آج کی کہانی اس تصویر کی ہے، جس کے بارے اکثر لوگ بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ یہ برٹش لائبریری کی عمارت ہے، لیکن غالب اکثریت اس کی تفصیلات سے لاعلم ہے.
اس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ اس کے ساتھ شیوا کنج ھاسٹل، جو تقسیم سے پہلے اسٹوڈنٹ ھوم کے نام سے مشہور تھا. شیوا کنج ، مِٹھا رام ھاسٹل اور سرنا گتی بلڈنگ ڈیارام گدومل شھانی اور اس کے بھائی دیوان مِٹھا رام شھانی کی ملکیتیں ہیں.
تب سندھ میں کالج نہ ہونے کی وجہ سے میٹرک کے بعد تعلیم کے کے لیے بمبئی جانا پڑتا تھا، اس لیے یہ کسی غریب شاگرد کے بس کی بات نہیں تھی، کہ وہ میٹرک سے آگے اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکے. اسی بات کو دیکھتے ہوئے سندھ کےمشہور تعلیمی ماھر اور سماج سدھارک ڈیارام گدو مل شھانی نے یہ بیڑا اٹھایا اور کالج کے قیام کے لیے چندہ جمع کرنے کی ٹھانی.
ڈیارام گدو مل نے اپنے بھائی مِٹھا رام ، دوستوں ھر چند رائے، دیوان ڈیارام، جیٹھ مل اور دوسرے دوستوں کو ملا کر چندہ اکٹھا کرنا شروع کیا. سب سے زیادہ چندہ دیوان ڈیا رام جیٹھ مل نے دیا، تو اسی وجہ سے کالج کا نام جو پہلے سندھ کالج طے کیا گیا تھا، بعد ازاں اسے تبدیل کر کے ڈیارام جیٹھ مل کے نام سے موسوم کیا گیا، اس طرح اس کا نام ڈیارام جیٹھ مل (ڈی۰جے) سندھ کالج رکھا گیا.
دیوان ڈیارام گدو مل شھانی کے بھائی مِٹھا رام نے ھاسٹل کے لیے زمین عطیہ کی اور ۱۵ ھزار کا چندہ دیا، اس لیے ھاسٹل کا نام ”مِٹھا رام ھاسٹل“ رکھا گیا. دونوں بھائیوں نے سیوا کنج عمارت بھی ھاسٹل کے لیے بنا کر دی ،جو آج بھی فریئر روڈ پر رام باغ کے سامنے موجود ہے.
۸۰ کی دھائی تک یہ بلڈنگ ھاسٹل کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ اس کے ساتھ کچہری روڈ پر دیوان دیا رام گدو مل شھانی نے لال پتھروں کی ایک خوبصوت عمارت بنوائی، جس کو ”سرنا گتی منزل“ کا نام دیا، جس کے معنی ہیں “سر سنگیت اور فن کی منزل“ اس کے نیچے اس نے ایک بہت بڑی لائبریری بھی بنائی۔
پاکستان چوک پر تقسیم سے پہلے لیمبرٹ مارکیٹ تھی، جس کو بعد میں حقانی چوک منتقل کیا گیا، لیکن اب اس کا وجود باقی نہیں ہے. پاکستان چوک کا نام پہلے گاندھی چوک تھا۔
سرنا گتی منزل بلڈنگ 1936 میں مکمل ہوئی، اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کراچی کی پہلی زلزلہ پروف عمارت ہے۔
نرمل جیوتانی نے "کلا باری” ڈی۰جے کالج (دیا رام جیٹھ مل کالج) میں قائم کی تھی، جس کا مقصد آرٹ کو پروموٹ کرنا تھا. اس سیںٹر میں پینٹگ اور مجسمہ سازی بھی سکھائی جاتی تھی. یہ شاعروں، آرٹسٹوں، رنگ اور برش کے پوجاریوں کا مرکز تھا. ایک طرح سے یہ آرٹس کونسل تھا- اس کو اور ۱۹۲۳ میں قائم ٹیگور آرٹس اسکول کو بھی اس عمارت میں منتقل کیا گیا-
بنگال کے مشہور شاعر رابندر ناتھ ٹیگور نے کولکتا کے بولپور کے علاقے میں”شانتی نکیتن” کا بنیاد رکھا۔ اس عظیم درسگاہ، جس کو ”وشو بھارتی یونیورسٹی“ بھی کہتے ہیں، کو کامیاب بنانے کے لیے ٹیگور پوری دنیا میں چندہ اکھٹا کرنے کے لیے نکلا. اس کی نوعیت جھولی چندہ کی طرح نہیں تھی، بلکہ مختلف ممالک کے آرٹسٹوں کے ساتھ ملکر راستوں پر ڈرامے پیش کیے اور سر سنگیت کی محفلیں جمائی جاتی تھیں، ان سے جو پیسے ملتے تھے وہ شانتی نکیتن کے لیے چندے کے طور پر جمع کیے جاتے تھے۔
١٩٢٠ میں جب ٹیگور کی شاعری کی کتاب”گیتا انجلی” کو نوبل انعام دیا گیا، تو ٹیگور نے یہ پیسے بھی چندے میں دے دیے۔۱۹۲۳ میں جب ٹیگور اس سلسلے میں سندھ کی یاترا پر آئے تو حیدرآباد میں شانتی نکیتن کے لیے ۹۰ ھزار کا چندہ دیا گیا. حیدرآباد میں رابندر ناتھ ٹیگور ناٹک منڈلی کا افتتاح بھی ٹیگور نے کیا تھا. کراچی آئے تو یہاں پر بھی ٹیگور ناٹک منڈلی کا ڈی جے کالج میں افتتاح کیا، وہاں پر پہلے ہی نرمل جیوتانی کی بنائی گئی "کلا باری” موجود تھی. جب سرنا گتی منزل مکمل ہوئی تو کلا باری اور ٹیگور آرٹ اسکول کو یہا ں منتقل کیا گیا اور دونوں اداروں کو منسلک کیا گیا۔
کراچی میں ٹیگور آرٹس اسکول کے قیام کے لیے اس وقت مشہور آرٹسٹ خان چند دریانی، بھگوان رامچندانی، چانڈو مل وادھوانی اور پہلاج سنگھ آڈوانی سرگرم تھے۔ کراچی میں ٹیگور نے جمشید مہتا سمیت بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں کی۔
تقسیم کے بعد لائبریری برٹش کونسل کے زیر اہتمام رہی اس بلڈنگ کو حاصل کرنے کے لیے شہانی فیملی نے کورٹ میں کیس داخل کیا. ایک طویل قانونی جنگ کے بعد بلڈنگ اور لائبریری کو اصل مالکوں کو واپس دیا گیا۔
بھٹو کی کابینہ کے وزیر پی۔کے شھانی جو دیا رام گدومل کے پوتے تھے۔ دیا رام گدو مل کا مجسمہ جو عمارت کے سامنے ایستادہ تھا، اب اسٹور میں پڑا ہوا ہے۔
یہ ھماری تاریخ ہے، جو ان تاریخ ساز شخصیتوں نے بنائی تھی ۔آئیں ہم ان کو یاد کریں اور اپنی تاریخ بچائیں
محقق اور تاریخدان گل حسن کلمتی نے یہ مضمون 3 آکتوبر 2018 کو تحریر کیا، جو ان کی اجازت سے سنگت میگ میں شایع کیا جا رہا ہے.