کون ٹھہرے سمے کے دھارے پر
نشور واحدی اسی طرح تپاک اور محبت سے ملے۔ تین چار گھنٹے گپ کے بعد جب بھی میں نے یہ کہہ کر اٹھنا چاہا کہ اب چلنا چاہیے تو ہر بار ہاتھ پکڑ کے بٹھا لیا۔ میرا جی بھی یہی چاہتا تھا کہ اسی طرح روکتے رہیں۔ حافظہ خراب ہو گیا ہے ایک ہی نشست میں تین چار دفعہ آپ کے بارے میں پوچھا ”کیسے ہیں؟ سنا ہے مزاحیہ مضامین لکھنے لگے ہیں.. بھئی حد ہو گئی۔“ منحنی اور روگی تو، آپ جانتے ہیں، سدا کے تھے۔ وزن پچھتر پونڈ رہ گیا ہے۔ عمر بھی اتنی ہی ہوگی۔ چہرے پر ناک ہی ناک نظر آتی ہے۔ منحنی پہ یاد آیا، کانپور میں چنیا کیلے، اس سائز کے، اب بھی ملتے ہیں۔ میں نے خاص طور سے فرمائش کر کے منگوائے۔ مایوسی ہوئی۔ اپنے سندھ کے چتی دار کیلوں کے آس پاس بھی نہیں۔ ایک دن میرے منھ سے نکل گیا کہ سرگودھے کا مالٹا، ناگپور کے سنترے سے بہتر ہوتا ہے تو نشور تڑپ کے بولے، یہ کیسے ممکن ہے؟ ویسے نشور ماشاءاللہ چاق و چوبند ہیں۔ صورت بہت بہتر ہو گئی ہے، اس لیے کہ آگے کو نکلے ہوئے لہسن کی پوتھی جیسے اوبڑ کھابڑ دانت سب گر چکے ہیں۔ آپ کو تو یاد ہوگا، ثریا ایکٹرس کیا قیامت گاتی تھی، مگر لمبے دانت سارا مزہ کرکرا کر دیتے تھے۔ سنا ہے ہمارے پاکستان آنے کے بعد سامنے کے نکلوا دیئے تھے۔ ایک فلمی رسالے میں اس کا حالیہ فوٹو دیکھا تو خود پر بہت غصہ آیا کہ کاہے کو دیکھا۔ پھر اسی ڈر کے مارے اس کے ریکارڈ نہیں سنے۔ اعجاز حسین قادری کے پاس اس زمانے کے سارے ریکارڈ مع بھونپو والے گراموفون کے ابھی تک محفوظ ہیں۔ صاحب یقین نہیں آیا کہ یہ ہمارے لیے جدید سائنس، موسیقی اور سامانِ عیش کی انتہا تھی۔ انہوں نے اس زمانے کے سر سنگیت سمراٹ سیگل کے دو تین گانے سنائے۔ صاحب، مجھے تو بڑا شاک ہوا کہ آنجہانی کے ناک سے گائے ہوئے گانوں سے مجھ پر ایسا رومانی لرزہ کیسے طاری ہو جاتا تھا۔ موتی بیگم کا منھ جھریا کر بالکل کشمش ہو گیا ہے۔ نشور کہنے لگے، میاں، تم اوروں پہ کیا ترس کھاتے پھرتے ہو۔ ذرا اپنی صورت تو 47 کے پاسپورٹ فوٹو سے ملا کے دیکھو۔
کون ٹھرے سمے کے دھارے پر،
کوہ کیا اور کیا خس و خاشاک!
کوئی کل ہند مشاعرہ ایسا نہیں ہوتا، جس میں نشور نہ بلائے جائیں۔ غالباً کسی شاعر کو اتنا معاوضہ نہیں ملتا جتنا انہیں ملتا ہے۔ بڑی عزت و توقیر کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ اب تو ماشاءاللہ گھر میں فرنیچر بھی ہے۔ مگر اپنی دیرینہ وضع پر قائم ہیں۔ طبیعت معمول پر تھی۔ یعنی بہت خراب۔ میں ملنے جاتا تو بان کی کھری چارپائی پر لیٹے سے اُٹھ بیٹھتے اور تمام وقت بنیان پہنے تکیے پر اکڑوں بیٹھے رہتے۔ اکثر دیکھا کہ پیٹ پر چارپائی کے بانوں کا نالی دار ”پیٹرن“ بنا ہوا ہے۔ ایک دن میں نے کہا کہ پلیٹ فارم پر جب اناؤنسمنٹ ہوا کہ ٹرین اپنے نردھارت سمے سے ڈھائی گھنٹہ ولمب سے پرویش کر رہی ہے، تو بخدا میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ٹرین کیا کر رہی ہے۔ آ رہی ہے یا جا رہی ہے۔ یا ڈھائی گھنٹے سے محض کلیلیں کر رہی ہے۔ یہ سننا تھا کہ نشور بگڑ گئے۔ جوشِ بیاں میں تکیے پر سے بار بار پھسلے پڑتے تھے۔ ایک مشتعل لمحے میں زیادہ پھسل گئے تو بانوں کی جھری میں پیر کے انگوٹھے کو گھائی تک پھنسا کے فٹ بریک لگایا اور ایک دم تن کے بیٹھ گئے۔ کہنے لگے ”ہندوستان میں اردو کو مٹانا آسان نہیں۔ پاکستان میں پانچ برس میں اتنے مشاعرے نہیں ہوتے ہوں گے، جتنے ہندوستان میں پانچ مہینے میں ہو جاتے ہیں۔ پندرہ بیس ہزار کا مجمع تو گویا کوئی بات ہی نہیں۔ اچھا شاعر بآسانی پانچ سات ہزار پیٹ لیتا ہے۔ کرایہ ریل، قیام و طعام اور داد اس کے علاوہ۔ جوش نے بڑی جلد بازی کی، ناحق چلے گئے۔ اب پچھتاتے ہیں۔“ اب میں انہیں کیا بتاتا کہ جوش کو سات آٹھ ہزار ماہوار، اور کار، دو بینکوں اور ایک انشورنس کمپنی کی طرف سے مل رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے مشاہرہ اور مکان علیحدہ.. گو کہ اس کی نوعیت وظیفہ عتاب کی سی ہے۔
ترنم میں اب نشور کی سانس اکھڑ جاتی ہے۔ ٹھہر ٹھہر کے پڑھتے ہیں، مگر آواز میں اب بھی وہی سوز اور گمک ہے۔ بڑی بڑی آنکھوں میں وہی چمک۔ تیور اور لہجے میں کھرج اور نڈر پن جو صرف اس وقت آتا ہے، جب آدمی زر ہی نہیں، زندگی اور دنیا کو بھی ہیچ سمجھنے لگے۔ دس بارہ تازہ غزلیں سنائیں۔ کیا کہنے، منھ پر آتے آتے رہ گئی کہ ڈینچرز لگا کر سنائیے۔ آپ نے تو انہیں بارہا سنا ہے۔ ایک زمانے میں ”یہ باتیں راز کی ہیں، قبلہ عالم بھی پیتے ہیں“ والی غزل سے سارے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ مگر اب ”دولت کبھی ایماں لا نہ سکی، سرمایہ مسلماں ہو نہ سکا“ والے اشعار پر داد کے ڈونگے نہیں برستے۔ سننے والوں کا مزاج بدلا ہوا ہے۔ سکوتِ سامعین بھی ایک نوع کی بے صدا ہوٹنگ ہے۔ اگر استاد داغ یا نواب سائل دہلوی بھی آج اپنی وہ توپ غزلیں پڑھیں، جن سے ستر اَسی برس قبل چھتیں اُڑ جاتی تھیں، تو سامعین کی بدذوقی سے تنگ آ کر اٹھ کھڑے ہوں۔ مگر اب نشور کا رنگ بھی بدل گیا ہے۔ مشاعرے اب بھی لُوٹ لیتے ہیں، سدا کے ملنگ ہیں۔ کہہ رہے تھے، اب کوئی تمنا، کوئی حسرت باقی نہیں۔ میں نے تو انہیں ہمیشہ بیمار، نحیف و نزار، مفلوک الحال اور مطمئن و مسرور ہی دیکھا۔ ان کے وقار و تمکنت میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا۔ اہلِ ثروت سے کبھی پچک کے نہیں ملے۔ صاحب، یہ نسل ہی کچھ اور تھی۔ وہ سانچے ہی ٹوٹ گئے، جن میں یہ آشفتہ مزاج کردار ڈھلتے تھے۔ بھلا بتائیے اصغر گونڈوی اور جگر مراد آبادی سے زیادہ مدمغ اور خود دار اور کون ہوگا۔ وسیلہ معاش؟ عینکیں بیچنا، وہ بھی دکان یا اپنے ٹھیلے پر نہیں۔ جہاں بھی پیٹ کا دھندا لے جائے۔ نشور سے میری دوستی تو ابھی حال میں چالیس پچاس برس سے ہوئی ہے، ورنہ اس سے قبل دوسرا ہی رشتہ تھا۔ میں نے قصائیوں کے محلے میں واقع مدرسہ ضیاالاسلام میں فارسی ان ہی سے پڑھی تھی۔ اور ہاں اب اس محلے کے قصائی پوتھ کی اچکن اور سرخ پیٹنٹ لیدر کے پمپ شوز نہیں پہنتے۔ اس زمانے میں کوئی شخص اپنی برادری کا مروجہ لباس ترک نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا حقہ پانی بند کر دیا جاتا تھا۔
دوبارہ رشوت دینے کو جی چاہتا ہے۔
جانے پہچانے بازار اب پہچانے نہیں جاتے۔ پر ایسے خلیق دکاندار نہیں دیکھے۔ بچھے جاتے تھے۔ دکان میں قدم رکھتے ہی ٹھنڈی بوتل ہاتھ میں تھما دیتے۔ مجھے ایسی ظالم سیلزمین شپ سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ بوتل پی کے دکان سے خالی ہاتھ نکلنا بڑی بے غیرتی کی بات معلوم ہوتی تھی۔ چنانچہ سیلزمینوں کی پسند کی چیزیں خریدتا چلا گیا۔ اپنی ضرورت اور فرمائش کی چیزیں خریدنے کے لیے پیسے ہی نہیں رہے۔ یقین نہیں آیا کہ جہاں اس وقت دھکم پیل، چیخم دھاڑ مچ رہی ہے اور بدبوؤں کے بگولے منڈلا رہے ہیں، یہ وہی کشادہ، صاف ستھری مال بلکہ دی مال ہے۔ صاحب انگریز نے ہر شہر میں دی مال ضرور بنائی۔ فیشن ایبل، اونچی دکانوں والی مال، زرداروں کی زر گزر کہیے۔ ابھی کل کی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ مال کے کنارے کافی دور تک ببول کی چھال بچھی ہوتی تھی، تا کہ کوتوال کے لونڈے کے گھوڑے کو دُلکی چلنے میں آسانی رہے۔ دائیں بائیں دو سائیس ننگے پیر ساتھ ساتھ دوڑتے جاتے کہ لونڈا گر نہ جائے۔ وہ ہانپنے لگتے تو وہ ہنسی سے دہرا ہو ہو جاتا۔ ہماری اس سے شناسائی ہو گئی تھی۔ ایک دفعہ ہم پندرہ بیس دوستوں کو بہرائچ کے پاس اپنے گاؤں شکار پر لے گیا۔ ہر پانچ افراد کے لیے ایک علیحدہ خیمہ، خیموں کے عقب میں ایک مودب فاصلے پر شاگرد پیشہ کی چھولداری۔ ہم خیمے ہی میں شب باش ہوتے۔ کیا بتاؤں جنگل میں کیسے عیش رہے۔ ایک رات مجرا بھی ہوا۔ صورت اتنی اچھی تھی کہ بخدا غلط تلفظ پر بھی پیار آنے لگا۔ پیشہ ور شکاری روزانہ شکار مار کے لے آتے تھے، جسے باورچی لکڑیوں اور چھپٹیوں کی آگ پر بھونتے۔ ہمارے ذمے تو صرف ہضم کرنا اور یہ بتانا تھا کہ کل کون کس جانور کا گوشت کھانا پسند کرے گا۔ سانبھر کا گوشت پہلے پہل وہیں چکھا۔ آخری شام چار بھنے ہوئے سالم کالے ہرن دسترخوان پر سجا دیے گئے۔ ہر ہرن کے اندر ایک قاز اور قاز میں تیتر اور تیتر کے پیٹ میں مرغی کا انڈا۔ ہماری تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کھاتے کیا خاک۔ کانپور کا وہ کوتوال حد درجہ لائق، معاملہ فہم، اور انتہائی خلیق اور اسی درجہ بے ایمان تھا۔ صاحب، آپ راشی، زانی اور شرابی کو ہمیشہ خوش اخلاق، ملنسار اور میٹھا پائیں گے۔ اس واسطے کہ وہ نخوت، سخت گیری اور بدمزاجی افورڈ کر ہی نہیں سکتا۔ اس لڑکے نے کچھ کر کے نہیں دیا۔ جگر کے سروس میں مرا۔ اس کا چھوٹا بھائی پاکستان آ گیا۔ لوگوں نے کہہ سن کے ماری پور کے اسکول میں ٹیچر لگوا دیا تھا۔ کوئی تین برس پہلے میرے پاس آیا تھا۔ کہنے لگا میں بی ٹی نہیں ہوں۔ قلیل تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا۔ سعود آباد سے ماری پور جاتا ہوں۔ دو جگہ بس بدلنی پڑتی ہے۔ آدھی تنخواہ تو بس کے کرائے میں نکل جاتی ہے۔ اپنے ہاں منشی رکھ لیجیئے۔ اس کی تین جوان بیٹیاں کنواری بیٹھی تھیں۔ ایک کے کپڑوں میں آگ لگ گئی۔ وہ جل کر مر گئی۔ لوگوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں۔ خود اسے دو ہارٹ اٹیک ہو چکے تھے۔ جنہیں اس نے سکول والوں سے چھپایا، ورنہ وہ گئی گزری ملازمت بھی جاتی رہتی۔
کوتوال سارے شہر کا، غنڈوں سمیت، بادشاہ ہوتا تھا۔ مطلب یہ کہ جسے چاہے ذلیل کر دے۔ صاحب، مرزا ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ ڈیڑھ سو سال کے پوست کندہ حالات پڑھنے کے بعد ہم اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ تین محکمے ایسے ہیں جو روزِ اول سے بے ایمان ہیں۔ اول پولیس، دوم پی ڈبلیو ڈی، سوم انکم ٹیکس۔ اب ان میں میرے طرف سے اینٹی کرپشن کے محکمے کا اضافہ کر لیجیئے۔ یہ صرف رشوت لینے والوں سے رشوت لیتا ہے۔ رشوت ہندوستان میں بھی خوب چلتی ہے۔ مجھے بھی تھوڑا بہت ذاتی تجربہ ہوا۔ مگر صاحب، ہندو رشوت لینے میں بھی ایسی نمرتا (انکسار) ایسا اخلاق اور اعتدال برتتا ہے کہ واللہ دوبارہ دینے کو جی چاہتا ہے۔
اور صاحب، عجز و انکسار کا یہ حال کہ کیا ہندو کیا مسلمان، کیا بوڑھا کیا جوان، سب بڑی نمرتا سے ہاتھ جوڑ کر سلام پرنام کرتے ہیں۔ بڑے بڑے لیڈر تقریر سے پہلے اور تقریر کے بعد اور بڑے سے بڑا سنگیت سمراٹ تھی پکے راگ گانے سے پہلے اور گانے کے بعد انتہائی عاجزی کے ساتھ سامعین کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ میں نے بگوش و بچشم خود ایک مشاعرے میں حضرت علی سردار جعفری کو دو بارہ طویل نظمیں سنانے کے بعد ہاتھ جوڑتے ہوئے ڈائس سے اُترتے دیکھا۔ (خیر ایسی واردات کے بعد ہاتھ جوڑنے کی وجہ ہماری سمجھ میں بھی آتی ہے)۔
جاری ہے