ہاؤسنگ سوسائٹیز کی جانب سے ججوں کو پلاٹس دینے کا معاملہ، قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ویب ڈیسک

ایک ہاؤسنگ سوسائٹی نے ججوں کو پلاٹس دینے کے لیے سوسائٹی کی ممبرشپ کی پیشکش کی ہے۔ کچھ ریٹائرڈ ججوں کا کہنا ہے کہ ججوں کو اس طرح کے پلاٹس بالکل نہیں ملنا چاہیں کیونکہ وہ قانونی و اخلاقی طور پر اس کے مستحق نہیں۔

وقتاً فوقتاً حکومت کے مختلف اداروں کی جانب سے ملازمین کی رہائشی سہولت کے لیے مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کی جاتی ہیں، حال ہی میں، ایک ایسی ہی ہاؤسنگ سوسائٹی فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ اتھارٹی اسلام اباد کے سیکٹر ایف 14 اور ایف 15 میں قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، جس میں افسر شاہی کے افراد، وکلا اور ججوں کے لیے بھی کوٹا مختص کیا گیا ہے

اس حوالے سے مقامی انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ وفاقی ملازمین کی اس سوسائٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو بھی اس سوسائٹی میں ممبرشپ کی پیشکش کی ہے اور اس حوالے سے ایک خط بھی لکھا ہے

یہ پیشکش ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے، جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے فروری 2021 میں ججوں، وکلا اور افسر شاہی کے افراد کو اس طرح سے پلاٹ دینے کے عمل کو غیر قانونی اور غیر ائینی قرار دیا تھا

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کہتے ہیں ”اس طرح ججوں کو پلاٹ دینے کا عمل انتہائی نامناسب ہے۔ جب کوئی جج سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا جج مقرر ہوتا ہے، تو اس کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مراعات کیا ہوں گی اور اس کی تنخواہ کیا ہوگی، لہٰذا کم تنخواہ یا کم سہولیات کا بہانہ کر کے اس طرح کے پلاٹ نہیں لیے جا سکتے‘‘

جسٹس وجیہہ الدین کے مطابق، ان کے دور میں بھی ججوں کے لیے اس طرح کی ایک ایسی اسکیم آئی تھی لیکن یہ کہ انہوں نے اس اسکیم میں پلاٹ نہیں لیا۔ وہ بتاتے ہیں ”مجھے یاد پڑتا ہے کہ کے ڈی اے اسکیم ون اے میں مجھے اس طرح کی پیشکش کی گئی تھی۔ مجھے میرے کچھ فاضل دوست ججوں نے اس بات پر قائل کرنے کی بھی کوشش کی کہ میں پلاٹ لے لوں، لیکن میں نے ایسا نہیں کیا تھا۔‘‘

سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے سابق صدر جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ اس طرح ججوں میں پلاٹ بانٹنے سے عدلیہ کے معزز اراکین کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ”سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے حوالے سے ڈان اخبار نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے چاروں صوبوں میں چار مختلف پلاٹس لیے ہیں اور یہ کہ انہوں نے حلف نامہ بھی دائر کیا ہے۔ ڈان اخبار کو توہینِ عدالت کا نوٹس دیا گیا لیکن ڈان اخبار اپنے موقف پر قائم رہا، جس سے جسٹس نسیم حسن شاہ کی ساکھ کو بھی بری طرح نقصان پہنچا اور عدلیہ پر بھی سوالات اٹھنے شروع ہوئے۔‘‘

جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے ”پلاٹس بانٹنے کی تاریخ بہت زیادہ پرانی نہیں ہے۔ سن 1960 کی دہائی میں جج کو ریٹائرمنٹ کے وقت دو سو سے تین سو ایکڑ زمین دی جاتی تھی۔ اس وقت آبادی کم تھی اور بہت ساری زمین خالی پڑی تھی۔ جہاں تک پلاٹ ملنے کے سلسلے کا تعلق ہے تو یہ گزشتہ کچھ دہائیوں سے شروع ہوا ہے‘‘

جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے کہ جب اس ملک میں ایک عام آدمی کو 80 یا 120 گز کا مکان رعایتی نرخ پر نہیں مل سکتا، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جج اور افسرشاہی کے افراد یا کسی اور شخص کو پلاٹ کیوں ملے۔ ججوں کو دوران سروس اچھی خاصی مراعات اور بہتر تنخواہ ملتی ہے انہیں اسی میں گزارا کرنا چاہیے‘‘

جسٹس رشید اے رضوی کا کہنا ہے ”غالباً ہاؤسنگ سوسائٹیز اس طرح کے پلاٹ ججوں کو اس لیے دیتی ہیں تاکہ انہیں کسی قانونی معاملے میں کوئی دقت پیش نہ آئے، لیکن اس طرح پلاٹس دینے سے یہ تاثر جاتا ہے کہ ججوں پہ اثر انداز ہوا جا رہا ہے۔ سن 2017 میں جب میں سپریم کورٹ بار ایسوسییشن کا صدر بنا تو مجھے معلوم ہوا کہ کچھ ججوں نے پلاٹس لیے ہیں، جو بار کے ممبرز بھی ہیں۔ میں نے ان سے بات چیت کر کے انہیں اس بات پہ راضی کیا کہ وہ یہ پلاٹ چھوڑ دیں۔‘‘

واضح رہے کہ پاکستان میں ججوں کے اثاثوں کے حوالے سے کئی بار بحث گردش میں رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار کے معیار زندگی پر بہت سارے لوگوں نے تنقید کی تھی۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور ان کے گھر والوں کے معیار زندگی پر بھی مختلف حلقوں میں بحث ہوئی ہے۔ حال ہی میں قاضی فائز عیسیٰ، جو سپریم کورٹ کے اگلے چیف جسٹس ہونگے، کے حوالے سے بھی اثاثوں کا معاملہ سامنے آیا تھا

رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ جس طرح ایک عام رکن اسمبلی اپنے اثاثے ظاہر کرتا ہے بالکل اسی طرح ججوں کو بھی نہ صرف یہ بتانا چاہیے کہ ان کے پاس کتنے پلاٹس ہیں بلکہ ان کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ ان کے اثاثے کتنے ہیں

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ پلاٹوں کے حوالے سے نہ صرف ایک فیصلہ موجود ہے بلکہ اس سے پہلے ایک چار رکنی بینچ نے بھی اس حوالے سے فیصلہ دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا اور تمام فورمز پر اس مسئلے کو اٹھایا جائے، ‘حال ہی میں چیئرمین سینیٹ کی مراعات کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک طوفان اٹھا اور اب بظاہر نظر آ رہا ہے کہ شاید سینیٹ اس پر گھٹنے ٹیک دے۔ بالکل اسی طرح ججوں کے پلاٹس کے حوالے سے بھی مزاحمت ہونی چاہیے۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close