سرکاری افسران حکومت کے مخالفین پر مقدمات کیوں بناتے ہیں؟

ویب ڈیسک

پاکستان میں پولیس اور سول بیوروکریسی کی طرف سے مقدمات بنانے اور وقت بدلنے پر انہیں بیک جنبش قلم ختم کر دینے کی روایت عام ہے

رواں برس اپریل میں وفاقی حکومت کی تبدیلی کے بعد چھ ماہ کے دوران جہاں سابق اپوزیشن لیڈر اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں پر بنے ہوئے کئی مقدمات ختم ہوئے وہیں، سابق وزیراعظم عمران خان اور ان ساتھیوں کے خلاف کئی مقدمات درج کیے گیے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے

جب چند ماہ کے دوران صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں بار بار بدلیں تو اس دوران متحارب جماعتوں کے سیاست دانوں پر مقدمات کی صورت حال بھی تبدیل ہوتی رہی

دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو ایسے مقدمات کو سیاسی انتقام کہتی ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنے مخالفین کے خلاف بھی ایسے ہی مقدمات بنا رہی ہوتی ہے

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سیاسی انتقام ہے تو پولیس، بیوروکریسی، نیب اور ایف آئی اے جیسے ادارے اور ان کے افسران حکومت کے غیرقانونی احکامات پر عمل کرنے سے انکار کیوں نہیں کرتے؟

اس حوالے سے پنجاب پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) خواجہ خالد فاروق کا کہنا ہے ”پاکستان میں پولیس کا پورا نظام سیاسی ہو چکا ہے“

وہ کہتے ہیں ”پولیس افسران کے تقرر و تبادلے سیاسی پسند ناپسند کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ جب ایک آئی جی تعینات ہوتا ہے تو اس کی سروس کے ایک دو سال باقی رہ چکے ہوتے ہیں۔ اگر وہ وزیراعلٰی کے احکامات نہیں مانتا تو اسے اپنی ملازمت کا باقی عرصہ گھر بیٹھ کر کسی پوسٹنگ کے بغیر گزارنا پڑتا ہے۔ جو کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوتا“

خواجہ خالد فاروق کے مطابق ”اگر پولیس آرڈر 2002 پر عمل درآمد ہو جاتا تو یہ سلسلہ رک جاتا کیونکہ اس میں افسران کے تقرر و تبادلے کے لیے مرکزی اور صوبائی سطح پر کمیٹیوں اور ہر بڑی تقرری کی مدت کا تعین کیا گیا تھا“

انہوں نے بتایا ”اس نظام کے تحت کسی بھی افسر کے تبادلے کے لیے حکومت کو ان کمیٹیوں کو ٹھوس وجوہات بتانا تھیں لیکن یہ نظام ق لیگ، پیپلز پارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف سمیت کسی کے حق میں نہیں تھا، اس لیے کسی نے بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا“

سابق آئی جی پنجاب کا کہنا ہے ”اگرچہ پولیس افسران قانون کے پابند ہیں لیکن مروجہ قوانین کے مطابق وہ سیاسی حکومتوں کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔ اس لیے جب بھی کسی سیاسی رہنما کے خلاف مقدمہ بنانے کا حکم آتا ہے تو پولیس افسران وہ مقدمہ درج کر لیتے ہیں۔ اگر تو کسی نے جرم کیا ہو تو اس پر قانونی طریقے سے دفعات لگتی ہیں۔ تاہم جرم ہونے یا نہ ہونے، دونوں صورتوں میں مخصوص دفعات تلاش کر کے مخالف پر لگائی جاتی ہیں“

خواجہ خالد فاروق کہتے ہیں ”جن افسران کو قانونی موشگافیوں کا پتہ ہوتا ہے، ان کو یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس مقدمے نے بالآخر ختم ہی ہونا ہے، اس لیے وہ جان بوجھ کر اس میں کوئی نہ کوئی ایسی کمی ضرور رکھتے ہیں کہ اگر اس کو دوبارہ کسی نئے حکم کے تحت واپس لینا پڑے تو باآسانی واپس لے سکیں“

بیوروکریسی میں سیاسی گروہ بندی

اس حوالے سے سابق سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ و کابینہ ڈویژن رؤف چوہدری کا کہنا ہے ”بھٹو دور سے پہلے بیوروکریسی آزاد تھی، یعنی وہ سیاسی حکومتوں کے قانونی احکامات کے علاوہ کوئی حکم ماننے کی پابند نہیں تھی۔ بھٹو دور میں ایسے کئی اقدامات اٹھائے گئے اور ٹریبونلز بنائے گئے، جن کے تحت بیوروکریسی سیاسی حکمرانوں کے احکامات کی پابند بن گئی“

رؤف چوہدری کہتے ہیں ”وقت کے ساتھ کچھ کام ایسے ہوئے کہ اب سرکاری افسران کے پاس ’نہ‘ کا آپشن رہا ہی نہیں ہے۔ ایک تو بیوروکریسی میں گروپنگ ہے۔ ایک گروپ ن لیگ، دوسرا پی پی پی، تیسرا پی ٹی آئی اور ق لیگ کے ساتھ ہے۔ یہ جماعتیں اپنے من پسند بیوروکریٹس کو نوازتی ہیں۔ اچھی پوسٹوں پر لگاتی ہیں. اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ حکومت تبدیل ہوتی ہے تو بڑے پیمانے پر تقرریاں و تبادلے ہوتے ہیں۔ اعظم خان کی مثال آپ کے سامنے ہے کہ ایک وقت میں وہ طاقتور بیوروکریٹ تھا اور حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی وہ او ایس ڈی بن کر بیٹھا ہے“

رؤف چوہدری کے مطابق دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی افسر ایک عرصے سے پنجاب میں ہے اور اس کے بچے وہاں پڑھ رہے ہیں، گھر گاڑی کی سہولت ہے اور وہ انکار کرتا ہے تو صوبائی حکومت فوراً کہتی ہے کہ اسے وفاق میں بھیج دو

”وفاق میں آنا برا نہیں ہے لیکن ایک تنخواہ دار کے لیے پوری فیملی کو شفٹ کرنا، نئی جگہ بچوں کے داخلے کروانا اور باقی انتظامات کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ اس لیے افسران یہ چھوٹے چھوٹے فوائد لینے اور مشکلات سے بچنے کے لیے حکومت کے تمام احکامات مانتے چلے جاتے ہیں“

انہوں نے سابق آئی جی پنجاب خواجہ خالد فاروق کی اس بات سے اتفاق کیا ”افسران کو جب معلوم ہو کہ احکامات سیاسی نوعیت کے ہیں تو وہ مشورہ دیتے وقت کچھ نہ کچھ ایسا نکتہ چھوڑ دیتے ہیں، جو حکومت تبدیلی کی صورت میں ان احکامات کو ختم کرنے میں مدد دے سکے“

ہمارے ادارے آزاد نہیں ہیں

سیاسی مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے پاکستان میں جس ادارے کا سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور عدالتوں کی جانب سے اسے پولیٹیکل انجینیئرنگ کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، وہ نیب ہے

نیب میں ایسے ایسے مقدمات بھی بنتے ہیں، جن میں کئی کئی سال ریفرنس تک دائر نہیں ہوتا اور جن کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہوتی ہیں، ان کے ساتھ مجرموں سا سلوک کیا جاتا ہے

اس بارے میں نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں ”قانونی طور پر تو تمام ادارے، افسران، بیوروکریسی اور عدلیہ اس بات کے پابند ہیں کہ وہ صرف اور صرف قانون کے تابع رہیں لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے بیوروکریسی، ادارے اور عدلیہ بھی بعض اوقات ایسے فیصلے کرتے ہیں کہ ان پر سوال اٹھتے ہیں“

انہوں نے کہا ”ہمارے ادارے بشمول عدلیہ آزاد نہیں ہیں۔ وہ دباؤ میں آتے ہیں اور افسران اپنے ذاتی مفادات کو سامنے رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ جھوٹے مقدمات بناتے ہیں، عدالتیں ان مقدمات کو سنتی ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ مقدمے میں دم نہیں ہے، اسے اس وقت تک لٹکاتی ہیں، جب تک مقدمات بنوانے والوں کے مقاصد پورے نہیں ہو جاتے“

عمران شفیق کے ایڈوکیٹ کے مطابق ”اگر تو مقدمہ ٹھوس ہو اور حقائق پر بنایا گیا ہو۔ واقعی جرم ہوا ہو تو اس کی تو نوعیت ہی الگ ہوتی ہے اور اگر مقدمہ فرمائشیں کر کے بنایا گیا ہو تو اس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے اور عدالتوں میں اسے ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے“

عمران شفیق نے کہا ”پاکستانی معاشرہ بھی حکمران کے احکامات کو انکار کرنے والوں کو کچھ زیادہ نہیں سراہتا۔ طاقتور ادارے بھی ایک طرف ہوتے ہیں تو پھر ایماندار افسران (اور حکمرانوں کے ناجائز احکامات کو انکار کرنے والوں کو) اپنی ایمانداری کی قیمت چکانی پڑتی ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close