مشیر تجارت رزاق دائود نے چینی مل مالکان کے کہنے پر جھوٹے اعدادو شمار کی بنیاد پر شوگر ایکسپورٹ کی منظوری کابینہ سے لی اور جب چینی کا اسکینڈل سامنے آیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ شوگر مل ایسوسی ایشن نے ان کے ساتھ جھوٹ بولا، غلط فگرز دے کر غلط فیصلہ کرایا. لیکن عوام کو اس ایک جھوٹ اور حکومت کی نا اہلی کی بڑی بھاری قیمت چکانا پڑی
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خسرو بختیار کی بات کو مانا جائے کہ ملک میں یوریا کھاد وافر ہے، تو پھر شوکت ترین نے پچاس ہزار ٹن کھاد چین سے منگوانے کا فیصلہ کیوں کیا ہے؟
وزیراعظم کیا کہتے ہیں؟
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں ملک میں کھاد خصوصاً یوریا کی طلب اور رسد کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم کا، کہنا تھا کہ ملک میں روزانہ 25000 ٹن یوریا کی پیداوار ہوتی ہے جو ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے، جو لوگ مصنوعی قلت پیدا کرنے میں ملوث ہیں ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا
عمران خان نے کہا کہ گزشتہ سال ملک میں گندم، گنے، کپاس اور مکئی کی ریکارڈ بمپر فصلیں پیدا ہوئیں، اور حکومت کی زراعت دوست پالیسیوں کی وجہ سے مالی سال 2020-2021 میں کسانوں نے 822 ارب روپے اضافی آمدنی حاصل کی۔ جس کے نتیجے میں کسانوں کی طرف سے یوریا کی زیادہ خریداری ہوئی ہے
انہوں نے کہا کہ حکومت غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے گندم کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لیے مناسب مقدار میں کھاد فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، کاشتکاروں کو خاص طور پر اگلے تین ہفتوں میں کھاد کی دستیابی گندم کی بمپر فصل حاصل کرنے کے لیے بہت اہم ہے
وزیر اعظم نے متعلقہ حکام کو ربیع کی فصلوں کے لیے یوریا کی سپلائی چَین کے موثر انتظام کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے کی ہدایت کی
انہوں نے صوبائی چیف سیکرٹریز کو ہدایت کی کہ وہ ضلعی انتظامیہ کے ذریعے کھاد کی ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ اور سپلائی چین سے باہر مڈل مین کے ذریعے خریداری کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کریں
عمران خان نے تمام متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ کھاد کے پروڈیوسرز سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ اس سال گندم کی ریکارڈ پیداوار حاصل کرنے کے لیے کسانوں کو یوریا کی مناسب فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے
یوریا سستی ہونے کی وجہ سے اسمگلنگ بڑھی ہے! حماد اظہر
علاوہ ازیں وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے خسرو بختیار اور فرٹیلائزرز مل مالکان کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوریا پلانٹس کو بلا تعطل گیس کی فراہمی جاری ہے ،پاکستان میں کھاد کی پیداوار تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، 25 ہزار ٹن یوریا یومیہ پاکستان میں بن رہا ہے، فروری میں لاکھوں ٹن اضافی یوریا ملک میں ہوگی
وزیر توانائی حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان میں اس سے پہلے کبھی بھی اتنی گیس کسی پلانٹ کو نہیں دی گئی، اسی لئے یوریا کی سب سے زیادہ پیداوار 2021 میں ہوئی ہے، سستی گیس کی فراہمی کی وجہ سے یوریا پاکستان میں سستی ہے، جس کی وجہ سے اس کی اسمگلنگ بڑھی ہے
وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار خسروِ بختیار نے کہا کہ سندھ میں کھاد کی نگرانی نہیں کی جارہی، اسمگل کی جانے والے کھاد کا تعلق گھوٹکی سے پایا گیا۔ سندھ حکومت کسانوں کے درد کا احساس کرے اور وفاقی حکومت کا ساتھ دے۔
یوریا کھاد اور پاکستان کی زراعت
1950 کی دہائی کی بات تھی جب ملک میں غذائی اجناس کی شدید قلت پیدا ہو کر رہی اور زیادہ مقدار میں مختلف غذائی اجناس کی درآمد کی گئی۔ حکومت نے مختلف خوراکی فصلوں میں اضافے کی خاطر کاشتکاروں کو کافی رعایتی قیمتوں پر کھاد کی فراہمی شروع کردی۔ شروعات میں کاشتکار اس کے استعمال سے اجتناب برتتے رہے لیکن بتدریج کھاد کے استعمال میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا
اور اب اتنی زیادہ طلب بڑھ گئی ہے کہ اس کی فراہمی مشکل ہو کر رہ گئی ہے۔ اب چونکہ ملک میں نہ صنعتیں لگ رہی ہیں نہ کارخانے نہ ملیں لگائی جا رہی ہیں۔ اس لیے سرمایہ کاروں نے سرمائے کا استعمال کچھ اس طرح شروع کردیا ہے کہ کہیں چینی ذخیرہ کرلی۔ اپنے بند کارخانوں میں کھاد کی بڑی مقدار جمع کرلی اسی طرح کہیں گندم چھپائی جانے لگی اور جب کچھ ہاتھ نہ لگا تو زرعی زمینوں کو سوسائٹیاں بنا کر غیر آباد چھوڑ دیا گیا جس سے کئی مسائل جنم لے رہے ہیں
ان میں زرعی پیداوار کی کمی بھی ایک ہے اس کے علاوہ ملک بھر میں سرمایہ کاری اگر کسی شعبے میں کھربوں روپے کی ہو رہی ہے تو وہ رئیل اسٹیٹ کا شعبہ ہے۔ کھاد کی درآمد اس لیے کی جا رہی ہے کہ مہنگے داموں کھاد دستیاب ہو رہی ہے کیونکہ کھاد و زرعی ادویات اجناس اسی طرح مصنوعات بڑی مقدار میں ذخیرہ کرلی جاتی ہیں
پاکستان میں کھاد کی فراہمی کے جو مسائل درپیش ہیں اس کے ساتھ ہی ناقص بیج بھی کاشتکاروں کے لیے درد سری کا باعث بنا ہوا ہے اس کے علاوہ جعلی ادویات کی بھی بھرمار ہے اور کاشتکار ان شدید مسائل سے اکیلے ہی نبرد آزما ہیں کیونکہ اب ملکی درآمدات کا ایک بڑا حصہ غذائی اجناس کی درآمد پر صرف کرنا پڑتا ہے اگر حکومت پانی کی فراہمی اور بروقت کھاد کی فراہمی اور صحیح بیج کی فراہمی کے علاوہ جعلی کیڑے مار ادویات کی روک تھام یقینی بنا لے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملکی زرعی پیداوار میں بے تحاشا اضافہ ہوکر رہے جس کے باعث ملک کو زرعی اجناس کی درآمد کی ضرورت نہ رہے گی.