کراچی – پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے مطابق دس کروڑ ڈالر (تقریباً اٹھارہ ارب روپے) کے کرپٹوکرنسی اسکینڈل میں ہزاروں پاکستانی شہری اپنی جمع پونجی سے محروم ہو چکے ہیں
ایف آئی اے مذکورہ اسکینڈل کی چھان بین میں مصروف ہے جب کہ سفارش کی گئی ہے کہ ملک میں کرپٹو کرنسی پر پابندی لگا دی جائے
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بدھ کو کرپٹو کرنسی پر پابندی لگانے کی سفارش کی۔ بنک کا استدلال ہے کہ اس کی اجازت دینے سے سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوگا
سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے تشکیل دی گئی ایک کمیٹی کی سفارش کے بعد اسٹیٹ بنک کی جانب سے مذکورہ سفارشات سامنے آئی ہیں۔ اس کمیٹی نے بھی کرپٹو کرنسی پر’مکمل پابندی‘ لگانے پر زور دیا ہے
یہ سفارشات ایسے وقت میں کی گئی ہیں، جب 2019 میں دائر کی جانے والی ایک آئینی درخواست کی سماعت پر عدالتی کارروائی جاری ہے، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ 2018ع سے دی گئی مرکزی بنک کی ہدایت کو واپس لے لیا جائے جس میں بنکوں اور ادائیگی کے نظام کے آپریٹرز کو ورچوئل کرنسیز میں پروسیسنگ اور سرمایہ کاری سے روکا گیا ہے
ڈجیٹل کرنسی کی تجارت کی قانونی حیثیت سے متعلق ابہام نے پاکستانی شہریوں کے لیے اس اسکینڈل کا شکار ہونا آسان بنا دیا ہے
تفتیش کاروں کے اندازے کے مطابق تقریباً سینتیس ہزار افراد، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب کے شہر فیصل آباد کے متوسط گھرانوں سے ہے، اس اسکیم میں رقم لگانے کے بعد دھوکہ دہی کا شکار ہوئے، جس کے تحت رقم میں اضافے کا وعدہ کیا گیا تھا
سندھ میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم ڈویژن کے سربراہ عمران ریاض نے اس ہفتے کے آغاز میں بتایا: ’ورچوئل کرنسی میں سرمایہ کاری کی حد سو ڈالر سے لے کر اَسی ہزار ڈالر تھی۔ ہر رکن نے اوسطاً بیس ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ اس لیے ہم محتاط اندازے سے کہہ سکتے ہیں دس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بہت سی کہانیاں ہیں، متاثرین کی کئی کہانیاں ہیں۔ ایک متاثرہ شخص نے جلد امیر ہونے کے لیے اپنی والدہ کا سارا سونا بیچ دیا۔ ان کی والدہ کو اس کا علم نہیں تھا۔ وہ ہر وقت روتے رہتے تھے کہ میں کیا کروں اور کیسے بتاؤں اپنی والدہ کو کہ میں نے سب کچھ کھو دیا ہے؟‘
دھوکہ دینے والوں نے دنیا کے سب سے بڑے کرپٹو کرنسی ایکسچینج ’بائی نانس‘ کے والیٹس کے ساتھ منسلک ایم سی ایکس، ایچ ایف سی، ایچ ٹی فوکس، ایف ایکس کاپی، اوکی منی، بی بی 001، اے وی جی 86 سی، بی ایکس 66، 91 ایف پی، یو جی اور ٹاسک ٹوک جیسی جعلی ایپس کا استعمال کیا
جعل ساز اپنے شکار کو میسیجنگ ایپ ٹیلی گرام کے گروپس میں شامل کرتے تھے، جہاں انہوں نے کرپٹو کرنسی ٹریڈنگ کے بارے میں مشورے شیئر کر رکھے ہوتے تھے
ایک بار جب صارفین اپنی رقم بائی نانس سے اسکیم میں استعمال ہونے والی ایپس میں منتقل کر دیتے ، تو یہ ایپس کام کرنا بند کر دیتیں اور متاثرین اپنے فنڈز تک مزید رسائی سے محروم ہو جاتے
عمران ریاض نے بتایا کہ ایف آئی اے نے فراڈ میں استعمال ہونے والے چھبیس والیٹس کا ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے بائی نانس سے رابطہ کیا۔ ہم نے بائی نانس سے کہا ہے کہ ایک بار ان ایپس کو اپنے سسٹم کے ساتھ مربوط کرنے کے بعد آپ نے چند اضافی سکیورٹی چیکس کے لیے ضرور کہا ہو گا
ان کا کہنا تھا کہ ان معلومات کی بنیاد پر ہم کیس بنا کر فراڈ میں ملوث افراد کو گرفتار کر سکتے ہیں
ان کا مزید کہنا تھا کہ کمپنی نے ایف آئی اے کے ساتھ مکمل تعاون پر رضامندی ظاہر کی ہے اور ایف آئی اے کے ساتھ رابطے کے لیے امریکی محکمہ خزانہ کے دو سابق تفتیش کاروں پر مشتمل ٹیم کو نامزد کیا ہے
دوسری جانب بائی نانس کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر سائمن میتھیوز نے بتایا ”کمپنی ایف آئی اے کے ساتھ رابطے میں ہے“ تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں
پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی تجارت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے گھپلے زیادہ تر قانونی فریم ورک کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ پاکستانی ٹیلی ویژن کے میزبان اور کرپٹو کرنسی کے سرگرم حامی وقار ذکا، جو ڈجیٹل کرنسیز کو باضابطہ بنانے کے ایک مقدمے کی پیروی بھی کر رہے ہیں، کا ماننا ہے کہ کرپٹو کرنسی کا کاروبار باضابطہ بنانے سے سے دھوکہ دہی کو روکنے میں مدد ملے گی
وقار ذکار کے مطابق ’میں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ لوگوں نے کرپٹو تجارت میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ حکومت اسے غیر قانونی قرار نہ دے۔ اس کے بجائے اسے کاروبار کو قانونی شکل دینے اور لین دین پر نظر رکھنے کے لیے طریقہ کار وضع کیا جائے۔‘
اس حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ثنا اللہ عباسی کا کہنا ہے کہ ایجنسی کرپٹو کرنسی میں کام کرنے والی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے رجوع کرے گی تاکہ دھوکہ دہی اور ممکنہ منی لانڈرنگ کو روکا جاسکے
سائبر کرائم سرکل آفس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سینئر حکام کی ٹیم کے ساتھ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایف آئی اے کے سربراہ نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے حکام نے ریگولیٹری میکانزم کے بارے میں پریزنٹیشن دی
اسٹیٹ بینک کی ٹیم نے اجلاس کے شرکا کو بتایا کہ مرکزی بینک نے سندھ ہائی کورٹ کی ہدایات کے تحت حال ہی میں کرپٹو کرنسی کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سفارشات پیش کی ہیں
ثنا اللہ عباسی نے کہا کہ کرپٹو کرنسیوں سے پیدا ہونے والے فراڈ اور دیگر مسائل سے نمٹنے کے لیے قانونی ماہرین سے بھی رابطہ کیا جائے گا
انہوں نے ریمارکس دیے کہ کرپٹو نے دھوکے کی ایک نئی جہت متعارف کروا دی ہے
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا نے کرپٹو کرنسی کو قانونی قرار دیا ہے، لیکن چین اور دیگر ممالک میں اس پر پابندی ہے
ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ ہمیں بنیادی طور پر دھوکہ دہی اور ممکنہ منی لانڈرنگ کے پہلوؤں پر تشویش ہے
اس سے قبل اجلاس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016، فارن ایکسچینج ریمیٹینس ایکٹ 1947 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں کرپٹو کرنسی کے غیر قانونی یا غلط استعمال سے متعلق کوئی قانونی دفعہ موجود نہیں ہے
اجلاس میں کہا گیا کہ ‘کچھ معاملات میں سائبر کرائم ونگ نے فارن ایکسچینج ریمیٹینس ایکٹ اور اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے سیکشن 23 کے تحت نوٹس لیا ہے’
اجلاس میں مزید بتایا گیا کہ ’ورچوئل ایسیٹ سروس پرووائیڈرز(وی اے ایس پیز) کے لیے ایف اے ٹی ایف کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوئی ریگولیٹری فریم ورک نہیں ہے‘
اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ اسٹیٹ بینک اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے ’ممنوعہ انداز‘ اپنایا اور ورچوئل کرنسی پر مختلف ہدایات جاری کی ہیں
اسٹیٹ بینک نے عام لوگوں اور بینکوں کو ایک ایڈوائزری جاری کی تھی کہ وہ ورچوئل کرنسی اور انیشیئل کوائن آفرنگ وغیرہ کے معاملات سے پرہیز کریں
ڈاکٹر ثنا اللہ عباسی نے کہا کہ ایف آئی اے نے لوگوں کی ان شکایات پر کارروائی کی کہ ان کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے
انہوں نے انکشاف کیا کہ شہریوں کے ساتھ کیے گئے اس دھوکے میں ملوث ممکنہ مشتبہ افراد کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے
ایف آئی اے نے حال ہی میں اس میگا مالیاتی اسکینڈل کی تحقیقات شروع کی تھیں، جب مقبول کرپٹو کرنسی ایکسچینج ’بائننس‘ سے منسلک گیارہ ایپس نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، جس میں پاکستانی سرمایہ کاروں کو 10 کروڑ ڈالر (17.7 بلین روپے) سے زیادہ کا دھوکا دیا گیا تھا
اس کے علاوہ ایف آئی اے نے پانچ ماہ قبل کرپٹو کرنسی کے ذریعے لوگوں کو دھوکا دینے کے الزام میں فیصل آباد سے ڈاکٹر ظفر کو گرفتار بھی کیا تھا.