کراچی میں جاری فطرت کُشی (قسط1)

مُلّا مزار

سازشوں کی ابتدا

جب کراچی شہر نے ترقی کا سفر شروع کیا تھا تو اُس وقت سے طاقت مقامی لوگوں کے ہاتھوں سے نکلنا شروع ہوئی تھی اور جب 1947 میں برصغیر دو حصوں میں تقسیم ہوا تو غیر فطری ہجرتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان تمام ہجرتوں سے شہروں کا توازن بگڑ گیا اور کراچی خاص طور پر متاثر ہوا۔ اس تمام صورتحال میں اندرون شہر صدیوں سے بسنے والے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور وہ ایک طرح سے اقلیت میں تبدیل ہوگئے، البتہ شہر کے اطراف میں صورتحال کچھ مختلف تھی، جہاں قدیم باشندے اپنا تشخص قائم رکھے ہوئے تھے۔ اسی طرح سے شہری اور دیہی آبادی میں ایک طرح سے توازن برقرار تھا۔

گزشتہ چند سالوں سے، خاص طور پر سوویت یونین کے شکست و ریخت کے بعد اس پورے خطے کو بین الاقوامی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران کراچی کی جغرافیائی اہمیت بڑھ گئی اور ساتھ ساتھ کراچی کی زمینوں کی مانگ بھی بڑھ گئی۔ اسی دوران اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے والے گروہ وجود میں آئے۔ چونکہ شہر میں گنجائش کم تھی اس لیے ان گروہوں نے کراچی شہر کے اطراف کی زمینوں کو ہتھیانے کے منصوبے بنائے۔ چونکہ وہاں لوگ صدیوں سے بس رہے تھے، انہیں یکایک بے دخل نہیں کیا جا سکتا تھا. اسی لئے انہیں بے دخل کرنے کے لیے مختلف انداز میں سازشوں کے جال بننے شروع ہوئے۔ انتظامیہ میں غیر مقامی لوگوں کو اختیار کا مالک بنایا جانے لگا۔ صحت اور پانی کے منصوبے اہمیت سے خارج کردیے گئے۔ دوردراز کے گاؤں گوٹھوں میں بجلی کا بحران پیدا کردیا گیا۔ کئی کئی ہفتوں بجلی کو بند کیا جانے لگا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اگر سازشوں کو مکمل بیان کیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ ایک مکمل کتاب صرف انہی پر لکھی جاسکتی ہے۔

اقلیت میں تبدیلی

جس طرح ہم نے ”سازش“ والے عنوان میں ذکر کیا تھا کہ 1947 میں جب برصغیر کا توازن بگڑ گیا، تو اس کے اثرات سب سے زیادہ کراچی شہر پر پڑے۔ اندرون شہر قدیم باشندے نہ صرف اکثریت سے محروم ہوئے بلکہ زندگی کی بنیادی ضروریات پر بھی ان کا دست رس نہ رہا۔ جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج اگر اندرون شہر قدیمی مقامی آدمی اپنی مرضی سے انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا، جب تک وہ کسی اور کا سہارا نہ لے اور اگر وہ الیکشن میں حصہ لینا بھی چاہے تو سو فیصد اس کی ضمانت ضبط ہو جائے گی (اگرچہ لیاری نے کوشش کی کہ اس کی اکثریت قائم رہے، اسی جرم کے پاداش میں لیاری کا جو حشر ہوا، وہ آپ کے سامنے ہے)۔ البتہ بیرون شہر مقامی آبادی کسی نہ کسی طرح اپنی اکثریت برقرار رکھے ہوئے تھی۔
موجودہ صورتحال جو سامنے آئی ہے، اس صورتحال میں نہ صرف قدیم باشندے بیرون شہر میں اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے بلکہ انہیں بنیادی ضروریات زندگی کے لیے بھی دوسروں کی منّت وسماجت کرنی پڑے گی ۔ لگتا تو یہی ہے کہ جس طرح فلسطین میں غزہ کا علاقہ محدود کیا گیا ہے، اسی طرح یہ پہاڑی سلسلہ بھی قدیم آبادی کے غزہ دوم بن سکتا ہے۔

جو لوگ آج عوامی ووٹوں سے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں، اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو وہ اپنا ایک کونسلر بھی منتخب نہیں کرسکیں گے۔ ان کی حیثیت ایک ”جوجُک“ (دوسروں کو نعروں کے ذریعے خوش کرنے والے) کی رہ جائے گی۔

اگرچہ یہ باتیں انتہائی تلخ ہیں، لیکن یہ سو فیصد درست ہیں اور مقامی رہنما خواہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں، انہیں جوش سے نہیں بلکہ ہوش سے کام لینا ہوگا۔ ممکن ہے وہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

مسئلہ کیا ہے؟

جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ کئی سالوں سے کراچی میں بلڈرمافیا سرگرم ہے۔ بلڈرمافیا کے غیر قانونی اور ناجائز طریقہ کار کے لیے ”چائنا کٹنگ“ کااصطلاح استعمال ہوتا ہے۔ ایک طرح سے چائنا کٹنگ کی اصطلاح غیر قانونی اور ناجائز اقدام کو قانونی شکل میں سامنے لانے کو کہا جاتا ہے۔ چائنا کٹنگ کا عمل اس وقت نہ صرف شہر کے اندر چل رہا ہے بلکہ یہ عمل کراچی کے ان علاقوں میں بھی شدت کے ساتھ جاری ہے جہاں خوبصورت پہاڑ اور وسیع میدان ہیں۔

اس وقت بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے کے نام سے جو تعمیراتی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں، وہ اسکیمیں چائنا کٹنگ سے بھی تجاوز کر چکی ہیں۔ ان منصوبوں کو اگر ”نیچرکلنگ“(Nature killing)کانام دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کیونکہ وہ براہ راست فطری ماحول کو تباہ کر رہے ہیں، پہاڑوں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں، جس سے موسمی اثرات میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے ۔ بارش کی جگہ صرف اولے پڑتے ہیں۔ ندی نالوں سے ریتی بجری کے بے دریغ نکالنے سے زمینیں بنجر ہورہی ہیں۔ کھیتوں کے لیے زیرزمین آبی ذخائر ختم ہورہے ہیں۔ کھیتی باڑی سے منسلک لوگ گزر اوقات کے لیے مجبوراََ گٹر کا پانی استعمال کررہے ہیں۔ کئی علاقوں میں گٹر کے پانی میں کیمیکل کی آمیزش زیادہ ہے۔ یہی کیمیکل سبزیوں اور دیگر شکل میں انسانی خوراک کا حصہ بن رہے ہیں، جس سے شہر میں بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔

میڈیا میں ان کے خلاف رپورٹس بھی پیش کی جاتی ہیں، لیکن ان کے مقاصد منفی ہوتے ہیں یعنی کاشت کاروں کو ہراساں کرنا اور ان سے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے، جبکہ اصل مسئلہ کو نظرانداز کیا جاتا ہے. کبھی بھی ریتی بجری اور فطرت کُشی کو اپنی رپورٹ کا حصہ نہیں بناتے۔ اصل مسئلہ کو نظر انداز کرنا دراصل از خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close