موٹاپا خاص طور پر خواتین میں کس طرح ذہنی امراض کی وجہ بن رہا ہے؟

ویب ڈیسک

دورِ حاضر میں موٹاپا تیزی سے پھیلتا ہوا ایک ایسا مرض بن چکا ہے، جس کے متاثرین کی دنیا بھر میں تعداد قریب چھ سو ستر ملین ہے، جن میں اکثریت نوجوان خواتین کی ہے

بدقسمتی سے موٹاپا نہ صرف جسمانی بیماریوں کی وجہ بن رہا ہے بلکہ اس کے باعث کئی ذہنی پیچیدگیاں بھی جنم لیے رہی ہیں، خاص طور پر خواتین میں۔ ایک نئی تحقیق میں موٹاپے کے سبب مردوں اور خواتین میں ذہنی امراض کی شرح میں بہت فرق دیکھا گیا

دنیا بھر میں موٹاپے یا فربہ پن کا شکار تقریباﹰ 670 ملین انسانوں میں بہت بڑی تعداد نوجوان خواتین کی ہے۔ آسٹریا میں کی گئی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ مرض مردوں اور خواتین میں نفسیاتی بیماریوں کی وجہ بننے کے حوالے سے بہت مختلف اثرات کا حامل ہوتا ہے

طبی نفسیاتی تحقیق کے شعبے کے ایک جریدے اسپیشلسٹ جرنل ٹرانزیشنل سائیکیاٹری میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق کے نتائج کے مطابق موٹاپا ذہنی طور پر خواتین اور مردوں کو کافی مختلف انداز میں متاثر کرتا ہے۔ اس ریسرچ کے دوران میڈیکل یونیورسٹی آف ویانا کے محققین نے 1997 سے لے کر 2014 تک آسٹریا کے مختلف ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا

اس تحقیق سے انکشاف ہوا کہ جسم فربہ ہونے سے میٹابولک اور دل کے امراض کے علاوہ ذہنی امراض کا شکار ہو جانے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے اور ایسے متاثرین میں عورتوں کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے

میڈیکل یونیورسٹی آف ویانا کے شعبہ انٹرنل میڈیسن سے منسلک ریسرچر میشائل لوئٹنر نے اس تحقیق کی سربراہی کی۔ انہوں نے بتایا کہ اس امر سے تو سبھی واقف ہیں کہ موٹاپے سے ذہنی امراض کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ موٹاپے اور ذہنی امراض کے علاج کے لیے جو ادویات استعمال کی جاتی ہیں، ان کے ضمنی اثرات کے طور پر دوسری بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ اس تحقیق سے پہلے یہ بھی واضح نہیں تھا کہ پہلے جسم فربہ پن کا شکار ہوتا ہے یا ذہنی امراض کا ایک نتیجہ موٹاپا بھی ہوتا ہے

ڈاکٹر میشائل لوئٹنر کہتے ہیں کہ اس پیچیدہ باہمی ربط کو سمجھنے کے لیے ان کی تحقیقی ٹیم نے ایک نیا طریقہ استعمال کیا۔ اس طریقے سے یہ جاننے میں مدد ملی کہ ذہنی امراض سے قبل جسم موٹاپے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس ریسرچ کے دوران ماہرین نے مریضوں میں نشہ آور مادوں کے استعمال کا غیر معمولی تناسب بھی نوٹ کیا، جو خواتین کی نسبت مردوں میں زیادہ تھا

ڈاکٹر میشائل لوئٹنر نے بتایا کہ ان کی تحقیق کے نتائج کے مطابق موٹاپے کا شکار 16.6 فیصد مرد نکوٹین کے نشے کے عادی تھے جبکہ فربہ خواتین میں یہی شرح 8.58 فیصد تھی

اسی طرح 13 فیصد فربہ خواتین ڈپریشن کا شکار تھیں جبکہ موٹاپے سے بچی رہنے والی خواتین میں سے صرف 4.8 فیصد میں ڈپریشن کی علامات پائی گئیں۔ دوسری جانب فربہ مردوں میں سے 6.16 فیصد ڈپریشن کا شکار تھے جبکہ غیر فربہ مردوں میں یہی تناسب 3.21 فیصد دیکھا گیا۔ یعنی فربہ خواتین میں ڈپریشن کی شرح مردوں میں ایسی شرح کے دو گنا سے بھی زیادہ تھی

ڈاکٹر لوئٹنر کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں نوجوان خواتین میں موٹاپے کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کو کنٹرول کرنے کے لیے بروقت سکریننگ اور فربہ پن سے متعلق آگہی پھیلانا اشد ضروری ہے

اس حوالے سے پاکستان کی معروف ماہر غذائیات ڈاکٹر شگفتہ فیروز کا کہنا ہے ”دنیا کے 194 ممالک میں فربہ افراد کی تعداد نارمل سے کہیں زیادہ ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا نمبر 65 واں ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر پندرہ سے چالیس برس تک کی عمر کی لڑکیاں اور خواتین موٹاپے کا شکار ہیں“

ڈاکٹر شگفتہ نے بتایا ”جسمانی بلوغت کو پہنچنے پر ماہواری کے آغاز کے ساتھ ہی نسوانی جسم میں تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو جاتی ہیں، جن سے لڑکیوں کے جسم فربہ ہونے لگتے ہیں۔ پھر شادی اور بچوں کی پیدائش کے ساتھ بھی مسلسل وزن بڑھتا ہے“

ان کے بقول ”پاکستان میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس میں طرزِ زندگی کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ خواتین کو خود پر توجہ دینے یا اپنا وزن کنٹرول کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ملتا۔ اسی لیے پاکستانی خواتین میں فربہ پن کا تناسب مردوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔“

ڈاکٹر شگفتہ کے مطابق موٹاپے سے ذہنی امراض مثلاﹰ ڈپریشن اور اینزائٹی کا شکار ہو جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے کیونکہ فربہ انسانوں کا اپنے بارے میں تاثر منفی اور کمزور ہوتا ہے۔ وہ اپنے جسمانی خدوخال اور ظاہر سے متعلق منفی سوچ کے حامل ہوتے ہیں اور یہ رجحان خواتین میں مردوں سے زیادہ ہوتا ہے

ڈاکٹر شگفتہ نے بتایا کہ پندرہ سال سے زائد عرصے پر محیط اپنی پیشہ وارانہ خدمات کے دوران انہوں نے بار بار دیکھا کیا کہ خواتین کے بر عکس مردوں کو اتنی فکر نہیں ہوتی کہ وہ دوسروں کو کیسے دکھائی دیتے ہیں

وہ کہتی ہیں ’’یہ کوشش عموماً خواتین کی ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پر کشش دکھائی دیں، جس میں موٹاپا ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر شگفتہ کہتی ہیں کہ پاکستانی معاشرہ بہت سے ممنوعہ موضوعات اور فرسودہ ٹیبوُز میں جکڑا ہوا ہے۔ وہاں ’باڈی شیمنگ‘ بالکل عام سی بات ہے، جس کے باعث فربہ افراد احساس کمتری اور نفسیاتی عارضوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں ڈپریشن اور اینزائٹی جیسے ذہنی امراض کو بھی پاگل پن ہی سمجھا جاتا ہے، اس لیے صورتحال بڑی پیچیدہ ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ فربہ خواتین اپنے نفسیاتی مسائل چھپانے کی کوشش میں مزید پیچیدہ مسائل کا شکار ہوتی جاتی ہیں۔‘‘

غذائی امور کی ماہر ڈاکٹر شگفتہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کسی ماہر نفسیات سے مشورہ کیے بغیر موٹاپے کے خلاف مختلف ادویات کا استعمال طبی اور جسمانی ردعمل کا باعث بنتا ہے اور یوں موٹاپا اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ ”اسی طرح کسی ماہر غذائیات سے مشورے کے بغیر ڈائٹنگ کی کوششیں بھی ڈپریشن اور اینگزائٹی میں اضافہ کرتی ہیں۔‘‘

انہوں نے تجویز دی کہ سب سے پہلے تو معاشرے میں موٹاپے اور ذہنی امراض کے درمیان تعلق سے متعلق آگاہی کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی کچھ خاص موضوعات کو ممنوعہ سمجھنے کے سماجی رویے بھی تبدیل کیے جانا چاہییں، جو مختلف طبی، جسمانی اور نفسیاتی مسائل کے علاج کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اسی لیے پاکستان میں بھی ویانا میڈیکل یونیورسٹی کی ریسرچ کی طرز پر تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close